Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئیے اپنا مستقبل خود ترتیب دینے میں یمن کی مدد کریں: امریکی نمائندہ خصوصی ٹم لینڈرکنگ

ٹم لینڈرکنگ کا کہنا تھا کہ جنگ کی وجہ سے یمن کے عوام بری طرح متاثر ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے ٹم لینڈرکنگ نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے ردعمل میں بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں حوثیوں کی جانب سے غیرملکی جہازوں پر حملوں سے یمن کا امن عمل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
پچھلے برس اکتوبر میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں نے متعدد فوجی اور تجارتی بحری جہازوں پر حملے کیے جس سے بین الاقوامی تجارت میں واضح خلل پڑا۔
ایران کے حمایت یافتہ اس سیاسی اور مذہبی گروپ کو پہلے انصاراللہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ خود کو اسرائیل، امریکہ مغربی ممالک کے خلاف ’ایرانی مزاحمت‘ کا حصہ سمجھتا ہے۔
اس کی جانب سے کشتیوں پر حملے تب تک جاری رکھنے کی دھمکی دی گئی ہے جب تک اسرائیل غزہ پر حملے بند نہیں کر دیتا۔
جنوری سے امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادیوں نے گروپ کے حملوں کے جواب میں یمن میں اس کے اہداف پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔
 ٹم لینڈرکنگ نے عرب نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں کشیدگی کو کم کرنے کی ذمہ داری جنگجو گروپ پر ڈالتے ہوئے کہا کہ’جب حوثی بحری جہازوں پر حملے بند کر دیں گے تو امریکہ بھی جوابی حملے روک دے گا۔‘
 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بحیرہ احمر میں حملوں کو روکنا حوثیوں کی ذمہ داری ہے، جس سے صورت حال واپس اسی نکتے پر جا سکتی ہے جہاں چھ اکتوبر سے قبل تھی، جب آج کے مقابلے میں صورت حال بہت بہتر تھی اور ہم اس کو وہیں لے جانا چاہتے ہیں۔‘

غزہ پر اسرائیلی حملے کے ردعمل میں حوثیوں نے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں متعدد غیرملکی بحری جہازوں پر حملے کیے (فوٹو: اے ایف پی)

ٹم لینڈرکنگ نے ایران سے تصادم میں اضافے اور یمن کو مہلک ہتھیاروں کی سمگلنگ روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہے۔
ان کے مطابق ’حالیہ علاقائی کشیدگی سے قبل یمن امن کے اتنا قریب پہنچ چکا تھا جتنا پہلے کبھی نہیں تھا اور یمن میں خانہ جنگی بہت طویل ہو گئی جس کو روکا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یمن کے لوگ آٹھ سال سے اس جنگ کو بھگت رہے ہیں۔ وہ اپنے ملک کو امن کی طرف واپس لے جانا چاہتے ہیں اور اپنے ملک میں غیرملکی جنگجو نہیں چاہتے۔ وہ صنعا میں ایرانیوں کی موجودگی نہیں چاہتے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ پاسداران انقلاب کے اہلکار صنعا میں دندناتے پھریں۔‘
ان کے مطابق ’آئے ہم ریاستی عملداری کی بحالی اور اپنے مسقبل کے فیصلے خود کرنے کے معاملے میں یمن کی مدد کریں۔ امریکہ کی یہی خواہش ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس نازک انسانی صورت حال کے دوران یمن میں قیام امن کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو بڑی مشکل سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

امریکی ایلچی برائے یمن ٹم لینڈرنگ کا کہنا تھا کہ جب حوثی حملے بند کر دیں گے امریکہ بھی جواب دینا بند کر دے گا (فوٹو: اے ایف پی)

غزہ کی صورت حال کے حوالے سے ٹم لینڈرکنگ نے کہا کہ ’غزہ میں جو ہو رہا ہے ہم اس کے اثرات سے بچ نہیں سکتے، ایک بھی ایسا دن نہیں گزرتا جب میں لوگوں کو یمن کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھوں اور وہ غزہ کا ذکر نہ کریں۔‘
ان کے بقول ’ہم جانتے ہیں کہ ایک مشکل اور انتہائی اہم صورت حال ہے جس سے نمٹا جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ صورت حال ہماری یمن کے امن عمل پر توجہ کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے اور اس روڈ میپ کے ثمرات سے بھی روک رہی ہے جس پر یمنی حکومت اور حوثیوں نے دسمبر میں اتفاق کیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’یہ صورت حال یمن، یمنیوں بلکہ قیام امن کے لیے ہونے والی کوششوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔‘

شیئر: