Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صرف ایک قطرہ

 
برطانوی تاجروں کا ایک گروہ جنگلوں میں گھومتا رہا تھا، اسی وقت ایک گاوں کا 17 سالہ کُنٹا کنٹے نامی نوجوان لاپتہ ہوا تھا، بحری رستوں پر چلتے ایلکس ہیلی واپس امریکہ پہنچا
 
جاوید اقبال
 
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے 44 ویں صدر باراک حسین اوبامہ کے وائٹ ہاوس چھوڑنے سے قبل قوم سے کئے گئے آخری خطاب نے مجھے ناخوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا ۔ اپنی اہلیہ میشل اوبامہ کے گزشتہ8 برسوں کے دوران تعاون کاذکر کرکے اوبامہ کی آنکھیں نم آلود ہوگئیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی تاریخ میں سیاہ فام مصنفین کی تحریر کی گئی 2 کتابوں نے کہرام مچایا ہے۔ دوسری کتاب کا ذکر تو میں بعد میں کروں گا ۔ پہلے معروف قصہ گو ایلکس ہیلی کی کتاب روٹس پر بات ہوجائے۔ 1976 ء میں منظر عام پر آنے والی اس داستان نے امریکی معاشرے کے رونگٹے کھڑے کردیئے تھے۔ ایلکس ہیلی سیاہ فام امریکی تھا۔ ایک دن اسے یونہی خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے آباءواجداد کی زندگیوں کا مطالعہ کرکے یہ پتہ چلائے کہ وہ افریقی براعظم کے کس مقام سے غلام بناکر لائے گئے تھے چنانچہ تحقیق کا آغاز ہوگیا۔ ہیلی نے مختلف کتب خانوں کو کھنگالنا شروع کیا۔ دن رات تاریخ کی کتب میں بسر ہونے لگے۔ بالآخر یہ سراغ لگاکہ ہیلی کے خاندان کاپہلا آدمی 18 ویں صدی میں مغربی افریقی ملک گیمبیا سے غلام بناکر لایاگیا تھا۔ ایلکس ہیلی گیمبیا پہنچا اور وہاں کے ضعیف قصہ گوووں سے ملاقات کی۔ ان بوڑھے افریقیوں کی یادداشت قابل رشک ہوتی ہے۔ انہیں اپنے نواح کے دیہات کا ماضی ازبر ہوتاہے۔ اکثر کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ لگاتار 3 دن کسی گاوں کی تاریخ پر بغیر کوئی بات یا واقعہ دہرائے بول سکتے ہیں۔ ایلکس ہیلی کو بتایا گیا کہ 1767 ءکے گرما میں برطانوی تاجروں کا ایک گروہ جنگلوں میں گھومتا رہا تھا۔ اسی وقت ایک گاوں کا 17 سالہ کُنٹا کنٹے نامی نوجوان لاپتہ ہوا تھا۔ بحری رستوں پر چلتے ایلکس ہیلی واپس امریکہ پہنچا اور ان برسوں میں مغربی افریقی غلاموں سے بھرے اس جہاز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جو برطانیہ سے آیا تھا۔ وہ کامیاب ہوا ۔ بندرگاہ کے ریکارڈ میں ایک اشتہار نظر پڑا جس میں اعلان کیاگیا تھاکہ یکم اکتوبر 1767 ءکو غلاموں کی نیلامی ہوگی۔ اس کے بعد ایلکس ہیلی کا کام آسان ہوگیا۔ غلاموں کی فہرست میں اس کے جد امجد کنٹاکنٹے کا نام موجود تھا۔ اس کے خریدار اور خاندان کا نام بھی لکھا تھا۔ مصنف خریدار کی کاونٹی پہنچا ا ور اس خاندان کے ریکارڈ سے اپنے جد امجد کے اگلے خریدار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ نقوش پا نظر آتے گئے اور بالآخر 6 نسلوں کے بعد راہ خود ایلکس ہیلی کے قدموں پر آختم ہوئی۔ 
کتاب کی اشاعت کے بعد اس کہانی کو ٹیلیویژن پر اقساط کی صورت میں پیش کیاگیا۔ جب اس کی قسط چلتی تو بازار تقریباً بند ہو جاتے۔ سیاہ فام بوڑھے اور بوڑھیاں ٹی وی کے سامنے بیٹھے سسکتے رہتے۔ سفید فام غمگین ہوجاتے۔ انسانوں کی اپنے ہم نفسوں پر ظلم و ستم کی اس سے بہتر کبھی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ وہ منظر ٹیلیویژن کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا جس میں دیہات میں پلنے بڑھنے والا 17 سالہ کنٹاکٹے جنگل میں لکڑی کاٹنے جاتا اور سفید فام شکاریوں کے بچھائے پھندے میں اپنا پاوں پھنسا بیٹھتا ہے۔ اس کی فریاد اور چیخ و پکار پر جنگلی جانور اور پرندے بھی وحشت میں وہاں سے فرار ہوجاتے ہیں۔ ایلکس ہیلی ایک بار پھر مغربی افریقہ گیا اور اپنے جد امجد کے اس گاوں پہنچا جہاں سے اسے پکڑا گیا تھا۔ پھر اس نے اپنے آباء واجداد کی داستان لکھی جو نہ صرف ٹائمز کی دس بہترین کتب میں مسلسل 46 ہفتے پہلے نمبر پر رہی بلکہ اس نے ایمی اور پلٹنرر انعام بھی جیت لئے۔
دوسری کتاب جس نے امریکہ میں تہلکہ مچا دیا تھا باراک اوبامہ کی ۔"ڈریمز فرام مائی فادر تھی"۔ اس میں داستان کا آغاز 1959ءسے ہوتا ہے جب وکٹوریا جھیل کے کنارے سبزے میں بسے ایک نیا نگوما کو گیلو نامی گاوں کے ایک 23 سالہ باراک حسین اونیانگو اوبامہ نامی نوجوان کو امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے کینیا کی حکومت وظیفہ دیتی ہے۔ ہوائی یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا آغاز کرنے والے اس نوجوان کی ملاقات ایک سفید فام خاتون این ڈنہام سے ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں۔ فروری 1961 ءمیں دونوں رشتہ ازواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش پر اس کا نام اوباما رکھا جاتا ہے۔ پھر میاں بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے جو مارچ 1964 ءمیں طلاق پر منتج ہوتی ہے۔ اسی برس اگست میں والد باراک حسین اونیانگو اوبامہ ہاروڈ سے معاشیات میں ایم اے کرنے کے بعد واپس کینیا آتا ہے اور ایک پرائیویٹ آئل کمپنی میں مالی مشیر کے طور پر کام کا آغاز کرتا ہے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اسے وزارت نقل و حمل میں مشیر اور بعد میں وزارت خزانہ میں مشیر اعلیٰ کے طور پر انتہائی باوقار ملازمت مل جاتی ہے لیکن ایک مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسے حکومت کی معاشی حکمت عملی سے اختلاف ہے اس لئے اکثر وہ سیاہ و سفید کے مالک صدر مملکت جوموکینیاٹا پر تنقید کرتا رہتا ہے۔ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اس طرح کی باتوں میں نکلتا ہے۔ صدر کے حکم پر اسے نوکری سے برخاست کرکے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔ تہی دستی گھر کا دروازہ یکھتی ہے تو مایوسی میں گرا ذہن اپنے آپ کو خود فراموشی کے حوالے کردیتا ہے۔ عسرت، بے روزگاری اور بے کسی سوچ پر اضمحلال طاری کرتے ہیں۔ اسی عالم خمار میں ایک دن نیروبی میں ٹریفک حادثے میں زندگی کا اختتام ہوجاتاہے۔ 1982 ءمیں بارک حسین اونیانگو اوبامہ کی داستان ختم ہوئی تو بیٹا 21 برس کا تھا۔ اسی بیٹے نے پھر اپنی اصل کی تلاش میں کینیا کا سفر کیا۔ اپنوں اور اپنے اجداد کی جستجو میں نیانگوما کو گیلوگاوں پہنچا اور اپنی دادای کی جھونپڑی کے عقب میں اپنے آپ کی قبر پر آن کھڑا ہوا۔ رات کی تاریکی میں پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا۔ اس چیز کا شاکی تھا کہ باپ نے اسے اتنی بڑی دنیا میں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ شفقت پدری کو ترستے بچے کو ایسی جگہ ترک کرا آیا تھا جہاں اس کے چاروں طرف تعصب اور نسل پرستی کے بھیانک سائے تھے۔ 
سیاہ فام امریکیوں کی یہ دوکتابیں تو تاریخ میں انتہائی اعلیٰ مقام حاصل کر گئی ہیں لیکن ایک سیاہ فام کا عالم اسلام سے ایک خطاب بھی یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ۔ پہلی مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد باراک اوبامہ کا مصر کی جامعہ الازہر اور جامعہ قاہرہ کے مشترکہ اجتماع سے خطاب موجودہ دور کی اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں اپنی جگہ بناچکا ہے۔ آغاز میں ہی اوبامہ نے السلام علیکم ، کہہ کر 2 ارب مسلمانوں کے دلوں میں امید کی مشعلیں جلا دی تھیں۔ فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق خوشی سے ہمک اٹھے تھے کہ ان کی فضاوں میں بارود کی بو کی جگہ امن کی مہک ٹھکانہ کرے گی۔ اوبامہ کے 8 سالہ دور صدارت میں عالم اسلام مضطرب ہی رہا۔ مقتول ہی رہا۔ میشل اوبامہ کا ذکر کرتے وقت صدر اوبامہ کی دونوں آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں۔ کاش کینیا کے سیاہ فام مسلمان ماہر معاشیات کا سیاہ فام بیٹا اپنے آخری خطاب میں عالم اسلام کے مظلوموں کا ذکر کرکے آنسو کا صرف ایک قطرہ ہی بہا دیتا۔ دونوں میں سے کسی بھی آنکھ سے صرف ایک قطرہ
٭٭٭٭٭٭

شیئر: