Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اغیار کے’’ وال اسٹریٹ ‘‘سے زیادہ باخبرہماری ’’اسٹریٹ والز‘‘

کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنی ہو یا دشمنوں سے ہاتھا پائی کرنی ہو، دیواروں سے آگاہی ہو جاتی ہے

 

محمد قمر اعظم ۔ جدہ

وال اسٹریٹ ،امریکہ کا بڑا اخبار ہے،سُنا ہے کہ لوگ اسے بڑا معتبر مانتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخباروں میں شامل ہے مگر صاحب اس طرح اس اخبار کی مقبولیت کا اندازہ کیسے لگا یا جا سکتا ہے؟ کاغذکا ٹکڑا ہے، پڑھ کر پُرانا بھی ہوتا ہو گا اور کبھی کبھی پھٹ بھی جاتا ہو گا۔ زیادہ وقت گُزرے تو زیادہ پُرانا ہو جاتا ہے مگر صاحبو!وطن عزیز میںموجود اسٹریٹ والز، اغیار کے ’’وال اسٹریٹ‘‘ سے زیادہ معتبر و باخبرہیں۔ہمارے ہاں جو بھی وال اسٹریٹ ہے ،وہ نہ تو کبھی پُرانی ہوتی ہے نہ ہی کاغذ کی طرح پھٹ سکتی ہے۔ بار بار استعمال کی جا سکتی ہے۔

آپ ہر اسٹریٹ کی وال یعنی دیوار کو ہر طرح کی تحریر کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اورپھر تحریر پُرانی ہونے پر دیوار پر چونا پھیرسکتے ہیں اوریوںدیوار پھرسے نعروں اور اشتہاروں کے لئے تیارہوجاتی ہے ۔ گرتے بالوں یا دانتوں کا علاج مطلوب ہو یا پُرانی دِق سے چھٹکارہ پانا ہو، شوگر اور ہائی بلڈپریشر کو بھگانا ہو یا گھر میں ایک روپے کی لاٹری سے خوشحالی لانی ہو ، مٹاپے کو ختم کرنا ہو یا دبلے شخص کو موٹا کرنا ہو،گھر میں کوئی رسم کرانی ہو یا گھر بیٹھے ہنر سیکھنا ہو ،روزگار کی تلاش ہو یا ذریعہ معاش میں اضافہ کرنا ہو،غرض دیواریں ہر مسئلے کا حل ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان دیواروں سے ملکی حالات بلکہ حالات حاضرہ کا پتہ بھی لگایا جا سکتا ہے ۔

صاحبان نے کتنی کرپشن کی ؟ اپوزیشن کہاں کہاں جلسے کر رہی ہے ، کونسا ’’بے گناہ‘‘ لیڈر جیل میں ہے ،کونسا ’’گناہگار‘‘ رہنما آزادگھوم رہا ہے ؟کشمیر کس طرح پاکستان بن سکتا ہے ؟ فلسطین کی آزادی کی راہ میں کون روڑے اٹکا رہا ہے ؟ کس کی منہ زوری کولگام دینے کی ضرورت ہے اور وہ کونسا لیڈر ہے جو مرنے کے بعد ہر گھر سے نکلے گا؟ ان اسٹریٹ والز سے یہ تک معلوم ہو سکتا ہے کہ عوام کا کونسا مسئلہ بلکہ مسئلے آج کل گرما گرم خبر بنے ہوئے ہیں اور ذمہ داران کے منہ میں گرم گھونٹ کی طرح اَڑ گئے ہیں کہ نہ اُگلے جا سکتے ہیں اور نے نگلتے ہی بنتی ہے ۔

بجلی کی مہنگائی ہو یا آٹے کی قلت کی دہائی ہو، چینی پہنچ سے دور ہو گئی ہو یا سبزی کی گرانی سے عوام مجبور ہو گئے ہوں، لوڈشیڈنگ کا دور دورہ ہو یا بے روزگاری نے گھیرا ہو، ظالموں سے جواب لینا ہو یا دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہو، کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنی ہو یا دشمنوں سے ہاتھا پائی کرنی ہو۔ کہیں کوئی بازار لگا ہو یا ٹیکس کا آزار لگا ہو، حکومت کی مذمت کرنی ہو یا فرنیچر کی مرمت کرنی ہو ۔گویا اگر آپ نے قریباً20 کلومیٹر کا فاصلہ اپنے گھر تک طے کر لیا تو آپ کو نہ صرف جملہ معلومات حاصل ہو جا ئیں گی بلکہ یہ بھی علم ہو جائے گا کہ کونسا لیڈر آج کل عوام میں مقبول ہے اور ان ’’دیواری اخباروں‘‘ کی وجہ سے آپ اس بات سے بھی واقف ہو جائیں گے کہ وہ لیڈرکس طرح عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا اور اس کے آنے سے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلے کیونکر پیدا ہونگے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کا ہیرو برسراقتدار ہے تو آپ کو کسی دیوار سے یہ معلومات بھی مل سکتی ہیں کہ وہ کتنی مافوق الفطرت خوبیوں کا مالک ہے اور کس طرح عوام اس کے اقتدار میں چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور فراغت و سکون کے ان لمحات کو اپوزیشن ایک ویلن کی طرح سبوتاژ کرنے کی ناکام کوششوں میں لگی ہوئی ہے غرض ان دیواروں کے بقول ہر رہنما ہیرو بھی ہے اور ویلن بھی، منصف بھی ہے اورمجرم بھی، انسان بھی ہے اور شیطان بھی، وہ بزدلوں کی طرح پیسہ لوٹ کر بھاگنے کے لئے تیار بھی ہے اور لوٹے ہوئے پیسے کو غیر ملکی بینکوں سے لانے کے لئے بے قرار بھی ہے۔ یہ دیواریں ایسی رنگارنگ خبروں، تبصروں، معلومات اور تجزیوں پر مبنی ہیں کہ ہمارے شہر اور گلی محلے، ایک حیرت کدہ معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی اخبار پڑھے بغیر آنکھ نہیں کھلتی اس لئے وہ سویرے سویرے گھر سے نکل جاتے ہیں تاکہ صبح صبح دیواریں پڑھ لیں اور معلومات کا خزانہ ذہن و دانش میں مجتمع کر کے گھر لوٹیں اور اطمینان سے ناشتہ کریں۔سیانے کہتے تھے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ دیواروں کی زبان بھی ہوتی ہے مگر دیوار بے چاری’’ محبت‘‘ کی طرح بول نہیںسکتی اس کی حالت اس کی نگاہوں یا چہرے سے عیاں ہوتی ہے۔ اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ لیں پھر دنیا کا کوئی اخبار اچھا نہیں لگے گا۔ ویسے بھی ہم ادبی آدمی ہیں اور اردو ادب میں دیواروں پر بڑے محاورے موجود ہیں۔

کبھی کسی کو نصیحت کر کے دیکھئے، فوراً ردِ عمل کے طور پر جواب آئے گا کہ آپ میری ترقی کی راہ میں دیوار مت بنیں یا پھر امتحانات کے دنوں میں اپنی آل اولاد کو موبائل ، کمپیوٹر اور دیگر خرافات سے پابندی کا حکم صادر کیجئے تومعلوم ہو جائے گا کہ آپ ان معصوموں کو دیوار سے لگا رہے ہیں اور کچھ نہیں تو بچوں کی اماں جان ہی آپ کو نصیحت فرما دیں گی کہ آپ اپنے اور بچوں کے درمیان موجود نفرت یا شکایت کی دیوار ڈھادیں اور ان کی بات غور سے سنیں اور آپ چونکہ اقلیت میں ہونگے لہٰذا اپنے خیالا ت، افکار اور نصیحتوں کو فوری طور پر دیوار میں چُن کر چین کی بنسری بجائیں گے ۔ بات چلی تو دور تک نکل گئی اور ملک کے درو دیواروہیں رہ گئے۔ ہمارے ادبی محاوروں ہی میں نہیں بلکہ گھریلو معاملات تک میں دیوار موجود ہوتی ہے۔ بہو اگر ساس سے الگ ہونے کی فرمائش کرے تو فوراً طعنہ دیاجاتا ہے کہ ہائے کسی نالائق بہو ہے، ماں بیٹے کے بیچ دیوار اُٹھا رہی ہے۔

دیواریں گھر کی ہوں یا باہر کی، ان کے بڑے فوائد ہیں ۔بڑے بڑے مصور گھر کی دیواروں پر تصاویربنا بنا کر بڑے مصور بنے مگروہ دیواریں دراصل کرائے کے گھر کی تھیں ۔اگر آپ کا گھر کرائے کا ہے اور آپ کے بچے کی لکھائی یا ڈرائنگ خراب ہے یا پھر اسے حساب سیکھنے میں کسی دشواری کا سامنا ہے تو دیر مت کیجئے، آج ہی اسے دیواروں پر مطلوبہ مضامین کی مشق کروانا شروع کر دیجئے۔ تین چار دیواریں سیاہ کرنے کے بعد دیکھئے گا کہ کس طرح مطلوبہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنے بچوں کو اپنے سامنے بُلا یا اور فرمایا ’’بچوں ہم جس گھر میں جا رہے ہیں ،اس کی دیواروں کو صاف رکھنا۔ کان کھول کر سن لو، اگر کسی نے کسی بھی قسم کی ڈرائنگ یا لکھائی کی تو بُرا حشر کر دونگا۔‘‘ بچوں نے حیرت سے پوچھا کہ ابا پہلے تو آپ ایسا نہیں کہتے تھے بلکہ ہمیں آپ دیواروں پر ہی لکھنا سکھاتے تھے، اب کیوں منع کر رہے ہیں؟ باپ نے جواب دیا ’’پہلے ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے، اب اپنے گھرمیں جا رہے ہیں۔‘‘ کسی زمانے میں لوگ بڑے بڑے گھروں میں رہائش اختیار کرتے تھے پھر بھی اپنے مسئلے مسائل اور رازو نیاز ڈر ڈر کر بیان کرتے تھے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری باتیں دوسرا کوئی سُن لے۔

اب زمانہ بدل گیا ہے، بڑے گھر خواب و خیال ہو گئے ہیں اور اب ایک گھر کی دیوار دوسرے گھر کی دیواربھی ہوتی ہے۔برسوں پہلے ناصرکاظمی نے اک شعر کہا تھا کہ: ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر ٓاُداسی بال کھولے سو رہی ہے فلیٹ میں سکونت پذیری کی وجہ ہے اب یہ شعر مکمل طور پر بدل گیا ہے کیونکہ فلیٹوں میں ایک دیوار سے دو فلیٹوں کا کام چل جاتا ہے اور اگر اپنی بیوی سے پانی مانگو تو پڑوسن پانی لے کر چلی آتی ہے۔ اپنے صاحبزادے کو تھپڑ مارو تو پڑوسی کے بچے کے گال پر نشان نمودار ہو جاتا ہے لہٰذا اس شعر کو بھی اب لوگ اس طرح پڑھ سکتے ہیں کہ: ہمارے گھر کی دیواروں پہ دیکھو پڑوسی بال کھولے سو رہے ہیں دیوار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ دنیا کی سب سے لمبی دیوار ، دیوار چین ہے جو چاند سے بھی نظر آتی ہے اور اس بات کی ہم قسم کھاتے ہیں کہ یہ دیوار نہ صرف ’’قمر سے‘‘ دکھائی دیتی ہے بلکہ ’’قمرکو‘‘ بھی نظر آتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ قمر ہم خودہیں۔ مارکو پولو کو اسی لئے سیاح ماننے سے انکار کر دیا گیا کہ اس نے اپنے سفر نامے میں دیوار چین کا ذکر نہیں کیاتھا اور صرف قبلائی خان کے دربار تک محدود رہا۔

تو صاحبو! جو دربار میں گیا پھر اسے درو دیوار کا ہوش کب رہا۔ اس لئے میں اسے معصوم گردانتا ہوں۔ اقتدار ایسی چیز ہے جو اپنے آگے کسی طرح کی دیوار، گڑھے یا کھائی پر نظر نہیں پڑنے دیتی۔ پتہ توجب چلتا ہے جب چلتے چلتے بلکہ دوڑتے دوڑتے دیوار سامنے آجائے اورآپ دیوار سے ٹکرا کر رُک جانے پر مجبور ہو جائیں، پھر بھی اپنی رفتار پر شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ دیوار پر غصہ آتا ہے کہ وہ سامنے کیوں آئی۔ ایک صاحبہ نے گاڑی دیوار سے ٹکرانے کے بعد بہت غصے سے کہا کہ آخر ان دیواروں کو اس جگہ سے ہٹا کیوں نہیں دیا جاتا ،خواہ مخواہ گاڑی چلانے والوں کے سامنے آجاتی ہیں۔

شیئر: