Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”سوتیلے دادا“

 
 اگر مرغی نے انڈہ دیا ہے توانڈہ لے کر آﺅ اور اگر نہیں دیا تو مرغی لاو، اب چونکہ مرغی نے انڈہ نہیں دیا تھا اس لئے میں مرغی لے کر پہنچ گیا
 
شہزاد اعظم
 
ہم اپنی زندگی میں جب بھی ظلم سہ سہ کر بے حال ہونے والے کسی مظلوم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی اوائل عمری کا دوست ”چُلّی“بے انتہاءیوں سمجھئے ”پھوٹ پھوٹ کر“ یادآتا ہے ۔ہم بچپن سے لے کر 22سال 7ماہ 23دن تک روزانہ ہی ایک دوسرے سے ملتے رہے پھر یوں ہوا کہ ”چُلّی“کی شادی ہوگئی اور وہ گھردادماد بننے کے لئے ہمارے شہر سے رخصت ہو کر دور دراز قصبے میں جا بسا۔ ”چُلّی“ ہم سے جب بھی ملتا، وہ رو رو کراپنے سوتیلے دادا کی شکایتیں کرتااور بتاتا کہ وہ کس طرح اس پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔وہ کہتا تھا کہ میرے دادا کے انتقال کے بعد دادی نے دوسری شادی کر لی۔سوتیلے دادا نے میری دادی کی تمام جائداد پر قبضہ بھی کر لیا ۔ ہم اپنی دادی کے ساتھ انہی کے گھر میں رہتے ہیں چنانچہ سوتیلے دادا ہم سب گھر والوں کی زندگی کے ہر شعبے پر پورے طمطراق کے ساتھ مسلط ہیں۔وہ انتہائی بااُصول اور کرخت مزاج کے مالک ہیں۔ ان کی اس اصول پسندی کی ایک ”بے ضرر“ اور ”انتہائی معمولی“مثال پیش کر رہا ہوں۔ ہوا یوں کہ میں نے 25روز پہلے 20پیسے کا ایک چوزہ خریدا۔ اسے انتہائی پیار محبت سے پالا۔وہ بڑا ہو گیا۔سوتیلے دادا نے کچھ دن انتظار کیا پھر گویا ہوئے کہ یہ مرضی انڈے دیتی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا کہ سوتیلے دادا! ابھی تو اس نے کوئی انڈہ نہیں دیا۔انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ اگر اس نے آئندہ مزید3روز تک انڈہ نہ دیا تو مجھے مجبوراً اسے اپنی ٹی ٹی کا نشانہ بنانا پڑے گا۔3دن مزید گزر گئے۔ دادا نے دوپہر کے 12 بجے مجھے آواز دی کہ ”چُلّی“ اگر مرغی نے انڈہ دیا ہے توانڈہ لے کر آﺅ اور اگر نہیں دیا تو مرغی لاو۔ اب چونکہ مرغی نے انڈہ نہیں دیا تھا اس لئے میں مرغی لے کر پہنچ گیا۔ سوتیلے دادا نے کہا کہ اسے صحن میں میز پر کھڑا کرو۔ میں نے مرغی کو میز پررکھا ، سوتیلے دادا نے اسے ٹی ٹی سے گولی مار دی۔میں نے رونا شروع کیا تو انہوں نے مجھے بلند آواز میں ڈانٹا کہ ایسی مرغی کس کام کی جو انڈہ ہی نہ دے؟اگر تم نے یہ ٹسوے بہانے بند نہ کئے تومجھے ہنٹر برسانے پڑیں گے ۔
ایک روز میں لنڈابازار سے عنابی رنگ کا انتہائی خوبصورت کوٹ لے کر آیا جو کسی برطانوی گورے کی اُترن تھی۔ میں یہ کوٹ پہن کر دھوپ سینکنے کے لئے صحن میں جا بیٹھا۔ سوتیلے دادا آئے تو انہوں نے ہاتھ ملایا۔ میرے ہاتھ سردی کے باعث ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کوٹ پہننے کے باوجود تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ میں نے کہا جی دادا۔ انہوں نے کہا کہ ذرااپنا کوٹ اُتارو۔ میں نے کوٹ اُتار کر ان کے ہاتھ میں دیا۔ انہوں نے دوسرے ہاتھ سے اپنی جیب سے لائٹر نکالا اور کوٹ کو آگ لگا دی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے روتے ہوئے کہا کہ دادا، یہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ وہ کوٹ ہی کس کام کا جو سردی سے نہ بچا سکے۔
”چُلّی“ نے بتایا کہ ایک روزہم سوتیلے داداکے ساتھ شالامار باغ جانے کے لئے انکی بگھی میں سوار ہوئے ۔ گھوڑے نے قدم بڑھانے سے انکار کر دیا۔دادا نے پہلے تو گھوڑے پر شقا شق چابک برسایا۔ جب وہ ٹس سے مس نہ ہوا توانہوں نے پہلے تو باغ کی سیر کا منصوبہ منسوخ کیا اور فوری طور پر سائیس کو بلایا ، اسے نوکری سے نکال باہر کیا اور گھوڑا بھی بیچ دیا ۔دادی نے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا کہ جب گھوڑا اپنا کام کرنے سے قاصر ہے تو اسے پالنے پوسنے اور کھلانے پلانے کا فائدہ؟
”دُلّی“نے 8ویں جماعت کا سالانہ امتحان دیا تو اس میں فیل ہو گیا۔سوتیلے دادا نے اسے اسکول سے اٹھا لیا کھیتوں میں کام پر لگا دیا۔ اس نے کہا کہ دادا ایسا ظلم کس لئے، سوتیلے دادا نے کہا کہ جب تمہیں سمجھ میں ہی کچھ نہیں آتا تو پڑھنے لکھنے اور اسکول کی فیسیں بھرنے کا کیا فائدہ؟ وقت مزید گزرا تو سوتیلے دادا نے ”چُلّی“ کی ”رخصتی“ کاانتظام کر لیا۔ ”چُلّی“ نے کہا دادا یہ کس لئے؟ انہوں نے کہا کہ جب تمہیں الف کے نام بے نہیں آتا، کسی عہدے پر تم فائز ہونے کے قابل نہیں ، کسی شعبے میں نام نہیں کما سکتے، ایسے میں دلہن کو بیاہ کر گھر لانے کا کیا فائدہ۔ اب اُصولی راستہ صرف یہی ہے کہ کوئی دلہن تمہیں بیاہ کر اپنے میکے لے جائے یعنی تم اس گھر سے”رخصت“ ہو کرسسرال پہنچ جاو ۔ بس وہ دن ہماری اور ”چُلّی“ کی ملاقات کا آخری دن تھا۔اس ملے ہوئے ہمیں 30سال گزر چکے ہیں۔
ہم حسب معمول سو کر اٹھے اور ناشتہ نما اشیائے خور و نوش ہاتھوں میں لے کر ٹی وی کی اسکرین پر نظریں جمائے خبرنامہ سننے میں محو ہوئے ہی تھے کہ انتہائی دلخراش خبر سننے کو ملی جس میں بتایا گیا کہ آسٹریلیا نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کوٹیسٹ میچ میں بدترین شکست سے دوچار کر دیا ہے ۔ یہ آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم کی 11ویں شکست تھی جو عالمی ریکارڈ ہے۔اس کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم نے کئی منفی ریکارڈ بھی بنائے ہیں۔ یہ سن کر کھولتے خون کے ساتھ وہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگا جس میں کسی بھی پاکستانی بلے باز کے بیٹ سے ٹکرانے والی گیند جب چوکے کے لئے باونڈری سے باہر نکل جاتی ہے تو ٹی وی اسکرین کے دائیں اور بائیں سے ”سلو موشن“ میں ایک ایک گھونسہ غرور و تکبر میں ڈوبانمودار ہوتاہے اور قریباً اسکرین کے مرکز میں پہنچ کر ایک دوسرے سے متصادم ہوتا ہے۔اسے ”جشنِ چوکا“کہا جاتا ہے۔ اسی طرح نصف سنچری بنا نے کے بعد بلے باز ہیلمٹ اُتار کر ایک ہاتھ میں پکڑتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں تھما بلا لہرا لہرا کر تماشائیوں کے ”نعرہ ہائے آفریں“ کا جواب دیتا ہے۔ پھر وہ واقعہ یاد آتا ہے جب ٹیم کے کھلاڑیوں پر تنقید کرنے والے کو کرکٹ بورڈ کے عہدیدار برہم ہو کر تھپڑ مار دیتے ہیں،تھپڑ کھانے والے کی شکایت پر اس سے تھپڑ کاثبوت مانگتے ہیں اور بورڈ کی جانب سے تحقیقات کے حکم کے بعد میں معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔بعض عمررسیدہ کرکٹر ٹیم میں شامل نہ کئے جانے پر مرنے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، بعض اپنے ساتھ اپنے بھیا کو ٹیم میں شامل کئے جانے کی شرط عائد کرتے ہیں اوربعض غیر کرکٹی صاحبانِ اختیار پاکستانی ٹیم کو اچھی کارکردگی کے بعد میدان میں ”پُش اپس“ لگانے یعنی ”ڈنڈ پیلنے“سے منع کرتے ہوئے ان پر پابندی لگا دیتے ہیں۔بعض کھلاڑی باہمی چپقلش کے باعث خراب کھیل پیش کرتے ہیں تاکہ کپتان کی کپتانی کا ریکارڈ خراب ہو ۔ 
کرکٹ کی مذکورہ صورتحال کے تناظر میں آج 33سال کے بعد ہمیں سوتیلے دادا بہت یاد آئے۔ ہمارا دل نے رو رو کر دہائی دی کہ کاش ہمیں ”چُلّی“ دکھائی دے جائے تاکہ ہم اس سے کہیں کہ براہِ کرم، برائے مہربانی صرف ایک روز کے لئے اپنے سوتیلے داداکو ہماری کرکٹ ٹیم کا کرتا دھرتا بنا دے ، وہ عہدہ سنبھالتے ہی ”قرار واقعی فیصلہ“ فرما دیں گے پھریا تو پاکستان کی کرکٹ دنیا بھر میں کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑے گی اورمنفی کی بجائے مثبت ریکارڈ سازی اس کا طرہ¿ امتیاز ہو گااور یا پھر پاکستان کرکٹ کی دنیا سے اسی انداز میں ”غائب“ رہنے لگے گا جیسے رگبی کی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں ۔
******

شیئر: