Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آیوٹا

 
یونانی زبان میں نواں حرف تہجی ” آیوٹا“ ہے ۔ جب کوئی مقدار اتنی کم ہو ، اتنی بے بضاعت ہوکہ اسکا شمار نہ کیا جانا ہی بہتر سمجھا جائے تو اسے آیوٹا کے حرف سے لکھا جاتا ہے
 
جاوید اقبال
 
انتہائی مسحور کن جملہ تھا۔
جامعہ الملک سعود میں اساتذہ کے دفاتر یک رویہ ہیں جن کی راہداری کی طرف کی دیوار شفاف شیشے سے بنی ہے۔ اس دیوار پر اساتذہ اپنے طلباءکیلئے ان کے نتائج چسپاں کرتے ہیں اور بعض اوقات کوئی خوبصورت پھڑکتا جملہ بھی نظر آجاتا ہے۔ یہیں انگریزی ادب کے انتہائی معتبر اور آکسفور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے سند یافتہ سعودی استاد علی بکر جاد کے کمرے کی دیوار پر یہ بے دل تحریر دیکھی تھی لکھا تھا:
”سمندر کی پُرسکون سطح پر کھڑے لاکھوں ٹن وزنی پُرہیبت بحری جہاز کے ایک سرے پر آبیٹھنے والی مکھی ایک حقیر ، غیر اہم مخلوق ہی سہی لیکن ریاضی کے دقیق کلیے کے مطابق وہ اس پر تمکنت دیو کے توازن میں تبدیلی ضرور لاتی ہے۔ چاہے وہ ایک آیوٹا ہی کیوں نہ ہو“۔ مجھے یقین ہے کہ یہ جواہر پارہ پڑھ کر درجنوں وہاں لمحہ بھر کو رک کر گہری سوچ میں ڈوبے ہوں گے۔
یونانی زبان میں نواں حرف تہجی ” آیوٹا“ ہے ۔ جب کوئی مقدار اتنی کم ہو ، اتنی بے بضاعت ہوکہ اسکا شمار نہ کیا جانا ہی بہتر سمجھا جائے تو اسے آیوٹا کے حرف سے لکھا جاتا ہے ۔ ریاضی میں منفی ایک کے جذر کو آیوٹا کہا جاتا ہے یعنی ایک منفی عدد کا مزید چھوٹا کیاگیا وجود۔ 
مجھے سعودی عالم کے دفتر کی شفاف دیوار پر چسپاں تحریر اسلئے یاد آئی کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں نریندر مودی اور اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف جن خیالات کا اظہار کیا وہ اُس حسد اور اُن اندیشوں کے عکاس تھے جو 2ہفتے قبل گوادر سے چینی بار بردار بحری جہازوں کے قافلے کی بحفاظت روانگی سے انکے دلوں میں پیدا ہوگئے ہیں ۔ 
برصغیر کی تقسیم کے وقت سے ہی ہندو ذہن نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ کانگریسی رہنماوں کا خیال تھا کہ ہندوستان کو تراش کر الگ کیا گیا ٹکڑا ناداری اور خودشکستگی کا شکار ہوکر واپسی کا سفر اختیار کرےگا اور نوزائیدہ بدن کو مفلوج کرنے میں ہندو نے کوئی دقیقہ فروگزاشت بھی نہ کیا۔ تقسیم کے وقت تک سارے ہندوستان کی حکومت کا نظام دہلی سے چلا یا جاتا تھا۔ ریلوں، بندرگاہوں اور ڈاک و تار کا نظام ِکار دہلی سے کنٹرول ہوتا تھا۔ صنعتی مراکز اور تحقیقی ادارے ہند میں تھے۔ بری، بحری اور ہوائی افواج کے ہیڈ کوارٹر دہلی میں تھے۔ 16 کی 16 اسلحہ ساز فیکٹریاں دہلی میں تھیں جبکہ فوجی سامان کے ذخائر بھی ہند میں ہی تھے۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم پر پاکستان کو اس کے حصے کی منصفانہ ادائیگی پارٹیشن کونسل کی ذمہ داری تھی اور اس کا صدر لارڈ ماونٹ بیٹن تھا۔ ہندو قدم قدم پر ڈنڈی مار رہا تھا اور سردار پٹیل نے تو گویا قسم کھا رکھی تھی کہ پاکستان کے حصے میں کچھ نہیں آنے دے گا۔ تقسیم کے وقت حکومت ہند کے پاس 4 ارب روپے کا کیش تھا جس میں سے سعی بسیار کے بعد پاکستان نے حکمرانوں کو 75 کروڑ روپے کی ادائیگی پر رضامند کرایا۔ صرف ایک قسط 20 کروڑ روپے کی صورت میں ملی۔ اس کے بعد ہندووں نے ہاتھ روک لیا۔ 14 اگست 1947 ءکے دن یہی کل کائنات تھی پاکستان کی۔ مسائل اور اخراجات قابو میں نہیں تھے۔ پہلے 5 ماہ پاکستان کےلئے مالی لحاظ سے انتہائی پُرخطر تھے۔ 15 جنوری 1948ءکو جب گاندھی کے مرن برت سے پریشان ہوکر حکومت ہند نے پاکستان کو بقایا 55کروڑ روپوں کی ادائیگی کی تو حالات میں بہتری آئی۔ فوجی سامان سارے کے سارے پر ہند کا قبضہ تھا۔ طے ہوا تھا کہ اس کا ایک تہائی پاکستان کو دیا جائے گا۔ آج تک ہمارے حق کا کوئی حصہ ہمیں نہیں مل سکا۔ سرکاری کاغذات اور دوسرے متعلقہ سامان کو کراچی پہنچانے کیلئے ہر روز ایک خصوصی ریل گاڑی چلانے کا منصوبہ بنایاگیا لیکن ان گاڑیوں پر ہندووں اور سکھوں کے حملے شروع ہوگئے۔ اَن گنت لوگ مارے گئے۔ ریکارڈ آگ نے تلف کردیا۔ سامان لوٹ لیا گیا چنانچہ یہ ریل گاڑیاں رک گئیں۔
پاکستان کیلئے گونا گوں مسائل پیدا کرنے کے علاوہ ہندو رہنماوں نے پنجاب کی تقسیم میں سب سے زیادہ ڈنڈی ماری۔ اس خیال کو کہ یہ نازک اور اہم کام اقوام متحدہ کی سرکردگی میں کروایا جائے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ردکردیا۔ قائد اعظم نے تجویز دی کہ اس تقسیم کیلئے جو باونڈری کمیشن بنائے جائیں ان میں انگلستان کے 3 لاءلارڈز بھی شامل کئے جائیں۔ جواب آیا کہ لاءلارڈز بوڑھے لوگ ہیں اور وہ ہندوستان کی گرمی برداشت نہیں کرسکتے نتیجتاً لارڈ ماونٹ بیٹن نے ایک انگریز وکیل سرسیرل ریڈ کلف کو نامزد کردیا اور اسے پنجاب او ربنگال کی تقسیم کیلئے بنائے گئے باونڈری کمیشن کا چیئرمین بنا دیاگیا۔ تاریخ کے لاتعدادصفحات انسانی خون میں بھیگے پڑے ابن آدم کے ابن آدم پر ڈھائے گئے مظالم پر گریہ کنا ں ہیں لیکن یہ بہت کم ہوا ہے کہ ایک انسان نے تنِ تنہاءایسا اندوہناک فیصلہ کیا ہو جو اس کے اپنے اور پھر بعد میں آنے والے وقتوں میں خون کی داستانیں رقم کرتا رہے۔ ریڈ کلف کے ہاتھوں ہونے والی پنجاب کی غیر منصفانہ اور غیر منطقی تقسیم نے صرف سوا کروڑ کشمیریوں کی تقدیر میں خون آلود زعفران زاروں میں اپنے پیاروں کی تدفین لکھ دی تھی بلکہ مغربی پنجاب کے مرغزاروں میں خشک سالی اور گرسنگی کے بیچ بھی بو دیئے۔ دریا پاکستان کے تھے، منابع ہند کے نقشے میں بھر دیئے گئے۔ پانی پاکستان کا تھا، اس کے نصیب میں بے آب و گیاہ کھیت اور وادیاں لکھ دیں۔ تاریخ آج بھی دبے لفظوں اور سرگوشیوں میں انکشاف کرتی ہے کہ مملکت عظمیٰ برطانیہ کا نمائندہ لارڈ سیرل کلف پنجاب کی تقسیم کی لکیر کھینچتے وقت فروخت ہوچکا تھا۔ صرف 2 کروڑ روپوں کا کھیل تھالیکن ا ن سب سازشوں کے باوجود پاکستان کا طفلِک بے دست و پا اپنے ہی ننھے قدموں پر اٹھا اور جادہ ¿پیما ہوگیا۔ دشمن کی ہر لحظہ ہی کوشش رہی کہ اس کے وجود کا قصہ تمام ہو۔
تو پھر جب 2ہفتے قبل وطن عزیز کے تانبے، سونے، گیس اور قیمتی پتھروں کے زیر زمین ہمکتے ذخائر کے جنوب میں گوادر کی آغوش سے ہمسایہ دوست ملک کے بحری تجارتی بیڑے کا قافلہ اپنے پہلے سفر پر نکلا تو مجھے ڈاکٹر علی بکر جاد کے دفتر کی شفاف دیوار پر چسپاں وہ آیوٹا والی تحریر یاد آئی لیکن اب ان الفاظ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اب علاقائی سیاست کے دیوہیکل بحری جہاز کے ایک سرے پر مکھی نہیں بیٹھے گی، اب وہاں شاہین بیٹھیں گے اور جہاز ان کی سمت جھک جائےگا۔ اب سیاسی توازن میں آیوٹا نہیں انفِنٹ تبدیلی آئےگی۔ لا محدود تبدیلی۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: