Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کہانی کہاں پرانی ہوتی ہے

 
ٹھگوں نے مقامی لوگوں میںیہ مشہور کردیا کہ وہ ایسا نایاب کپڑا بُننے کے ماہر ہیں جو صرف عقلمندوں کو ہی نظر آتا ہے
 
 وسعت اللہ خان 
 
پیارے بچو 
ایک تھا راجہ جو بہت خوش لباس تھا مگر کچے کانوں کے ساتھ ساتھ خوشامد پسند بھی تھالہذا بہت سے عیار تاجر راجہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر بھانت بھانت کی گھٹیا پوشاکیں دساور سے سستی خرید کر نہایت مہنگے داموں پیش کر کے اپنا الو سیدھا کر لیا کرتے تھے۔ہوتے ہوتے راجہ کی اس کمزوری کی شہرت بیرونی ملکوں تک پھیلتی چلی گئی۔
جب 2ٹھگوں تک یہ خبر پہنچی تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ اس راجہ کی ریاست میں دور دراز کا سفر کرکے پہنچے۔ان ٹھگوں نے مقامی لوگوں میں مشہور کردیا کہ وہ ایسا نایاب کپڑا بُننے کے ماہر ہیں جو صرف عقلمندوں کو ہی نظر آتا ہے۔بے وقوف جتنی بھی کوشش کرلیں وہ اس کپڑے کو نہیں دیکھ سکتے۔
راجہ تک جب اس نایاب کپڑے کی شہرت پہنچی تو اس نے ان عجوبہ¿ روزگار کاریگروں کو بلا بھیجا۔دونوں ٹھگوں کو سرکاری بگھی میں عزت و طمطراق کے ساتھ لایا گیا اور انہوں نے کورنش بجاتے ہوئے راجہ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کے بعد اس بے نظیر کپڑے کی خوبیوں کے بارے میں وہ ،وہ افسانہ طرازیاں کیں کہ پوچھو مت۔
راجہ کو اس عجوبہ کپڑے سے تو خیر دلچسپی تھی ہی مگر اس سے بھی زیادہ اس بات میں دلچسپی تھی کہ جب وہ اس نادر کپڑے کی پوشاک زیبِ تن کرے گا تو جس جس مشیر کو یہ پوشاک دکھائی نہیں دے گی اس کی عقلمندی کا بھانڈا فوراً پھوٹ جائے گا۔یوں ان بے وقوف مشیروں کی جگہ راجہ صحیح معنوں میں عقلمند نائبین کا تقرر کر سکے گا۔
چنانچہ ٹھگوں کی فرمائش پر قصر کے ایک گوشے میں کھڈیاں لگائی گئیں اور اس نایاب کپڑے کا دھاگہ بنانے کےلئے ٹھگوں کو خزانے سے لاکھوں روپے ترنت جاری کردئیے گئے۔ٹھگ سارا سارا دن خالی کھڈیوں پر کھٹا پٹ کرتے رہتے اور شام کو راجہ سے وصولے پیسے سے خوب مزے اڑاتے۔
جب انہیں لگنے لگا کہ اب راجہ کا پیمانہ¿ صبر کسی بھی دن لبریز ہو سکتا ہے تو ایک روز انہوں نے مشیر سے کہا کہ کپڑے کا پہلا تھان تیار ہوچکا ہے اور نواب جب بھی چاہیں ہم اس تھان میں سے پوشاک تیار کرسکتے ہیں۔بس اتنی سی درخواست ہے کہ چونکہ کپڑا نازک ہے اس لئے مہا بلی کو یہ پوشاک زیبِ تن کرانے کا اعزاز بھی ہمیں ہی بخشا جائے۔راجہ نے جب یہ خبر سنی تو خوشی سے جھوم اٹھا کہ جو پوشاک اس کےلئے تیار ہوئی ہے وہ دنیا کے کسی اور نواب کو نصیب نہیں۔
جب جلوس کا دن آیا تو دونوں ٹھگ یوں ظاہر کرتے ہوئے آئے گویا پوشاک اپنے ہاتھوں پر دھرے تھال میں لائے ہیں۔راجہ کی جانب سے پہلے تو ان بُنکاروں کو ایک ایک سونے کی اشرفیوں سے بھرا ایک ایک تھیلااور نقرئی دھاگے سے سِیاگیا زربفتی دو شالہ پیش کیا گیا۔اس کے بعد تالی بجا کر تخلیہ طلب کیا تاکہ لباسِ نادر زیبِ تن ہو سکے۔
دونوں ٹھگوں نے راجہ کے سب کپڑے اتار ااور لپیٹ کے ایک طرف رکھ دیا۔پھر نئی پوشاک پہنائی۔راجہ کو لگا جیسے نیا لباس پہننے کے باوجود اسے سوائے اپنے جسم کے کچھ نظر نہیں آرہاتاہم اس نے منہ سے ایک لفظ نہ نکالا مبادا بُنکاروں پر یہ راز فاش ہوجائے کہ وہ کوئی عقل مند راجہ نہیں اور پھر اگر یہ راز لوگوں تک پہنچ گیا تو توقیرخاک میں مل جائےگی۔جب شاندار جلوس قصر سے برآمد ہوا تو دور کھڑ ے لوگوں کے ٹھٹ نے بآوازِ بلند مہابلی کی جے ہو کے نعرے بلند کئے۔
مجمع عام میں ایک7,5 برس کا بچہ بھی اپنے باپ کی انگلی پکڑے شاہی لباس کی جھلک کا منتظر تھا۔جب راجہ کی سواری سامنے سے گزری تو بچے کے منہ سے بے ساختہ نکلا ” بابا راجہ توننگا ہے “۔ باپ نے اپنا ہاتھ مضبوطی سے بچے کے منہ پر رکھ دیا مبادا بات پھیل جائے اور بلاوجہ کوئی مصیبت ٹوٹ پڑے۔اس پر قریب کھڑے ایک شخص نے کہا :کیوں اس معصوم پر ناحق ظلم کرتے ہو۔یہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے کہ راجہ بے لباس ہے۔
ایک اور شخص نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا: بالکل صحیح بات ہے۔یوں کان در کان یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ راجہ نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اس نے اشاروں اشاروں میں جلوس قصر کی جانب پلٹانے کا حکم دیا۔
خجالت آمیز غصے سے تھر تھر کانپتے راجہ نے قصر میں داخل ہوتے ہی وزیرِ امورِ دربار سے کہا کہ ان جولاہوں کو فوراً مشکوں میں کس کے پیش کیا جائے جنہوں نے ہمارے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیامگر جب وزیرِ دربار نے لجلجاتے ہوئے کہا کہ حضور وہ ٹھگ تو سونے کی اشرفیوں بھرے تھال اور دوشالے لے کر صبح ہی چمپت ہوگئے تو راجہ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے اور اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وزیرِ دربار کی مشکیں کس کے اسے جلاد کے حوالے کردیا جائے کیونکہ اسے اچھی طرح سے اس جعلسازی کا علم تھا پھر بھی یہ نمک حرام ہمیں ہر ہفتے سب اچھا کی رپورٹ دیتا تھا۔
وزیرِ دربار نے فرطِ خوف سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا: بجا فرمایا حضور !مگر میں نے آپ کو حقیقت یوں نہیں بتائی مبادا آپ مجھے بے وقوف سمجھ کر عہدے سے برطرف کردیںحالانکہ مجھے بھی حضور کی طرح وہ کپڑا کبھی بھی کسی کھڈی پر بنتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔
مشیر کی جانب سے اس طنزیہ چوٹ پر راجہ کا چہرہ ذرا دیر کےلئے خجل ضرور ہوا مگر اس نے خود پر قابو پا کر روا یتی رعب دار آواز میں سپاہیوں سے کہا: لے جاواور اس نابکار کو پھانسی دے دو۔درباریوں نے راجہ کی انصاف پروری اور فراست کے نعرے لگائے اور پھر سے ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ارے نہیں بھئی! یہ کہانی تو پونے200سال پہلے ڈینش ادیب ہینز کرسچن اینڈرسن نے لکھی تھی مگر بچو! تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔مجھے بھی لگتا ہے جیسے یہ کہانی آج ہی لکھی گئی ہو۔
******

شیئر: