Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’افسانہ سنا ڈالا ، تصویر دکھا ڈالی‘‘

 

زندگی کے سارے کھیل کا دارومدار گوشت کے چھوٹے سے لوتھڑے، دل پر موقوف ہے

رضی الدین سید ۔ کراچی

مصروف زندگی میں یہ خوبصورت اشعار شاید آپ نے بھی کبھی سنے ہوں گے کہ: دو لفظ تسلی کے ،جس نے بھی کہے اس کو افسانہ سنا ڈالا ، تصویر دکھا ڈالی طبی لحا ظ سے بھی اور جذباتی لحاظ سے بھی،زندگی کے سارے کھیل کا دارومدار گوشت کے اسی چھوٹے سے لوتھڑے پر موقوف ہے۔ وہ لوتھڑاجسے اپنی زبان میں ہم دل کہتے ہیں۔اسی دل کے اثرات سے ہم خوش ہوتے اور اسی دل کے اثرات سے ہم ناخوش ہوتے ہیں۔بقول شاعر: شاد کردیا، کبھی ناشاد کردیا دل کو تمہارے کھیل نے برباد کردیا گزشتہ ادوار میں جبکہ اقدار زندہ ، اخلاقیات سرگرم تھیںاور مادیت ہم سب سے پرے پرے چلتی تھی،ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا ہر شخص خود پر از خود واجب سمجھتا تھا۔دل کا توڑنا تب ایک بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔دلوںکو توڑنے کی بجائے لوگ تب دلوںکو جوڑا کرتے تھے۔کہا کرتے تھے کہ : دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے پچھتا ئو گے سنو ہو ، یہ بستی اجاڑ کر وہ لوگ اگر دلوں کو جوڑا کرتے تھے تو اس کی ترکیبیں بھی جانا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دل گوشت پوست کاا یک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، اس ننھے سے ٹکڑے کے تقاضے کیا ہیں؟دکھ درد میں کام آنا ، میٹھی زبان کا شہد دلوں میں اتارنا، اپناآج کسی کے کل پر وار دینا،تحفے تحائف کے تبادلے کرنا، خلوص نچھاور کرنا، بڑوں کی عزت کرنا، زبان کو قابو میں رکھنا، وعدوں کو پورا کرنا، حقوق چھیننے کی بجائے حقوق دینے والے بننا، غیبت اور جھوٹ سے پرہیز کرنااور باہمی تنازعات کو خاندان کے بزرگوں ہی سے حل کروالینا وغیرہ۔بس یہی وہ اجزائے ترکیبی یعنی ’’ریسیپیز‘‘ ہیں جن سے دل جڑتے اور مضبوط ہوتے ہیں ۔ کل بھی اس کے اجزائے ترکیبی یہی تھے،اور آج بھی اجزائے ترکیبی یہی ہیں۔مجال ہے جوسرِ مو بھی ان میں فرق آیا ہومگر وقت کا بے رحم پہیہ جب مغربی یلغار کو لے کر ہمارے ہاں داخل ہوا تو لگا جیسے وہ ہماری تمام مشرقی اقدار و تہذیب کو بہا کر لے گیا : چلی سمت ِغرب سے اک ہوا ،کہ چمن سرور کا جل گیا ’’تھا جو ناخوب ،بتدریج خوب ہوا‘‘والی با ت ہوگئی۔ اخلاق و اصول کی جگہ مادیت نے مقام اپنالیا ۔ایثار و قربانی نے غتر بود ہوکر سنگ دلی کو جگہ فراہم کی ، دلوں میں تنگی آنے لگی، محبت کی جگہ نفرت پروان چڑھنے لگی۔پہلے ایک صفت معاشرے سے غائب ہوئی،پھر دوسری صفت غائب ہوئی،پھر تیسری، اور پھر چوتھی۔حتی ٰ کہ کسی دردمند شاعر کو مجبور ہوکر یہ آنسوبھی بہانے پڑے کہ : نہ محبت ،نہ مروت ،نہ خلوص اے شعری میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہوکر دل جو انسانی زندگی میں سب سے مقد م مقام رکھتاہے، آج لوگوں کے نزدیک محض ایک کھلونے کی حیثیت رکھتا ہے۔لوگ اسے توڑتے ہیں،دن رات توڑتے ہیں،بار بار توڑتے ہیں ،اورہزار بار توڑتے ہیں۔کسی کو ایذا دینا،کسی کوبے عزت کرنا، اس کے ساتھ جھوٹ بولنا، غلط وعدے کرنا، بچوںکو اغوا کرلینا، زیادتی کرنا، پینے کے پانی کی مار مارنا، طعنے دینا، دروازوں کے آگے گندگی کا ڈھیر ڈال دینا، انتقام کی آگ میں عورتوں کو سڑکوں پر رقص کروانا، بزرگوںکو بھیگی بلی بنادینا، وغیرہ آج کے دور کے یہ سب مقبول ِ عام چلن ہیں۔ او راسی اذیت ناک چلن کے مظاہر آج ہم سب دیکھتے بھی چلے جا رہے ہیں ۔ برکتیں اٹھ گئی ہیں، محبتیں پیسے سے ناپی جانے لگی ہیں، بیماریوںنے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ پہلے اِکا دُکا خون بھی جو بہا کرتے تھے، تو آبادی کی آبادی خوف و ہراس میں مبتلا ہوجاتی تھی لیکن آج دسیوں اور بیسیوں خون اجتماعی طورپر ایک ساتھ کئے جاتے ہیں اور معاشرے پر اس کا مطلق اثر نہیں ہوتا۔ پہلے کسی دوسرے کی ذرا سی بدحالی پر آنکھیں نم ہوجایا کرتی تھیں تو آج سب کو برباد ہوتا دیکھ کر بھی کسی کی آنکھوںسے آنسو نہیں ٹپکتے: جہنم کا دھواں بھر جائے ایسی آنکھ میں یا رب کسی کے دکھ پہ جو تھوڑی بہت بھی نم نہیں ہوتی کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جہاں محبت کے پل تعمیر کرنے چاہئیں، وہاں نفرتوں کی دیواریں چنی جارہی ہیںاورجہاں ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے ،وہاںہم سب کو ٹکرے ٹکڑے کرکے بانٹ رہے ہیں۔ وقت تقاضا کررہاہے کہ اخوت و محبت کی اسی فضا کوپروان چڑھایا جائے اورانہی ایا م کو ایک بارپھر لوٹا یا جائے ۔جب کوئی اکیلا فرد مصیبت میں مبتلا ہوتاتھا تو دستگیری کرنے کے لئے دسیوں ہاتھ اس کی جانب اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔پہلے آمدنیاں کم تھیں ،اورگھر سادہ تھے مگر معاشرہ تھا کہ جنت نشان نظر آتاتھا۔ آج آمدنیاں لاکھوں میں پہنچ گئی ہیں،گھر محلات کی صورت اختیار کرگئے ہیں، مگر معاشرہ جہنم کانمونہ بنا نظر آرہا ہے: جہل ِ خرد نے دن یہ دکھائے گھٹ گئے انساں،بڑھ گئے سائے وقت آواز دے رہا ہے کہ لوگوباز آجائو اپنے متکبرانہ رویے سے ،کسی پر طنز کی بوچھار کرنے سے، کسی کی راہ میں مسائل کھڑے کردینے سے اور کسی کو انتظار کی صلیب پر لٹکائے رکھنے سے۔ خیال رکھنا کہ: کہیں کوئی’’روٹھ‘‘ نہ جائے کہیں کوئی ’’ٹوٹ ‘‘ نہ جائے

******

شیئر: