Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا بلاول بھٹو وزیراعظم بن سکیں گے؟

 
بلاول بھٹو کا اصل چیلنج پنجاب میں مقبولیت حاصل کرنا ہے،انہیں سب سے پہلے پارٹی کے بکھرے قافلے کا تنکا تنکا کرکے جمع کرنا اور بڑے پیمانے پر اصلاح احوال کرنا ہوگی
 
ارشادمحمود
 
بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی میں نئی روح پھونکنے کی خاطر شب وروز ایک کئے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں انہوں نے لاہور میں پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس جوش و خروش اورغیرروایتی انداز سے منایا۔ملک بھر سے کارکن اور لیڈر ایک چھت تلے جمع ہوئے۔صوبائی کنونشن بھی ہوئے اور پارٹی کے بڑوں کے درمیان مشاورتی اجلاس بھی برپا ہوئے کہ کس طرح پارٹی کو ازسر نو منظم کیاجائے، نارض اور بکھرے ہوئے ووٹ بینک کو پارٹی کی جانب مائل کیا جائے۔
ایک عرصے بعد پی پی پی کی تنظیم سازی بھی ہوئی۔نہ صرف سندھ کاوزیراعلیٰ تبدیل کیا گیا بلکہ باقی صوبوں میں بھی نسبتاًنوجوان قیادت سامنے لائی گئی۔ بلاول بھٹو خود بھی الیکشن کی سیاست میں اترنے کو ہیں۔وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔پارٹی انہیں اگلا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔بلاول بھٹو زرداری کو دوسرے ہمصر سیاستدانوں پرایک قدرتی برتری یہ حاصل ہے کہ وہ ابھی نوجوان ہیں۔ان کے مخالفیں نوازشریف اورعمران 70کے پیٹے میں پہنچ چکے ہیں۔باقی جماعتوں کے لیڈروں کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیںچنانچہ بلاول بھٹو اگر محنت کریں اور پارٹی کو ازسرنو متحرک کرنے اور جیالوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے ہیںالبتہ انہیں پاکستان کے مسائل کو عام شہری کی آنکھ سے دیکھنا ہوگاتاکہ کوئی قابل عمل سیاسی حکمت عملی بناسکیں۔پاکستانیوں کی اکثریت کا پختہ خیال ہے کہ اس ملک کو اشرافیہ نے لوٹااور انہیں بے توقیر کیاگیا۔ خاص کر 80 کی دہائی سے اس ملک کو کوئی ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ملا جس نے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کئے ہوں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا ایک بڑا ملک ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ اس کے5 کروڑ سے زائد لوگوں کو کھانے کوروٹی اور سرچھپانے کو سائبان دستیاب نہیں۔
سیاست اور سیاستدانوں کا نام بدعنوانی ونااہلی کے مترادف کے طور پر پڑھا اورلکھاجاتاہے۔ اب اگر لوگوں کو پی پی پی اپنی طر ف متوجہ کرنا چاہتی ہے تو اسے 2سطحوں پر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ملک کےلئے ایک قابل قبول معاشی ایجنڈا مرتب کرنا ہوگا۔عوام سے وعدہ کرنا ہوگا کہ داخلی اور خارجی پالیسیوں کو اس طرح وضع کرےگی کہ پاکستان کے عوام کی مشکلات کم ہونگی اور خوشحالی کے دروازے کھلیں گے۔ آج ملک کی جو حالت ہے اسکے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں اور نجی اداروں کو قومیانے کی تباہ کن پالیسی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
پیپلزپارٹی کو پارٹی کے اندر بھی بڑے پیمانے پر اصلاح احوال کرنا ہوگی بلکہ جھاڑو پھیرنا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو منظر پر لانا ہوگا جن کا دامن داغدار نہیں۔عالم یہ ہے کہ پارٹی میں صاف ستھرے کردار کے لوگوں کیلئے جگہ ہی نہیں۔اگر وہ جماعت میں آبھی جائیں تو انہیں رفتہ رفتہ دیوار کے ساتھ لگادیا جاتاہے۔علاوہ ازیں پارٹی کے اندر بھی پیسہ بولتاہے،تنظیمی عہدے تک بکتے ہیں، اعلیٰ عہدے دار بھی بھاو تاو کرتے ہیں۔کارکن جوپارٹی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ لیڈروں کے ہاتھوں رسواہوتے رہے ہیں۔جاگیرداروں نے بھٹو صاحب کے زمانے سے ہی پارٹی پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب سرمایہ دار اور نودولتیوں نے بھی خوب ہاتھ صاف کیا ہے۔
بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں پارٹی میں اہل علم اور دانش کی قدر کی جاتی تھی لیکن زرداری صاحب نے اپنے اردگرد کاروباری اور درباریوں کا ایک ٹولا جمع کیا۔ انسان اپنے رجحانات اور افتادِ طبع کے مطابق ہی فیصلے کرتاہے۔ بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر قلم اور کتاب سے گہرا شغف رکھتی تھیں۔ آج کی پی پی پی کمیشن خوروں اور ٹھیکیداروں کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔
  اس ملک کو ایک ایسے لیڈر کی سخت ضرورت ہے جواس کی کھوئی عظمت بحال کرے۔اسے ایک ایسی قوم بنانے کا بیٹرااٹھائے جو چٹان کی طرح مضبوط اور مستحکم ہو۔اس ملک کا کوئی گلی کوچہ ایسانہیں جہاں بلاول بھٹو کے نانا اور والدہ محترمہ کے شیدائی نہ ہوں۔پی پی کے حمایتی ہی نہیں اسکے سرگرم کارکن بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر مایوس ہیں اور سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ مخلص کارکنوں کا ایک جم غفیر اس پارٹی کے پاس رہاہے۔اب بلاول کو اس بکھرے ہوئے قافلے کا تنکا تنکا کرکے مجتمع کرنا ہوگا۔
بلاول بھٹو ایک نوجوان اور ذہین سیاستدان ہیں۔سیاست کےلئے ان کے پاس بہت وقت پڑا ہے۔اگر وہ اپنی تنظیم پر وقت صرف کریں اور اسے سائنٹیفک بنیادوں پر استوار کریں تو وہ پی پی کو(ن) لیگ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے مدمقابل کھڑے ہونے کی پوزیشن میں لاسکتے ہیں۔
  اندر کی کہانی یہ ہے کہ بلاول بھٹوہروقت پارٹی رہنماوں اور سینیئر کارکنوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ واٹس ایپ گروپ بنائے گئے ہیں جن کے ذریعے بلاول بھٹو کو پل پل کی خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔وہ پارٹی کے اندر پائی جانے والی دھڑا بندی سے بھی پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ تمام تر دھڑا بندی کے باوجود وہ سینیئر رہنماوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔نئے چہروں کےلئے بھی راستہ بنارہے ہیں۔
بلاول بھٹو کو اپنے والد اور والدہ کے برعکس یہ برتری بھی حاصل ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کےلئے ایک قابل قبول شخصیت ہیں۔ کشمیر پر حالیہ برسوں میں انہوں نے جو سخت گیر موقف لیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے کانوں میں رس گھولتاہے۔وہ نریندر مودی کو اس طرح للکارتے ہیں جس طرح ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اندراگاندھی کو چیلنج کیا کرتے تھے۔علاوہ ازیں گزشتہ 8 برسوں میں عسکری اداروں اور پی پی پی کے مابین پائی جانے والی روایتی کشمکش کا باب بھی بند ہوچکا ہے۔پی پی پی ہو یا (ن) لیگ وہ امریکہ، ہندوستان اور افغانستان سے تعلقات کے معاملات سے اپنے آپ کو الگ تھگ رکھتے ہیں کہ مباد ادارے ناراض نہ ہوجائیں۔ہرایک اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتاہے اور حصہ بقدرے جثہ پاتاہے۔
بلاول بھٹو کا اصل چیلنج پنجاب میں مقبولیت حاصل کرنا اور پارٹی کے حامیوں کو دوبارہ اپنی صف میں لانا ہے۔ابھی عام الیکشن میں سوا سال باقی ہے۔ اس دوران دوسری جماعتوں کے اشتراک سے پنجاب میں (ن) لیگ کے مقابلے میں صف بندی کی جاسکتی ہے۔اس حقیقت کو تسلیم کیاجانا چاہیے کہ پاکستان میں اقتدار کے تمام راستے لاہور سے گزرتے ہیں۔ جس پارٹی یا لیڈر کی جیب میں پنجاب کی کنجی ہوگی اقتدار کا ہُما اس کے سر پرخوشی سے بیٹھے گا۔وہ کہتے ہیں نا کہ ہاتھی کے پاوں میں سب کے پاوں۔گزشتہ 20،25 برسوں میں پنجاب میں ہر دن پی پی پی کمزور ہوئی اور اسکے مخالفین مضبوط۔عشروں بعد پی پی پی اور تحریک انصاف نے لیڈروں کی ایک متبادل ٹیم ابھاری ہے جو شریف برداران کی سلطنت کو چیلنج کرتی ہے۔ اگر پنجاب میں وسیع البنیاد سیاسی مفاہمت ہوجائے تو کوئی اپ سیٹ بھی ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر خادم اعلیٰ پنجاب اگلے 5برس کیلئے ایک بار پھر حاضر ہیں۔ 
******

شیئر: