Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا قرآن خوانی بدعت ہے؟

 
ایصال ثواب کے لیے آنحضرت نے جن امور کی ہدایت فرمائی ، ان میں قرآن خوانی کا ذکر نہیں، اس کا وجود عہدِ صحابہؓ  اور تابعین میں بھی نہیں 
 
ام عدنان قمر۔ الخبر
 
قرآنِ کریم نازل فرمانے والے رب العالمین نے سورہ طہٰ (آیت123) میں وعدہ فرمایا ہے
جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبختی ہی میں مبتلا ہوگا۔
 
سورہ یونس57 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اے لوگو! یقیناتمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے (قرآن کی) نصیحت آگئی ہے اور یہ (ان بیماریوں کے لیے) شفاہے جو سینوں میں ہیں اور مومنوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔
 
یعنی جو قرآن کریم کو دل کی تو جہ سے پڑھے اور اس کے معانی و مطالب پر غور کر ے، اس کے لیے قرآن نصیحت ووعظ ہے اور وعظ کے اصل معنی ہیں: عواقب و نتائج کی یاددہانی، چاہے ترغیب کے ذریعے سے ہو یا ترہیب سے۔ وعظ کی مثال اس ڈاکٹر کی طرح ہے جو مریض کو ان چیزوں سے روکتا ہے جو اس کے جسم و صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔
 
اسی طرح قرآنِ کریم بھی ہمیں دونوں طریقوں سے وعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہو نا پڑ ے گا اور ان کا موں سے بھی رو کتا ہے، جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہو سکتی ہے۔ یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائدِ حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی ہوتی ہے، اسے صاف کرتا ہے۔
 
یہ قرآن مومنوں کے لیے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے، ویسے تو یہ قرآنِ کریم سارے جہان والوں کے لیے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب صرف اہلِ ایمان ہی ہوتے ہیں، اس لیے یہاں صرف انہی کے لیے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔ یعنی اس قرآنِ کریم کے ذریعے ہر مسلمان اپنے آپ کو گمراہی کے اندھیروں سے بچا سکتا ہے اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کرکے بدبختی میں مبتلا ہیں، انھیں اللہ سے ڈر نا چاہیے اور وہ توبہ کر لیں کیونکہ ہمارے رب نے یہ قرآن پڑھ کر عمل کرنے کے لیے نازل فرمایا ہے نہ کہ رسم و رواج کے لیے، جیسے قرآن خوانی کے ذریعے مُردوں کو ثواب پہنچانے کا رواج اب تقریباً ہر جگہ عام ہوگیا ہے، یہاں تک کہ کسی ملک کی بڑی شخصیتوں کی وفات کے موقع پر اس ملک کے ریڈیو ٹی وی اپنے مقررہ پروگراموں کو چھوڑ کر قرآنِ کریم کی تلاوت نشر کرنے لگتے ہیں اور عوام اپنے مردوں کو ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کی مجلس مقرر کرتے ہیں اور حاضرینِ مجلس میں سے ہر شخص یا مخصوص پیشہ ور قرآن خواں جیسے تیسے قرآن ختم کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچانے کی دُعا مانگتے ہیں۔
 
یہ رسم ایک بہت بڑی بدعت ہے جو ہمارے بر صغیر میں پھیل گئی ہے۔ اب تو اس بدعت میں اضافہ کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے ایک نئی صورت نکال لی ہے کہ ہر محلے میں قرآن خوانی کی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، ہر ہفتے یہ لوگ جمع ہوتے ہیں، عموماً جمعہ کے دن قرآن خوانی کرتے ہیں، پھر اپنے محلے کے مسائل پر گفتگو کرتے اور مباحثے وغیرہ بھی کرتے ہیں، اس طرح یہ محفل اختتام پذیر ہوتی ہے، گویا یہ قرآن مجید کے استعمال کی ایک نئی صورت نکل آئی ہے۔ اس طرح کے لوگوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورت محمد24 میں اس طرح فر مایا ہے
بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ رہے ہیں
 
قرآنِ کریم کے اس مقصد عظیم کو لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہے اور دوسرے طریقوں سے اس کو استعمال کرنے لگے ہیں، مثلاً قرآن خوانی یا پھر قسمیں کھانا، نقش بنانا، تعویذ گنڈے کرنا، فالیں نکالنا، دولہا دلہن کو اس کے نیچے سے گزارنا، بیماروں کو اس کی ہوا دینا اور مردوں کو بخشوانے وغیرہ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا انہی کاموں کے لیے ربِ عظیم نے اس کتابِ عظیم کو نازل فرمایا تھا؟ ہرگز نہیں! بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک اور جگہ سورۃ القمر(آیات17،22اور32) میں فرمایا ہے
اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ اسے سوچے سمجھے
 
قرآنِ کریم کو اللہ تعالیٰ نے سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے زندہ لوگوں پر نازل فرمایا ہے، نہ کہ مردوں پر پڑھنے کے لیے، جیسا کہ اللہ رب العالمین نے سورہ یٰسین (آیت69) میں ارشاد فرمایا ہے
اورہم نے اس (پیغمبر) کو شاعری نہیں سکھلائی اور نہ شاعری اس کے لائق ہے۔ (قرآن شعر نہیں) وہ تو نصیحت اور صاف صاف پڑھنے کے لائق (ایک کتاب) ہے۔
 
قرآنِ کریم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ اطاعت اور عمل کر نے والوں کو انعام کی بشارت دے اور نافرمانوں کو سزا کی وعید سنائے، یہ اس لیے اترا تھا کہ ہم اس کے ذریعے اپنے نفو س کو سنواریں اور اپنے حالات کی اصلاح کریں۔ دوسری آسمانی کتابوں کی طرح قرآن کو بھی اللہ نے محض اسی لیے نازل کیا تھا کہ اس کی ہدایت پر لوگ عمل کریں اور اس کی راہنمائی سے راہ یاب ہوں، جیسا کہ سورۃ الاسراء9 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
بے شک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جو بہت ٹھیک ہے (اسلام کی راہ) اور جو ایماندار لوگ نیک کام کرتے ہیں، ان کو خوشخبری دیتا ہے کہ ان کو (آخرت میں) بڑا اجر ملے گا (بہشت)۔
سورۃ النجم 39 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔
 
جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہ ہوگا، اسی طرح آخرت میں اجر بھی ان ہی نیکیوں کا ملے گا جو اس نے خود اپنی محنت سے کی ہوں گی۔
سورۃ المدثر38 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ہر نفس نے جو کیا اس کے بدلے وہ گروی ہے۔
یعنی اعمال اگر اچھے ہوں تو اسے چھڑا لیں گے ورنہ جہنم تک پہنچا دیں گے۔ آدمی کا عمل ہی اسے چھڑائے گا اور عمل ہی اسے ہلاک کر ے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، (ہر) شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔(الحشر18)
 
کل سے مراد یومِ قیامت ہے اور ’’آج‘‘ سے مراد دنیوی زندگی ہے۔ یہ زندگی دار العمل اور دار الامتحان ہے جبکہ آخرت دار الجزاء ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا
عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا خود محاسبہ کرے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا
اپنا محاسبہ کر لو، اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔
 
اس سے پتا چلا کہ قرآن خوانی کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا کیوں کہ یہ نہ مردے کا اپنا عمل ہے اور نہ اس کی محنت، اسی لیے نبی اکرم  نے مُردوں کے لیے قرآن خوانی کی ترغیب نہیں دی اور نہ کسی صریح نص یا اشارۃ النص سے اس کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ عبادات کے لیے نص کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی قسم کی رائے یا خیال نہیں چل سکتا۔ غرض یہ کہ آپ کی سنت یہ نہ تھی کہ آپ اپنے اصحاب کو دفن فرمایا کرتے تھے اور ہر شخص اپنے اپنے کام پر چلا جاتا اور مرنے والا اپنے عمل کا ذمے دار ہوتا تھا۔ آپ کا یہی طریق تھا اور ہمیں اسی کی اقتدا کرنی چاہیے۔ جو لوگ قرآن خوانیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے اس طرح اپنے مرحومین کا حق ادا کر دیا ہے تو ایسا ہرگز نہیںکیونکہ یہ طریقہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے خلاف ہے اور سو فیصد بدعت ہے۔ یہ اپنی قرآن خوانیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا غضب مول لے رہے ہیںکیونکہ جو عبادت رسول اللہ سے ثابت نہیں، اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ گناہِ عظیم ہے۔ اگر مُردوں کے لیے قرآن خوانی جائز ہے تو پھر رسول اللہ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریؓاور اپنی بیٹیوں یعنی حضرت زینب، حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضوان اللہ علیہم کے لیے اور اپنے محبوب ترین چاچا اور رضاعی بھائی سید الشہداء حضرت امیر حمزہؓ کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیوں نہیں فرمایا؟ اگر یہ جائز ہوتا تو نبی کریم ضرور کرتے اور امت کو بھی اس کا حکم فرماتے۔
 
اسی طرح خلفائے راشدین کے دور میں صحابہ کرام فوت ہوئے، شہید بھی ہوئے مگر قرآن خوانی کسی کے لیے بھی نہیں ہوئی، نہ ان کی قبر پر نہ مسجد میں نہ کسی مجلس میں۔ قرآن خوانی کے موضوع پر غور کرنے سے قبل اگر مندرجہ ذیل چند ابتدائی اور تمہیدی حقائق پر بھی نظر رکھی جائے تو ان شاء اللہ مسئلے کی حقیقت بہت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے
میت کو ثواب پہنچانے کے لیے آنحضرت نے جن امور کی ہدایت فرمائی ہے، ان میں قرآن خوانی کا ذکر کہیں نہیں اور نہ اس کا وجود عہدِ صحابہؓ  اور عہدِ تابعین میں ملتا ہے۔ جتنی اہمیت اس مسئلے کو اب دے دی گئی ہے، خیر القرون میں اتنا ہی یہ غیر اہم تھا اور جتنا چرچا اس کا اب ہوگیا ہے، اتنا ہی عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں یہ گمنام تھا۔ اگر اس کی ذرا بھی شرعی حیثیت اور اہمیت ہوتی تو اس کی بابت نبی کریم کا کوئی ارشادِ گرامی ضرور ہوتا۔ میت کو ثواب پہنچانے کے جتنے مشروع طریقے کتاب و سنت سے ثابت ہیں، ان میں قرآن خوانی کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔
 
آپ ذرا غور فرمائیں کہ قرآنِ کریم وہ کتاب ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا نظامِ حیات بنا کر ہمارے پیغمبر پر نازل فرمایا۔ پس ہمیں چاہیے کہ اس کتاب کو ہم درسی کتاب کی مانند پڑھیں لیکن تکریم کے ساتھ یعنی ادب و احترام سے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کا ادب و احترام اس کے حاملین پر واجب ہے۔ اس کے اوامر اور احکام پر عمل کریں، اس کے نواہی سے اجتناب کریں اور یہی اس کے نزول کی اصل غرض ہے، مگر ہم نے اس اصل غرض کو سامنے نہ رکھا اور قرآن خوانی جیسی جاہلانہ بدعتی رسم و رواج میں گرفتار رہے تو پھر قرآن مجید ہی کی زبانی وعید بھی پڑھ لیجیے جو روزِ محشر اللہ جل جلالہ کی عدالتِ عالیہ میں نبی کریمکی زبانِ مبارک سے بصورتِ شکایت ادا ہوگی۔ چنانچہ سورۃ الفرقان30 میں فرمانِ الٰہی ہے
اور پیغمبر کہیں گے کہ اے اللہ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
یعنی پڑھتے تو تھے لیکن سمجھنے سے بے نیاز ہو کر رسما رسمی میں بدعت کی صورت میں پڑھا کرتے تھے، اس پر عمل کرنے کے لیے نہیں پڑھتے تھے۔ مُردوں پر سورت یٰسین پڑھنے والے بھی ذرا غور کریں! اسی سورہ یٰسین 70 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
تاکہ اس شخص کو، جو زندہ ہو، ہدایت کا راستہ دکھائے اور کافروں پر عذاب کی حجت ثابت ہو جائے۔
 
ہمارے رب نے یہ قرآن کس لیے نازل کیا ہے؟ کیا اس لیے کہ اس سے تعویذ گنڈے بنائے جائیں اور بچوں اور مریضوں کو پہنائے جائیں؟ یا اس لیے کہ قبرستان میں مُردوں پر پڑھا جائے اور آج کے ملا اس کو مال سمیٹنے کا ذریعہ بنالیں؟ یا پھر اس لیے کہ لوگوں کے لیے اسے برتنوں پر لکھا کریں اور دھو دھو کر اس کا پانی مریضوں اور سحرزدہ لوگوں کو پلائیں؟ یا اس لیے کہ پورا قرآن ایک صفحے میں چھاپ کر زینت اور برکت کے لیے دیواروں پر اور تعویذ بنا کر گلے میں لٹکایا جائے؟یا پھر اس لیے کہ بغیر سوچے سمجھے محض طوطوں کی طرح اس کو رٹایا یا اس کی تلاوت کی جائے؟ یا اس لیے اتارا گیا تھا کہ اس سے ہمارے اسلاف نے دنیا فتح کر ڈالی تھی، اب اس کی کوئی ضرورت نہیں ؟ اس کو کہیں اندھیرے گوشے میں غلاف کے اندر رکھ دیا جائے اور وہ گرد و غبار کی تہہ کے اندر چھپا رہے؟
 
نہیں ایسا ہرگز نہیں! اللہ رب العالمین نے اپنی کتابِ عظیم کو ان کاموں کے لیے نہیں نازل فرمایا بلکہ یہ کتابِ مبین اس لیے نازل فرمائی تھی کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور یہ لوگوں کے لیے روشن چراغ بنے۔ یہ قرآنِ کریم اس لیے نازل کیا گیا تھا کہ یہ سارے عالم کے لیے بشیر و نذیر بنے۔ یہ کتاب تو اللہ رب العزت نے زندوں کے لیے اُتاری تھی، مُردوں کے لیے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآنِ مجید کو اس لیے اُتارا تھا تاکہ مسلمان اس کو اپنے گھروں، بازاروں اور مدرسوں میں اپنا نظام و دستور العمل بنا لیں اور اپنی پوری 
زندگی کا ہر ہر گوشہ اس کے مطابق سنوار لیں
(جاری ہے)
 

شیئر: