Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس براہِ راست نشر کیوں نہ کیا گیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ٹی ایل پی واحد پارٹی تھی جس نے فیصلہ قبول کیا‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ 27 اکتوبر تک فریقین اگر کچھ جمع کرانا چاہیں تو کرا سکتے ہیں۔ آئندہ سماعت یکم نومبر کو ہو گی۔ 

کیس کی براہِ راست نشریات:

چیف جسٹس نے کیس کو مفادِ عامہ کا کیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مقدمات کی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کے لیے کمیٹی بنی ہے۔ وہ ان تمام معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ جیسے ہی اس حوالے سے کام مکمل ہو گا لائیو سٹریمنگ ہو گی۔‘
چیف جسٹس نے روسٹرم پر کھڑے اٹارنی جنرل اور وکلا سے پوچھا کہ ’براہِ راست نشریات پر فیڈبیک بھی دیکھنا ہے کہ اس پر کیا ردعمل ہے؟‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بتایا کہ سپریم کورٹ سے پہلے مقدمے کی براہ راست نشریات کی آڈینس کرکٹ میچ سے بھی زیادہ تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازراہِ مذاق کہا کہ ’اس کے ریوینیو میں سے عدالت کو تو آپ حصہ نہیں دے رہے۔‘

پاکستان کی سیاست میں نیا ٹرینڈ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک موقع پر فیصلے کے نکات پڑھنے والے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’12 مئی 2007 خون خرابے کا بھی ذکر ہے۔ وکلا تحریک کے دوران اُس روز کراچی میں 55 افراد قتل کیے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں 12 مئی کو ایک نئی چیز کنٹینرز متعارف کیے گئے۔ اُس وقت ایم کیو ایم کے وزیر پورٹ اینڈ شپنگ میں تھے۔ اب اُن کی نظرثانی درخواست ہمارے سامنے ہے مگر اُن کے وکیل نہیں آئے۔ صرف ایک شخص نے فیصلہ تسلیم کیا۔

صرف ایک شخص نے فیصلہ تسلیم کیا: چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کو صرف ایک شخص نے تسلیم کیا، ایک ہی فریق جماعت نے اس فیصلے پر نظرثانی دائر نہ کی۔ اُس ایک شخص کے علاوہ باقی سب اَپ سیٹ ہوئے۔‘

چیف جسٹس نے کیس کو مفادِ عامہ کا کیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مقدمات کی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کے لیے کمیٹی بنی ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی واحد پارٹی تھی جس نے فیصلہ قبول کیا اور خادم رضوی وہ شخص ہیں جنہوں نے اس کو مانا۔

’حکم اوپر سے آیا، پاکستان میں یہی چلتا ہے‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’غلطیاں سب سے ہوتی ہیں۔ بڑا پن غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلوں میں بھی غلطی ہو جاتی ہے اس لیے یہ نظرثانی کی درخواستیں آتی ہیں۔ حکم اوپر سے آیا، پاکستان میں یہی چلتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کرنے والے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ کیا اُن کے ادارے نے خود احتسابی کر لی؟ یا اُن کو بھی نظرثانی دائر کرنے کے لیے اُوپرسے کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ اوپر سے حکم آیا ہے اس ملک میں یہی چلتا ہے اور اوپر سے مطلب اللہ تعالیٰ نہیں ہوتے۔‘

شیئر: