Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اُف قابلیت کا یہ عالم

 
آپ 70سال کے ہیں، پھر بھی ہمیں باجی کہا، یہ بھی سنسنی خیز خبر ہے 
 
مسز زاہدہ قمر۔جدہ
 
اب یہ بات راز نہیں رہی کہ ہم کتنے بڑے مصنف ہیں۔ ہماری ذہانت، فطانت اور لیاقت کے قصے زباں زدِعام ہو چکے ہیں حالانکہ عام چیزوں سے ہمیں کوئی خاص دلچسپی نہیں مگر پھر بھی اپنی لیاقت کو عام ہوتا دیکھ کر ہم خوش ہیں ۔ ہر شخص ہماری شہرت سے خوفزدہ ہے۔ سب کو ہماری فکر کھائے جا رہی ہے ۔کالم پر کالم لکھ لکھ کر ہم نے اپنے مخالفین اورحا سدین کے منہ بند کر دیئے ہیں۔ ابھی کل ہی انچارج صاحب نے ہمیں کال کرکے صلاح دی ہے کہ آپ بہت لکھ چکی ہیں ،اب تھوڑا آرام فرمالیجئے۔ آپ کے دماغ کو آرام کی ضرورت ہے اور شاید ہمارے سُننے میں آیا تھا کہ وہ کچھ علاج وغیرہ کی بات بھی کر رہے تھے۔ ان کا خیال ہو گا کہ لکھ لکھ کر ہمارے دماغ میں درد ہو گیا ہے اور ہم اپنے دماغ کے درد کا علاج کرائیں مگر جناب ہم علاج کرانے والے تو ہیں ہی نہیں۔ ہم نے جھٹ ان سے کہا کہ ©©”سر !!ہم تھکنے والی ہستی نہیں ہیں ابھی ہم پچاس سال بغیر رُکے اپنی زبان کی طرح قلم چلا سکتے ہیں یہ سُنتے ہی دوسری جانب سے ”آہ“ کی آواز آئی اور فون بند ہو گیا“۔
اتنی ستائش نے ہمیں اور منکسرالمزاج بنا دیا ہے اور ہم مزید قلم چلانے لگے ہیں۔ جب سے ہم نے خطوط کے جواب کا سلسلہ شروع کیا ہے، وطن عزیز کے کونے کونے سے خطوط کا نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ لوگ بڑے اصرار اور التجا سے اپنے مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں اور ہم ایک طبیب کی طرح ان کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔فی الحال چند خطوط کے جوابات حاضر خدمت ہیں۔
٭٭ٹنڈو آدم سے ٹنڈوالے بھائی صاحب کا خط ہے۔ان کی حال ہی میں ایک کتاب چھپ چکی ہے ”کامیاب زندگی کا راز“،وہ لکھتے ہیں ”بہن جی!میںبے حد غمگین زندگی بسر کر رہا ہوں۔ ہر وقت غم زدہ اشعار پڑھتا ہوں۔ گھر میں ہر وقت جھگڑا رہتا ہے۔ دراصل میری بیوی کو شکایت ہے کہ میں اس کے گھر والو ں ، رشتے داروں وغیرہ کو اہمیت نہیں دیتا حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے ۔میں اسے کیسے سمجھاﺅں؟ سوچ سوچ کر میرے بال جھڑ گئے ہیںاور” ٹنڈ طلوع“ ہو گئی ہے اورلوگ مجھے ٹنڈوکہنے لگے ہیں۔“
**حل:بھائی جی! اس مسئلے کا حل بڑا سادہ اور آسان ہے ۔آپ پورے دل سے بیوی کے رشتے داروں اور تعلق داروں کو اہمیت دیں اور اسے بڑے خلوص اور سچائی سے بتائیں کہ آپ اپنی ساس سے زیادہ بیوی کی ساس و سسر سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ اپنی سالی کے مقابلے میں اس کی نند اور اپنے سگے اور اکلوتے سالے کے مقابلے میںاس کا دیور آپکو عزیز ہے ۔پھر دیکھیں وہ کس قدر خوش ہو گی اور آپ کا دم بھرنے لگے گی۔
٭٭میانوالی کی ردی پیپر کالونی سے صحافی بھائی لکھتے ہیں کہ ”باجی! میں ایک صحافی ہوں ۔ میری عمر 70 سال ہے۔ میں کرائم رپورٹر ہوں اور اپنے اخبار ”بال کی کھال“ میں سنسنی خیز خبروں کا انچاج ہوںمگر باجی! میں آج تک کوئی سنسنی خیزخبر نہیں بنا سکا۔ میر ی ہر خبر پھُس پھُسی ہوتی ہے۔ میری سنجیدہ خبروں پر بھی لوگ ہنستے ہیں۔ مجھے بتائےں کہ میںایسی انتہائی سنسنی خیز خبر کیسے بناﺅںکہ لوگ چونک جائیں ،ان کے دل دھڑک جائیں ، غصہ بھڑک جائے، میرے مخالف لڑھک جائیں، لوگ جرم سے ڈرنے لگیں او رکچھ ہستیاں مجھ پر مرنے لگیں۔ہر طرف میرا نام ہو جائے اورمیراہر بگڑا کام، ہو جائے پلیز پلیز۔
**حل:دادا جان! آپ کہتے ہیں کہ آپ نے آج تک کوئی سنسنی خیز خبر نہیں بنائی تو یہ آپ کی کسر نفسی بلکہ کسمپرسی کیونکہ آپ جیسے لیول کے آدمی کا کرائم رپورٹر ہونا ہی سنسنی خیزی ہے۔ خیر!آپ نے ہمیں باجی کہا، یہ بھی ایک سنسنی خیز خبر ہے کیونکہ ہم آپ کی پڑ پوتی بلکہ لکڑ پوتی کے برابر ہیں اور اور لکڑ بھی کیوں ہو، ہم آپکی لکڑ دھکڑپوتی ہیں۔ویسے تو ہم غُصے میں ہیں مگر ہمیںاپنا فرض عزیز ہے۔
اب سنئے سنسنی خیز خبر کیسے بنائی جاتی ہے۔ آپ میانوالی میں رہتے ہیں تو میانوالی کی کوئی بھی خبر لکھنے لگیں تو ابتداءمیں شہر کے نام کی جگہ”بیوی“لکھیں۔ جب کوئی پوچھے کہ ایسا کیوں کیاہے تو کہہ دیجئے کہ گھما کر کان پکڑنے کی کیا ضرورت ہے، سیدھے سیدھے کان پکڑئیے۔ ہر ذی شعور اُس ہستی کو بیوی ہی کہتا ہے جو میاں والی ہوتی ہے ۔ 
اگر کہیں بے پردگی اور بے حسی عام ہو جائے تو دونوں چیزوں کوملاکریوں لکھئے کہ لوگوں کا خلوص عورتوں کے پردے کی طرح ناپید ہو گیا ہے۔ ایک اور بات ، آپ نے غلط شعبے کا انتخاب کیا ہے۔ آپ70سال کے ہیں تو آپ کو نوجوانوں کے صفحے کا انچارج ہونا چاہئے ۔
******

شیئر: