Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرہِ ارض کے سوتیلے بچے

 
اس پورے المیے میں سب سے زیادہ صدمے کی بات انسانی و سیاسی حقوق کےلئے آواز بلند کرنے اور ذاتی قربانیاں دینے والی برما کی ہیروئن آنگ سان سوچی کی مسلسل خاموشی ہے
 
وسعت اللہ خان
 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔اس تعریف پر اگر آج کی دنیا میں کوئی گروہ پورا اترتا ہے تو وہ برما کے روہنگیا مسلمان ہیں جو برما کے 2 صوبوں اراکان اور رکھائن میں آباد ہیں۔
19ویں صدی کے وسط سے ہندوستانی مزدور کاشتکاری اور تعمیراتی ڈھانچے میں کھپانے کےلئے برطانوی سلطنت کے کونے کونے میں بھیجے جانے لگے۔ اس پالیسی کے تحت برما کے صوبے اراکان میں بھی بنگالی کسان آباد ہوئے۔1859ءکی مردم شماری کے مطابق صوبہ اراکان کی 5فیصد آبادی مسلمان تھی۔ان میں کچھ نسلی برمی بھی تھے جو 15ویں صدی یا بعد میں مسلمان ہوئے اور باقی وہ تھے جن کے نسلی ڈانڈے چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے میں بولی جانے والی زبان سے جا ملتے ہیں۔
جب1948ء میں برما کو برطانیہ سے آزادی ملی تب شہریت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا اور برما کے بودھ اکثریتی سماج کے درمیان مسلمان اقلیت بھی زندگی گزار رہی تھی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب فوجی جنرل نے ون نے جمہوری بساط لپیٹ کر1962ءمیں اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اس اقتدار کو دوام دینے کے لئے متبادل نظریے کے طور پر برمی قوم پرستانہ جذبات کو ابھارا۔ سب سے پہلے تھائی لینڈ سے متصل شان صوبے کی نسلی اقلیت اکثریتی تعصب کا نشانہ بنی مگر اس نے سرجھکانے کے بجائے اپنے تحفظ کی خاطر ہتھیار اٹھا لئے۔یوں جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے طویل نسلی جنگ کا بگل بج گیا۔
1971ءمیں مغربی سرحد پر واقع مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی سے تنگ آ کے بنگالیوں کی ایک تعداد نے سرحد پار ہند میں پناہ لی تو چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والی بنگالی آبادی میں سے بھی لگ بھگ5 لاکھ نے برما کے اندر سر چھپانے کی کوشش کی چنانچہ مقامی بودھ اکثریت میں بے چینی پھیلنا شروع ہوئی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی حکومت نے ڈیڑھ، پونے دو سو برس سے آباد روہنگیوںکو بھی عارضی پناہ گیر بنگالیوں کے ساتھ نتھی کردیا۔ جنرل نے ون کی حکومت نے بنگلہ دیش کی مجیب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بنگالی پناہ گزینوں کو واپس بلائے۔
1975ء میں برما میں بنگلہ دیش کے سفیر خواجہ محمد قیصر نے کہا کہ بنگلہ دیش1971ءکے بعد برما میں پناہ لینے والے بنگالی شہریوں کو چھان پھٹک کے بعد واپس لینے کو تیار ہے تاہم برما کا اصرار تھا کہ ان سب کو بنگلہ دیش قبول کرے جو نسلاً برمی نہیں۔1978ء میں جنرل نے ون کی حکومت نے لگ بھگ 2 لاکھ افراد کو سرحد پار دھکیل دیا۔ان کے بارے میں حکومت بنگلہ دیش نے کہا کہ90 فیصد بنگلہ دیشی نہیں بلکہ اراکان کے روہنگیا مسلمان ہیں اس لئے برما کو انہیں واپس لینا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کی کوششوں سے برما کی حکومت ان پناہ گزینوں کو واپس لینے پر آمادہ تو ہوگئی لیکن1982ء میں شہریت کے قانون میں تبدیلی کرکے روہنگیا مسلمانوں کو برما میں آباد 135 نسلی گروہوں کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔جب شہریت چھن گئی تو بطور غیر ملکی ان سے رہائش ، صحت ، تعلیم اور روزگار سمیت بنیادی سہولتوں کا حق بھی چھن گیا اور اکثریت کے لئے وہ کھلونا بن گئے۔ برمی فوج نے اس اقلیت کو بیگار کے قلیوں کے طور پر استعمال کیا۔ ان کے چھوٹے موٹے کاروبار تباہ ہونے لگے۔ان کے خلاف ہونے والے جرائم کی چھان بین سے پولیس نے منہ موڑ لیا۔ وہ بلا سرکاری اجازت شادی نہیں کرسکتے۔ 2سے زائد بچے پیدا نہیں کرسکتے اور اجازت نامے کے بغیر نہ املاک کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک سے دوسری جگہ آ جا سکتے ہیں۔
موجودہ قیامت کے ڈانڈے 2012ءسے ملتے ہیں جب صوبہ رکھائن میں افواہ پھیلی کہ کسی روہنگیا نے ایک بودھ لڑکی کو ریپ کردیا۔ حقیقت کھلتے کھلتے 200کے لگ بھگ روہنگیا ہلاک ، ایک لاکھ40 ہزار بے گھر اور50 ہزار سے زائد بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں ایک بار پھر پناہ گیر ہوگئے۔تب سے آج تک کوئی مہینہ نہیں گزرا کہ رکھائن صوبہ سے جہاں روہنگیا اقلیت کا تناسب 25 فیصد کے لگ بھگ ہے کسی نہ کسی پرتشدد نسلی واردات کی خبر نہ آتی ہو۔
ویسے تو2009ءکے بعد سے ہی وہ روہنگیا جو انسانی اسمگلروں کو پیسے دینے کی سکت رکھتے تھے برما سے فرار ہوکے پاکستان اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے لگے مگر اس سال فروری سے کشتیوں کے ذریعے فرار ہونے کے رجحان میں یوں تیزی آ گئی کہ اسمگلروں نے پیشگی معاوضہ وصول کرنے کی شرط ہٹا دی اور مصیبت زدگان سے وعدہ کیا کہ انہیں تھائی لینڈ ، ملائیشیا اور انڈونیشیا تک پہنچا دیا جائے گا، آگے انکی قسمت تاہم جب تینوں ممالک نے ساحلی گشت بڑھا دیا اور پناہ گزینوں سے بھری کشتیوں کو کھلے سمندر میں واپس دھکیلنا شروع کیا تو ا سمگلرز ان مصیبت کے ماروں کو بیچ سمندر میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔جنوبی تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں تارکین وطن کی کئی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جنہیں ا سمگلروں سے ملی بھگت کرنے والے بعض مقامی قبائل نے معاوضہ ملنے تک یرغمال بنائے رکھا اور پھرمایوس ہو کر دفنا دیا۔ ان قبروں سے ملنے والی اکثر لاشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روہنگیوں کی ہیں۔
اس وقت بنگلہ دیش نے مزید پناہ گزین یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کہ وہ پہلے ہی ہزاروں روہنگیوں کی دیکھ بھال کررہا ہے۔ ( 2014ءکے قانون کے تحت برما میں روہنگیا کی اصطلاح پر ہی پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم مدساں ساں فرنٹئیر کورکھین سے باہر نکال دیا گیا )۔
اس پورے المیے میں سب سے زیادہ صدمے کی بات انسانی و سیاسی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے اور ذاتی قربانیاں دینے والی برما کی ہیروئن آنگ سان سوچی کی مسلسل خاموشی ہے۔ ان کا صرف ایک حمایتی بیان روہنگیوں کی زندگی قدرے آسان بنا سکتا تھا لیکن جب بھی ان سے اس بارے میں کوئی رپورٹر پوچھتاہے تو وہ گول مول سا جواب دے کر ٹال جاتی ہیں۔
ہائے۔۔۔یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ انسانی حقوق کی علمبرداری کے اعتراف میں ملنے والے نوبل انعام کی حامل آنگ سان سوچی جیسی عالمی شخصیت محدود سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لئے اپنے بنیادی آدرش سے پیچھے ہٹ جائے۔ 
******

شیئر: