Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ میں بچوں کی روایتی انداز سے پرورش مشکل ہے،رخشندہ علی

امریکہ میں آئی ٹی اور آٹو انڈسٹری میں ملازمت کے وسیع مواقع ہیں،صفدر علی،بچوں کو تھپڑ لگائیں تو وہ پولیس بلالیتے ہیں ،ہم تو بچوں کو تھپڑ لگادیتے ہیں،رخشندہ علی

 

***انٹرویو: مصطفیٰ حبیب صدیقی ۔ جدہ*** *

اردنیوز کے اس پردیسیوں کے انٹرویو کے سلسلے میں اس مرتبہ ہم نے امریکی ریاست مشی گن میں مقیم پاکستانی خاندان سے رابطہ کیا۔ریاض میں بچپن وجوانی گزارنے کے بعد شادی کے بعدامریکہ رخصت ہونے والی رخشندہ علی اور ان کے شوہر صفدر علی نے امریکی معاشرے میں بچوں کی پرورش ،امریکہ میں ہم وطنوں کیلئے ملازمت کے مواقع اور دو قوموں کے درمیان سماجی تعلقات پر کھل کر گفتگو کی ۔ دونوں میاں بیوی کا تعلق کراچی سے ہے۔ ہمیں امید ہے کہ قارئین کو ہمارے اس سلسلے سے مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات سے آگاہی ہورہی ہوگی۔ہم آپ کی تجاویز کے منتظر رہیں گے۔

*اردونیوز:امریکی معاشرے میں رہتے ہوئے پاکستانی یا برصغیر کے معاشرے ،بچوں کی تربیت کیسے کرتی ہیں؟

*رخشندہ علی :ہم نے اپنے گھر کا ماحول بنایا ہوا۔ہم دونوں میاں بیوی پانچوں وقت کے نمازی ہیں۔بیٹا بھی پڑھتا ہے ۔بیٹی ابھی چھوٹی ہے مگر پڑھتی ہے۔دونوں بچے قرآن قاری صاحب سے پڑھتے ہیں۔بیٹاتو قرآن دوبارہ پڑھ رہا ہے۔’ دونوں بچے’سنڈے اسکول‘‘ میں اسلامی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔گھر کا ماحول اسلامی ہے۔بچوں کو ماحول میں فرق کا بھی اندازہ ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کا معاشرہ بھی کافی تبدیل ہورہا ہے مگر یہاں اچھے قوانین ہیں۔نظم وضبط ہے ۔پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔یہی لوگ جو پاکستان میں قوانین کا احترام نہیں کرتے وہ امریکہ کرتے ہیں۔ہر کام بڑی آسانی سے ہوجاتا ہے جبکہ پاکستان میں ہر کام کیلئے ناک رگڑنی پڑتی ہے۔جان پہچان نکالنی ہوتی ہے۔

*اردونیوز:یعنی اگر میں یہ سمجھوں کہ پاکستان کے مقابلے میں امریکہ آپ کو زیادہ پسند ہے تو غلط نہیں ہوگا؟

*رخشندہ علی ـ:دیکھیں ہم پاکستانی ہیں،کہیں بھی ہوں اپنا ملک ہی یاد رہتا ہے،پسند اس معنوں میں ہے کہ یہاں رہنا بہت آسان ہے۔ مہنگائی زیادہ نہیں۔ٹیکس ہے مگر اس کا مصرف بھی نظر آتا ہے۔ خوراک اچھی ہے ۔ضروری نہیں کہ بہت زیادہ کمارہے ہوں ۔کم کماکر بھی اچھی زندگی گزارسکتے ہیں۔بجلی اورپانی دستیاب ہے۔پاکستان کے مقابلے میں زندگی کافی آسان ہے۔ تعلیم مفت ہے جبکہ نجی اسکول کچھ مہنگے ہیں مگر اتنے زیادہ نہیں البتہ اسلامک اسکولوں میں کافی مہنگی فیس ہے۔

*اردونیوز:امریکہ میں انگریزی زبان رائج ہے ،آپ کے بچے اردوسے کس قدر واقف ہیں؟

*رخشندہ علی : امریکہ میںکافی دیسی اسٹورز ہیں جہاں آسانی سے اردو اخبارات مل جاتے ہیں جبکہ مساجد میں بھی اردو اخبارات ملتے ہیں۔ہم لوگ بچوں سے اردو میں ہی بات کرتے ہیں مگر یہ بھائی بہن اور کزنز انگریزی میں زیادہ بات کرتے ہیں۔میرے بیٹے کو اردو کا کوئی لفظ سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے پوچھتا ہے۔بچوں کو سختی سے کہاگیا ہے کہ بڑوں سے بات کرو تو اردومیں ہی بات کرو۔مسجد وغیرہ میں ہماری ملاقاتیں ہوتی ہیں ۔اسکول میں انگریزی بولتے ہیں مگر پاکستانی بچے بھی ہوتے ہیں تو اردو بھی بولتے ہیں۔

*اردونیوز:امریکہ میں والدین بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھاسکتے کیونکہ بچے پولیس بلالیتے ہیں کبھی آپ کو اس قانون سے مسئلہ ہوا؟

*رخشندہ علی:یہ بات صحیح ہے کہ ہم یہاں بچوں کو تھپڑ بھی نہیں لگاسکتے ۔اگر بچے 911فون کردیں تو جیل بھی ہوسکتی ہے مگر ہم نے بچوں کو سمجھایا ہوا ہے کہ بیٹا یہ ہمارا ماحول نہیں تو ہم جہاں ضرورت ہو وہاں تھپڑ بھی لگادیتے ہیں اور بچے بھی سمجھتے ہیں۔ یہاں بچوں کو ایک بات اچھی طرح پتہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور وہ غیرمسلم ہیں۔ بچوں کو حلال وحرام تک کا پتہ ہے کیونکہ ہمیں بچوں کو بتانا پڑتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کی ضرورت ہی نہیں۔اس لئے وہاں بچوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔ہم نے بچوں کو بتایا ہے کہ یہاں پولیس لے جاتی ہے اور تم والدین سے الگ ہوجائوگے۔ہمارا پاکستانی ماحول ہے ۔بچوں کو شرارت یا غلطی پر ہم دونوں کی طرف سے تھپڑ وغیرہ تو پڑ ہی جاتا ہے۔

*اردونیوز:ایک غیرمسلم معاشرے میں رہتے ہوئے ضرورت تو پڑتی ہوگی غیرمسلموں سے میل جول کی پھر کیسے 2مختلف معاشروں میں بچوں کی تربیت کرتی ہیں؟

* رخشندہ علی :ہمارا پاکستانی وہندوستانی خاندانوں سے ملنا جلنا ہے مگر زیادہ تر پاکستانیوں سے ہی روابط ہیں۔یہاں کے مقامی لوگوں یعنی امریکیوں سے بات چیت تو ہے اور ہم اپنی طرف سے اچھے اخلاق کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں مگر میں گھر میں آنا جانا یاملنا جلنا نہیں رکھتی کیونکہ ہمارا ماحول الگ ہے ۔تاکہ بچوں پر اثرات نا پڑیں ۔میرے بچوں کے اسکول کے دوست کبھی آجاتے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں سے فاصلہ رکھتی ہوں تاکہ بچے ان کے ماحول میں ڈھلنے نا پائیں لیکن یہاں بہت سے پاکستانی خاندان ہیں جو مقامی لوگوں کے ساتھ مراسم رکھتے ہیں۔

*اردونیوز :امریکہ میں حجاب یا پردے کی وجہ سے مسلمان خواتین کو مسائل کا سامنا رہتا ہے آپ کا کیاخیال ہے؟

*رخشندہ علی : میں مشی گن ریاست میں رہتی ہوں ۔یہاں عرب سمیت دیگر مسلمان زیادہ ہیں۔یہاںحجاب میں بھی اکثریت نظرآتی ہے۔نسلی تعصب کم ہے۔ البتہ عراقی عیسائیوںکی بھی تعداد اچھی خاصی ہے۔

*اردونیوز:سنا ہے کہ امریکی معاشرہ کافی خودغرض ہے ؟

*رخشندہ علی :یہ بات بالکل صحیح ہے کہ امریکی معاشرہ بہت خودغرض اور مادہ پرست ہے کیونکہ یہاں ہر کوئی ملازمت کرتا ہے۔کوئی کسی کیلئے بل دینا نہیںچاہتا۔جیسے ہمارے ہاں ریسٹورنٹس میں جاتے ہیں تو ایک شخص سب کو کھلادیتا ہے۔یہاں گرل فرینڈز اوربوائے فرینڈز زیادہ ہوتے ہیں۔وہ کھانا کھانے جاتے بھی ہیں تو اپنا اپنا بل ادا کرتے ہیں۔بچے بھی سنا ہے کہ جب جوان ہوجاتے ہیں تو عموماً انہیں ماں باپ نکال باہر کرتے ہیں کہ جاکر خود کمائو اور خود کھائو۔ان کا ماحول بہت کنفیوژن والا ہے۔ہمارا ماحول بہت مختلف ہے۔ یہاں بچے بڑے ہونے تک خود بھی اتنے باغی ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی زندگی خود گزارنا ہوتی ہے۔اسلئے ہمیں اپنے بچوں کو ہر بات بتانی پڑتی ہے جبکہ پاکستان میں اتنے رشتہ دار ہوتے ہیں بچے سب سیکھ لیتے ہیں۔جب تک گھر کا ماحول صحیح نہیں ہوگا بچے صحیح نہیں ہونگے۔اسلئے مجھے کافی پریشانی رہتی ہے کہ بچے صحیح ماحول میں ر ہیں۔۔یہاں ایسے پاکستانی وہندوستانی والدین ہیں جن کے بچے بگڑ گئے ہیں۔میں آپ کو بتائوںکہ میرے بچے کا ایک دوست غیرمسلم ہے۔اس کے اصل باپ کی وفات ہوچکی ۔اس کی ماں نے دوسری شادی کرلی مگر وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہے جبکہ اس کا شوہر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رہتا ہے۔اس سے اندازہ لگالیں کہ یہاں پر بچوں کی پرورش کتنی مشکل ہوتی ہے۔

*اردونیوز:کبھی نسلی تعصب یا تنقید کا سامنا کرنا پڑا؟

جبکہ ملازمت کے کیا مواقع ہیں ؟

*صفدر علی : نہیںمجھے توکبھی بھی تنقید یا نسلی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔جہاں تک ملازمت کا تعلق ہے تومشی گن میں آٹو انڈسٹری میں الیکٹریکل اور مکینیکل انجینئرز کی کافی ڈیمانڈز ہے جبکہ پورے امریکہ میں آئی ٹی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی فیلڈ ہو ملازمت مل جاتی ہے۔

* * محترم قارئین !* *

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز اور کہانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ۔آئیے اپنی ویب سائٹ www.urdunews.com سے منسلک ہوجائیں۔۔ہمیں اپنے پیغامات کمپوز کرکے بھیجیں

،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔

--ہم سے فون نمبر 0966122836200 -ext: -3428۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے--

باعث افتخار ہوگی۔۔ای میل:

[email protected]

 

 

شیئر: