Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرف اور عشرت العباد کا سیاسی مستقبل۔۔۔۔؟

 
یہ دونوں وطن واپس آکر کون سا پہاڑ کھود لیں گے، کیا انقلاب لے آئیں گے، سب فضول باتیں ہیں، پاکستانیوں کو حیرانی ہوگی یہ سن کر کہ پاکستانی معیشت واقعی ترقی پذیر ہے
 
صلاح الدین حیدر
 
  پاکستانی عوام کے لئے کچھ اچھی خبریں بھی ہیں۔ معیشت اُبھرتی نظر آنے لگی، یہ حکومت وقت نہیں بلکہ بیرونی دُنیا نے قبولا ہے۔ بلومبرگ (امریکہ کے شہر نیویارک سے شائع ہونے والا میگزین ہے جو دُنیا پر گہری نگاہ رکھتا ہے اور اُس میں شائع ہونے والے مضامین مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر قابل اعتبار سمجھے جاتے ہیں) نے اپنے تازہ ترین شمارے میں اس بات کی بہترین انداز میں تشہیر کی ہے کہ پاکستانیوں کو حیرانی ہوگی یہ سن کر کہ پاکستانی معیشت واقعی ترقی پذیر ہے۔پہلے سے بہت بہتر حالت ہے، سارے اشاریے اور اعداد و شمار بلندی کی طرف جارہے ہیں۔ اس سے نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتاوں کی تو چاندی ہوگئی۔ وہ تو اب صبح، شام، رات غرض 24 گھنٹے، ٹی وی اور تشہیر کے تمام دوسرے ذرائع پر ٹیپ ریکارڈر کی طرح تعریفی راگ الاپنا شروع کردیں گے۔ ویسے ہی بے چارے 3 لوگوں کا کنبہ طلال چوہدری، دانیال عزیز، وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب پچھلے کافی دنوں سے عوام کا دماغ چاٹ رہا تھا، اب اُن میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا اضافہ ہوگیا ہے۔ شاید نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر کے سندھ کے گورنر بننے کے بعد جگہ خالی ہوگئی، جسے پُر کرنا ضروری سمجھا گیا۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، سیاست ناصرف پاکستان بلکہ کئی دوسرے ممالک میں جھوٹ بولنے کا نام ہے۔ خیر چھوڑیں، یہ تو دیکھ اور سن کر ہم تنگ آچکے ہیں۔ مہذب دُنیا میں عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے بارے میں تبصرے اس لئے نہیں کئے جاتے کہ وہ کہیں منصفین کے فیصلوں پر اثرانداز نہ ہوں لیکن پاکستان میں تو ہمیشہ ہی اُلٹی گنگا بہتی آئی ہے، اس لئے حیرت کی کوئی بات نہیں۔
جس بات نے چونکا دیا وہ تھی متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما سلیم شہزاد کی ایک دم کراچی آمد۔ وہ قریباً 25 سال سے برطانیہ میں مقیم تھے۔ جون 1991 میں ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بعد اُنہوں نے کئی اور لوگوں کی طرح راہِ فرار اختیار کی اور برطانوی شہری بن بےٹھے۔ اس بیچ وہ دو، ایک دفعہ پاکستان تشریف لائے بھی لیکن ہوا کے جھونکے کی طرح نمودار ہوئے اور آناً فاناً طوفان کی طرح یہ جا، وہ جا۔ اُن کے کہنے کے مطابق، وہ اپنے تمام ساتھیوں (یعنی الطاف حسین، ڈاکٹر عشرت العباد، مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار کو یکجا کرنے آئے تھے۔ اوّل تو ایسا اب ممکن نظر نہیں آتا، پھر سلیم شہزاد کی ایم کیو ایم میں کبھی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ مصطفیٰ عزیز آبادی کی طرح وہ بھی الطاف حسین یا مرحوم ڈاکٹر عمران فاروق کی مدح سرائی میں مصروفیت کے علاوہ اور کوئی قابلِ ذکر کام کرتے نظر نہیں آئے۔ مجھے تو لندن میں ان تمام لوگوں سے سابقہ رہا ہے۔ سلیم شہزاد کے بارے میں بہت کچھ مشہور ہے، اُن کے خلاف مقدمات بھی قائم ہیں، آتے ہی کراچی ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیے گئے اور گرفتار بھی مشہور زمانہ پولیس افسر راﺅ انوار (جو ملیر ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہیں) نے کیا، لیکن دوسرے ہی روز اُنہیں ایک عدالت نے 14 روز کے لئے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ چلو خیریت ہی ہوئی اُن کی راﺅ انوار سے جان چھوٹ گئی، عدالت اُنہیں پولیس ریمانڈ پر بھی دے سکتی تھی، ایسا ہوتا تو پھر سلیم شہزاد کی خیر نہیں تھی۔ راﺅ انوار نے اُن کا وہ حشر کرنا تھا کہ شاید پھر کبھی پاکستان آنے کا وہ نام بھی نہ لیتے۔
خبریں یہ بھی تھیں، خبریں کہہ لیجیے یا افواہیں کہ وہ ڈاکٹر عشرت العباد اور پرویز مشرف سے مل کر دبئی سے پاکستان آئے تھے، اس کی تصدیق تو نہ ہوسکی لیکن دو باتیں اپنی جگہ اہم ہیں۔ یہ امر تو اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اُن کی خواہش کو فوراً ہی موت کی نیند سلادیا گیا۔ ایم کیو ایم پاکستان (جو اب بظاہر لندن سے اپنا رابطہ توڑ چکی ہے) کے دو موقر لیڈران خواجہ اظہار الحسن اور خالد مقبول صدیقی نے دبئی جاکر اُنہیں صاف بتادیا کہ مشرف ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں، ایم کیو ایم کے چند اصول ہیں جن پر وہ سختی سے قائم رہتی ہے۔ وہ تنظیم سے باہر کے لوگ تو عہدوں اور منصب کے لئے چنتی ہے لیکن عموماً وہ اپنے ہی لوگوں کو اہم عہدوں پر مقرر کرتی ہے کیونکہ وہ کئی کئی سال تنظیم کی خدمت کرتے رہے ہوتے ہیں۔
سلیم شہزاد کا وطن واپس آنا اور پھر یہ کہنا کہ ایک مقتدر شخصیت سے اُن کی ملاقات ہوئی ہے، اپنی جگہ اہم تھا لیکن وہ جن لوگوں کے سہارے وطن لوٹے تھے، اُنہوں نے جب منہ ہی پھیر لیا تو پھر اگر کوئی پلان ایم کیو ایم کو آگے بڑھانے کا تھا، وہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ ایم کیو ایم پاکستان نے اُنہیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔خود الطاف حسین سے اُن کے رابطے کئی مہینوں سے منقطع تھے۔ ایم کیو ایم لندن کے سرکردہ لیڈر واسع جلیل کا یہ کہنا کہ سلیم شہزاد کافی عرصے سے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں اور اب ایک آزاد شخص ہیں، نے شروع سے ہی اُن کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دے ڈالا۔ ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اُن سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور بالآخر ایک روز بعد پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے بھی اُنہیں اچھی نظر سے دیکھنا گوارا نہ کیا۔ گویا قصّہ ختم۔ اب وہ اس وسیع و عریض صحرائے سیاست میں تن تنہا ہیں۔
جہاں تک سوال تھا کہ وہ مشرف یا عشرت العباد کا کوئی پیغام لے کر آئے ہیں، تو اُس پر بھی اوس پڑ گئی۔ عشرت العباد کو سیاست کا بہت تجربہ ہے۔ 1990ء میں وہ ایم کیو ایم کی طرف سے وزیر بلدیات تھے اور پھر دسمبر 2002ءسے لے کر پچھلے سال کے اواخر تک (14 سال) سندھ کے گورنر رہے۔ ظاہر ہے، اُنہیں صوبے کے بارے میں کافی معلومات ہوں گی۔ مشرف بھی اسی طرح، ملک کے ساڑھے 8 سال صدر رہے، ریفرنڈم اور انتخابات کروائے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو سائیڈ لائن کیا، دونوں جماعتوں کو توڑ جوڑ کرکے ایک نئی مسلم لیگ (ق) بنادی۔ گجرات کے معمر سیاستدان چوہدری شجاعت (جو مشرف کے دست راست تھے) اُن سے دبئی ملنے گئے۔ دوسری طرف فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا نے بھی اُن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، اچھی خاصی گفتگو ہوئی ہوگی لیکن نتیجے کی نہ تو کوئی اُمید تھی نہ ہی کوئی نتیجہ نکلا۔ پھر ابھی ایک بات تو طے ہے کہ مشرف اور عشرت العباد دونوں ہی سیاست کی چوکھٹ پر قدم رنجا فرمانے کو تیار بےٹھے ہیں۔ یہ بھی خبریں شائع ہوئیں کہ عشرت العباد وطن واپس آرہے ہیں۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ سیاست ایک ایسا صحرا ، ایک ایسا بحرِ بےکراں ہے، جس میں انسان تو کیا انسانوں کا سمندر تک غائب ہوجاتا ہے۔ ایسے میں مشرف اور عشرت العباد کون سا تیر مارلیں گے، میری سمجھ میں تو کچھ آتا نہیں اور اگر میں اپنا فیصلہ سنادوں تو پھر سن لیجیے کہ اُنہیں کامیابی تو دُور، کوئی بھی قابلِ ذکر حےثیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ سلیم شہزاد کیا کرلیتے، یہ بات مضحکہ خیز تھی۔ مشرف اور عشرت العباد وطن واپس آکر کون سا پہاڑ کھود لیں گے، کیا انقلاب لے آئیں گے، سب فضول باتیں ہیں۔
******

شیئر: