Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2 مظلوم طبقات، ایک سیاستدان اور دوسرے سیاستدان

 
ہمارے لیڈر فارغ نہیں رہنا چاہتے ، لہٰذا وہ الیکشن کے بعد پھر الیکشن الیکشن کھیلنا شروع کر دیتے ہیں
 
محمد قمر اعظم۔ جدہ
 
ہمارے ملک کی اسمبلیاں کسی حسینہ کے دل کی طرح بہت جلد ٹوٹ جاتی ہیں۔ اسمبلیاں ٹوٹنے کی وجہ لوگ کچھ بھی بتائیں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اسمبلیاں اس لئے ٹوٹتی ہیں کیونکہ وہ بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے جو چیز بنی ہو،وہی ٹوٹ سکتی ہے۔ دراصل ہمارے لیڈر فارغ نہیں رہنا چاہتے لہٰذا وہ ایک الیکشن کے بعد پھر سے الیکشن الیکشن کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔اس دوران ایک سیاستدان دوسرے سیاستدان کے خاندان اور کردار کے بارے میں وہ وہ باتیں فرماتے ہیں جو وہ سیاستدان خود بھی نہیں جانتے ہوں گے ۔ اس دھما چوکڑی میں عوام سہمے ہوئے رہتے ہیں ۔ویسے سچ یہ ہے کہ سیاستدان تو مفت میں بدنام ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہر شخص اپنی روش پر چل رہا ہے۔ الزام تراشی ہماری شناخت بن چکی ہے جس سے پیچھا چھڑانا نا ممکن ہے ۔
ایک آدمی کی ماں اور بیوی آپس میں لڑ رہی تھیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہی تھیں۔ وہ آدمی آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔ کسی نے اس سے دریافت کیاکہ میاں! ان دونوں کی لڑائی کو روکتے کیوں نہیں ،کیسی الزام تراشی کر رہی ہیں۔ اس نے اطمینان سے جواب دیاروکوں کیوں ؟ آج تو مجھ پر بڑے بڑے انکشافات ہو رہے ہیں۔ اتنے راز پہلے ان دونوں کے بارے میں مجھے کب پتہ تھے۔
سچ یہ ہے کہ ہم کمال کرنے والے ہیں کیونکہ بے کاری، غربت ، رشوت، بدعنوانی اور جہالت ہمارے پیدائشی نشان، انتخابی نعرے اور بنیادی حقوق ہیںاور ان بنیادی حقوق سے محرومی ہمیں گوارا نہیں۔ ایک انتخابی امیدوار نے فرمایا کہ میں پھر سے وزیر بنوں گا کیونکہ میرے ساتھ غریب عوام کی دُعائیں ہیں اور وہ واقعی دوبارہ وزیر بن کر اپنی جیبیں بھرنے لگے۔ ان سے پوچھا گیا کہ عوام کا کیا بنے گا تو انہوں نے شان بے نیازی سے فرمایا کہ عوام اگر خوشحال ہو گئے تو پھر میرے لئے دُعا کون کرے گا؟ 
عوام ”بے کار“ ہیں ،اس لئے پیدل ہیں۔ ظاہر ہے جب کسی کے پاس کا ر نہیں ہو گی تو وہ پیدل ہی ہو گا۔بے کار ہونے کے باعث عوام کو رشوت اور بدعنوانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ جہالت کے باعث ہوتاہے ۔ جہالت ہی غلط ووٹ ڈلواتی ہے اور جب جہالت کے باعث نوٹ کے بدلے ووٹ پڑتے ہیں تو بے کاری ، غربت اور کرپشن خود بخود دبے پاﺅں چلی آتی ہے۔عوام کو تنگ کرنے کی کسی کو بھی ضرورت نہیں ۔وہ بے چارے اپنے ہاتھوں خود ہی تنگ رہتے ہیں ۔ تب ہی ان کا ہاتھ بھی مہینے کے آخر میں تنگ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اکثر محکموں نے عوام کو ترس کھا کر چھوڑ دیا ہے کہ کیا سرکاری عہدیدار کم ہیں جو عوام بھی اس میں حصہ لیں۔ ہمارے ملک میں دو طبقے ایسے ہیںجن پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے اور بے وجہ کی جاتی ہے حالانکہ یہی سب سے زیادہ مظلوم طبقے ہیں۔ ان میں ایک طبقہ ہے سیاستدان اور دوسرا طبقہ ہے سیاستدان ،حالانکہ اول الذکر اور موخر الذکر دونوں آپس میں بھی خوب لڑتے ہیں مگر نہ جانے کیوں لوگوں کو ان کی لڑائی بھی ملی بھگت نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم عوام کو سوائے تنقید کے اور کوئی کام نہیں۔ ہمارا ملک مندرجہ بالا چیزوں کے علاوہ دانشوروں اور مشیروں کے معاملے میں بھی خود کفیل ہے۔ ہرشخص دانشور اور مشیر ہے ۔ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیں کچھ دانشور اپنی عمر اور سر کے تمام بالوں کو گنوا کر اب تک اسی سوچ میں غلطاں ہیں کہ یہ ملک کیسے بنا اور اب تک قائم کس طرح ہے۔ ایسے ہی دانشوروں اور کرم فرماﺅں کی بدولت اگر اخبارات اُٹھا کر دیکھیں تو بلڈپریشر، شوگر اور دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ آپ اخبار نہ پڑھیں ۔ویسے میری رائے میں تو ہر مسئلے کا حل یہی ہے کہ اخبار پڑھنا چھوڑ دیا جائے۔ آخر یہ سارے کردار آپ کے گھر چل کر تو آپ کو پریشان کرنے نہیں آتے ناں۔پاکستان میں صحت اور خوشی کے فقدان کی ایک وجہ اخبار پڑھنا بھی ہے لہٰذا ایسا کر کے دیکھ لیجئے ، افاقہ نہ ہو توکہئے گا۔
٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: