Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول اور سیاسی ہلچل

 
زرداری کی خود ساختہ جلاوطنی آج ختم ہورہی ہے، ہفتہ 10 دن رہ کر واپس دبئی چلیں جائینگے، ریموٹ کنٹرول سے پارٹی چلانے کا سلسلہ جاری رہیگا
 
صلاح الدین حیدر
 
پچھلے کئی دنوں سے پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال سا آیا ہوا ہے۔ نواز شریف اور اُن کی جماعت کے لوگ ابھی تک تو عمران خان سے ہی دست و گریباں تھے لیکن اب پیپلز پارٹی بھی مختلف نظر آرہی ہے۔ پہلے کی طرح یہ ملی بھگت نہیں، اب معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ بلاول بھٹو نے حکومت وقت کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ ظاہر ہے یہ نوجوان جو خود ہی کہتا ہے کہ اُسے سیاست نہیں آتی، لیکن اپنے عزم میں پورا ہے اور اپنے اہداف پہ پہنچنا بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور اُن کی پارٹی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں ہنگامہ بپا کردیا ہے جو لوگ یہ کہتے تھے کہ عمران نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ ختم کرکے یوٹرن لیا ہے، وہ اپنے اندازے میں صحےح نہیں تھے۔ عمران اور ان کے ساتھیوں نے ایک طرف تو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو اسپیکر ماننے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ اب وہ سبھی انہیں ایاز صادق صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ عمران خان یا ان کی پارٹی کے ارکان نے پہلے دن تو اسپیکر کا گھیراﺅ کردیا اور پھر ان کے خلاف اتنے نعرے لگائے کہ ایاز صادق کو بھاگتے ہی بنی۔ اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرکے جان چھڑائی۔ یہ سب نواز شریف اور (ن) لیگ کے لئے کسی بلائے ناگہانی سے کم نہیں۔ وزیراعظم یا شہباز شریف نے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے جواب در جواب کے اصولوں پر عمل کرنے کو ترجیح دی لیکن مریم نواز بالکل خاموش ہیں۔ وزیراعظم کی صاحبزادی نے جو پورے ساز و سامان سے لیس پرائم منسٹر ہاﺅس میں ایک پروپیگنڈا سیل قائم تھا، اُسے کہیں اور لے گئی ہیں، ایوان وزیراعظم کو خالی کردیا ہے لیکن پرویز رشید، طلال چوہدری، دانیال عزیز، محمد زبیر اور مریم اورنگزیب نے تو ابھی تک وزارت اطلاعات کے دفتر سے ہی سیاسی بیانات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اب انہیں دو طرفہ دشمنوں کا سامنا ہے، عمران خان اور بلاول بھٹو۔ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن علیحدہ دردسر بنے ہوئے ہیں تو پھر یہ کہا جائے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے گرد ناصرف گھیرا تنگ ہورہا ہے بلکہ انہیں کسی انجانے طوفان کا خوف لاحق ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
اس تمام تر صورتحال کے باوجود جو بات سوچنے والی ہے وہ یہ کہ کیا بلاول اپنی کاوشوں میں کامیاب ہوسکیں گے۔ وہ ابھی اُس آگ سے نہیں گزرے جس میں سے نکل کر لوگ کندن بنتے ہیں۔ ابھی انہیں لمبا سفر طے کرنا ہے، وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ بلاول 28 سال کے ہونے پر اب قومی اسمبلی میں آنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ وہ اپنے نانا اور والدہ کی موروثی نشست لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑیں گے۔ اس نشست پر فی الحال اُن کی پھوپھی فریال تالپور کا قبضہ ہے لیکن آثار یہی بتاتے ہیں کہ اُن کا کردار اب سیاست میں شاید کم ہوجائے، وہ اپنی نشست خالی کرکے بلاول کے لئے میدان ہموار کرنے والی ہیں۔ بلاول کی پیدائش اُس وقت ہوئی جب اُن کی والدہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنیں اور وہ اسکول میں ہی تھے کہ 1996 مےں اُنہیں والدہ کے ساتھ جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔ دبئی میں قیام رہا اور چونکہ والد آصف زرداری جیل میں تھے۔ ظاہر ہے بلاول کی تربیت والدہ نے کی اسی لئے اُن کا طرزِ سیاست بھی نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر کے سانچے میں ڈھلا ہوا صاف نظر آتا ہے۔ مشکل یہ ہے، نانا اور والدہ کی طرح انہوں نے بھی آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی اور لہجہ بھی انگریزوں جیسا ہی ہے، انہیں اردو آتی ہے نہ سندھی۔ خیر یہ کوئی ایسی بات نہیں، وہ اردو میں دھواں دھار تقریر تو کرلیتے ہیں، بلکہ انہیں اس میں ملکہ حاصل ہوگیا ہے۔ رومن انگلش میں انہیں تقریر لکھ کر دے دی جاتی ہے، کئی بار ریہرسل کروائی جاتی ہے پھر کہیں جاکر وہ پارٹی کارکنان یا عوامی جلسوں سے خطاب کرپاتے ہیں لیکن بہرحال تقریر کا انداز ہوبہو نانا اور والدہ جیسا ہے، پُرجوش اور ولولہ انگیز۔
بلاول وزیراعظم بننے کے دعوے تو ضرور کرتے ہیں لیکن 2013 ءمیں اُن کی پارٹی کو جس بری شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس سے وہ آج تک سنبھل نہیں پائی، تمام تر قصور ان کے والد آصف زرداری کا تھا جو بے نظیر کے بعد ہمدردی کے ووٹ حاصل کرکے ناصرف خود ملک کے صدر بنے بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت پورے ملک میں 5سال رہی لیکن زرداری صاحب نے چند اچھے کام بھی کئے مثلاً آئین کے آرٹیکل 58(2-B) کو ختم کرکے جمہوری حکومتوں کو اقتدار سے ہٹانے کا سلسلہ بند کردیا۔ صوبائی خودمختاری کو بھی کسی حد تک پارلیمنٹ سے منظور کروایا۔ 18 ویں ترمیم اُن کی ہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔چھوٹے صوبے تو خاص طور پر خوش ہیں۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی ان کی ہمیشہ ممنون رہے گی کہ شمالی سرحدی صوبے کا نام تبدیل کرکے خیبرپختونخوا کردیا گیا۔ اگر پنجاب، سندھ اور بلوچستان لسانی ناموں سے پہچانے جاتے ہیں تو صوبہ سرحد کو پختونخوا کا نام کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ آصف زرداری نے یہ کام کرکے پختونوں میں پائی جانے والی بے چینی ختم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
لیکن بلاول کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ جب تک پارٹی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال نہیں کرلیتی وہ اقتدار میں نہیں آسکتی۔ وجہ بہت سادہ ہے، قومی اسمبلی میں پنجاب کی 115 نشستیں ہیں۔ کسان، مزدور، طلباء اور دوسری نامزد سیٹوں کو ملا کر یہ تعداد 342 ہوجاتی ہے۔ پنجاب میں بلاول پچھلے ہی دنوں8،10 روز گزار کر آچکے ہیں جہاں انہوں نے پارٹی کارکنان سے خطاب کیا۔ بلوچی میلے کا اہتمام بھی کیا اور اُس سے پہلے وہ سندھی ثقافتی میلہ بھی کروا چکے تھے لیکن ان باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ بلاول کو اپنی پارٹی میں نیا خون شامل کرنا پڑے گا۔ منظور وٹو، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے لوگ ان کے کاندھوں پر بوجھ ہیں۔ 
آصف زرداری آج خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے کراچی واپس آ رہے ہیں، ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا لیکن پارٹی کے سرکردہ رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ ہفتے دس روز سے زیادہ پاکستان میں نہیں رہیں گے۔ بے نظیر کی برسی (جو 27 دسمبر کو اُن کے آبائی قصبے گڑھی خدا بخش میں منائی جائے گی) میں شامل ہونے کے بعد، شاید وہ بلاول کو پوری طرح بااختیار کرکے، خود کو ذمہ داریوں سے علیحدہ کرلیں لیکن لندن ہو یا دبئی وہاں سے بھی پارٹی کو ہدایات دینا جاری رکھیں گے گویا کہ ریموٹ کنٹرول کا سلسلہ جاری رہے گا۔ دیکھیں ایسے میں بلاول کہاں تک پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بظاہر تو دلی دُور است لیکن قانون فطرت کے مطابق کوئی بھی کام ناممکن نہیں، ہاں ہمت مرداں مددخدا پر یقین لازم ہے، اس کے لئے بلاول کو شب و روز محنت کرنا پڑے گی، انہیں فوری طور پر پارٹی میں ان لوگوں کو دوبارہ لانا پڑے گا جو بے نظیر کی ڈھال تصور کئے جاتے تھے اور جنہیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کردیا گیا تھا پھر بلاول کو پنجاب کے طوفانی دورے کرنے پڑیں گے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ فی الحال تو پی پی پی سندھ کے سوا باقی صوبوں میں تقریباً عوامی حمایت کھوچکی ہے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دیکھیں بلاول کیسے حالات پر قابو پاتے ہیں۔
******

شیئر: