Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مغل اعظم‘: جب پرتھوی راج کپور کے پاؤں پر چھالے بن گئے

پرتھوی راج کپور 29 مئی کو ممبئی میں چل بسے۔ (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)
یہ بالی وڈ کی کلاسیکی فلم ’مغلِ اعظم‘ کی شوٹنگ کا ایک منظر ہے۔ پرتھوی راج کپور مغلِ اعظم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ سیٹ پر موجود ہیں اور آرام کرسی پر چائے کے سپ لے رہے ہیں اور سگریٹ پی رہے ہیں۔
جب فلم کے ہدایت کار کے آصف ان سے فلم کا شاٹ کرنے کے لیے تیار ہونے کا کہتے ہیں تو وہ میک اَپ روم کا رُخ کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ’پرتھوی راج کپور اب جا رہا ہے‘ اور وہ جب تیار ہو کر باہر آتے ہیں تو کہتے ہیں، ’اکبر اب آ رہا ہے۔‘
یہ 1951 کی بات ہے جب راج کپور شہرہ آفاق فلم ’آوارہ‘ پر کام کر رہے تھے جس میں راج کپور کے علاوہ ان کے والد پرتھوی راج کپور اور دادا دیوان بشیشوار ناتھ کپور بھی کردار ادا کرتے نظر آئے۔
یہ سنیما کی تاریخ کی غالباً ایسی پہلی فلم تھی جس میں تین نسلوں نے ایک ساتھ کام کیا۔ 1971 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کل، آج اور کل‘ میں پرتھوی راج کپور، راج کپور اور ان کے صاحب زادے رندھیر کپور نے ایک ساتھ کام کیا۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو سینما کی تاریخ میں صرف کپور خاندان کو ہی حاصل ہوا۔
پرتھوی راج کپور نے انڈین سینما کی پہلی بولنے والی فلم (ٹاکی) ’عالم آرا‘ میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم وہ اس سے قبل 1927 میں خاموش فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کر چکے تھے۔
ضلع فیصل آباد (لائلپور) کے قصبے سمندری سے تعلق رکھنے والے پرتھوی راج کپور کا خاندان پنجابی تھا اور وہ آج کے دن ہی تین نومبر 1906 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدا میں تعلیم بھی فیصل آباد کے ایک کالج سے ہی حاصل کی جس کے بعد وہ خاندان سمیت پشاور منتقل ہو گئے۔

’آوارہ‘ سنیما کی تاریخ کی غالباً ایسی پہلی فلم تھی جس میں کپور خاندان کی تین نسلوں نے ایک ساتھ کام کیا۔ (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

پرتھوی راج کپور محض 18 برس کے تھے جب وہ باپ بن گئے اور انہوں نے اپنے بیٹے کا نام راج کپور رکھا جو آنے والے برسوں میں بالی وڈ کے نمایاں اداکار اور ڈائریکٹر کے طور پر مشہور ہوئے جنہیں بالی وڈ کا شومین (Show Man) بھی کہا جاتا ہے۔
 پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی کتاب ’تقسیم سے قبل کے پنجاب کی انڈین سنیما کے لیے خدمات‘ (Pre-Partition Punjab's Contribution to Indian Cinema))  میں شامل ایک مضمون کے مطابق، راج کپور نے سٹار ڈسٹ میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ وہ ’سمندرو‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد مزید لکھتے ہیں، ’میں یہ جان گیا کہ یہ لفظ غلط لکھا گیا تھا جس کے باعث مجھے راج کپور کو خط لکھنے کا بہانہ مل گیا۔‘
پرتھوی راج کپور ایک طویل عرصہ تھیٹر سے وابستہ رہے اور 1944 میں انہوں نے پرتھوی تھیٹر کے نامی سے ایک کمپنی قائم کی جو مختلف شہروں میں جاکر تھیٹر کیا کرتی تھی لیکن 1960 میں پرتھوی راج کپور نے اپنی یہ کمپنی اس لیے بند کر دی کیوں کہ ان کے لیے اس تھیٹر کمپنی کو چلانا مشکل ہو گیا تھا۔
یہ تھیٹر گروپ بند ضرور ہوا مگر بالی وڈ کے معروف اداکار ششی کپور اور ان کی اہلیہ جنیفر کپور نے اپنے والد کی یاد میں ممبئی میں تھیٹر ہال تعمیر کیا جس نے بالی وڈ کے بہت سے نئے اداکاروں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
اس تھیٹر کی تعمیر کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کیوں کہ ششی کپور نے اسے بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ اپنے والد کے اپنا تھیٹر ہال بنانے کے تشنہ خواب کو پورا کر سکیں جس پر ان کے بھائی راج کپور نے ان کو ’ٹیکسی‘ کی عرفیت سے نوازا کیوں کہ وہ ہمہ وقت سفر میں رہتے تھے۔

ششی کپور اور شمی کپور نے بھی بالی وڈ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

پرتھوی راج کپور کے بیٹے اور معروف اداکار شمی کپور نے انڈین ایکسپریس کو 2010 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے والد سے متعلق یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا، ’مغل اعظم میں جنگ کے مناظر میں انہوں نے لوہے کے اصل ہتھیار پہنے جو بہت زیادہ وزنی تھے۔ اکبر جب بیٹے کی پیدائش کے لیے دعا کرنے اجمیر شریف جاتے ہیں تو اس وقت میرے والد نے حقیقت میں جوتے نہیں پہنے تھے۔‘
مغل اعظم کی شوٹنگ کے دوران فلم کے ابتدائی منظر میں جب شہنشاہ اکبر ننگے پاؤں چلتے ہوئے اپنے وارث کے لیے دعا مانگ رہے ہیں تو اس وقت سورج حقیقت میں سوا نیزے پر تھا اور پرتھوی راج کپور کے پاؤں پر چھالے بن گئے تھے، انہوں نے مگر اپنے منظر کو فلمائے جانے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
پرتھوی راج کپورنے نیشنل ایوارڈ جیتنے والی پنجابی فلم ’نانک نام جہاز ہے‘ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ فلم 15 اپریل 1969 میں ریلیز ہوئی جسے بے پناہ سراہا گیا اور اس کی کئی زبانوں میں ڈبنگ کی گئی۔ یہ ایک عظیم اداکار کا اپنی دھرتی کو ایک حقیر سا نذرانہ تھا۔
1930 کی پوری دہائی میں پرتھوی راج کپور نے کلکتہ (اب کولکتہ) کے نیو تھیٹرز کی پروڈیوس کی گئی ہر فلم میں مرکزی کردار ادا کیا جن میں ’راج رانی میرا‘ نمایاں ہے جس کے بعد اداکار کی شہرت چار سو پھیل گئی۔
1934 میں پرتھوی راج کپور کی ایک اور فلم ’سیتا‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے رام کا کردار ادا کیا تھا۔
نیوتھیٹر کی 1937 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ودیاپتی‘ ان کی نیوتھیٹرز کے لیے کامیاب ترین فلم تھی جس کے بعد وہ ممبئی واپس لوٹ آئے اور انہوں نے آنے والے برسوں میں رنجیت سٹوڈیوز کی بہت سی کامیاب فلموں میں اہم کردار ادا کیے۔
1941 میں سہراب مودی کی فلم ’سکندر‘ میں پرتھوی راج کپور نے سکندرِ اعظم کا کردار ادا کیا۔

پرتھوی راج کپو کی اپنی اہلیہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ نایاب گروپ فوٹو۔ (فوٹو: وکی میڈیا)

انہوں نے یہ کردار اس خوبصورتی سے نبھایا کہ انڈیا میں تاریخ کے موضوع پر شائع ہونے والی نصابی کتابوں میں سکندر اعظم کے طور پر ان کی تصویر شائع کی جانے لگی۔
 دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سکندرِ اعظم‘ میں انہوں نے پنجاب کے عظیم ہیرو راجہ پورس کا کردار ادا کیا تھا۔
انڈیا کے نمایاں نیوز پورٹل ریڈف پر شائع ہونے والے ایک مضمون ’جب کپورز 40 برس کے ہوئے‘ کے مطابق، پرتھوی راج کپور جب 40 برس کے ہوئے تو وہ تقریباً 50 فلموں میں کام کر چکے تھے۔
 راج کپور نے تقریباً 46 فلموں میں کام کیا جب کہ رشی کپور نے اس عرصے کے دوران 80 فلموں میں کام کیا۔
اس مضمون کے مطابق، پرتھوی راج کپور جب 40 برس کے ہوئے تو انہوں نے فلموں سے ایک طرح کی کنارہ کشی اختیار کرلی اور زیادہ وقت سماجی سرگرمیوں اور اپنی تھیٹر کمپنی کو مقبول بنانے میں مصروف رہے جو 1944 میں قائم کی گئی تھی۔ وہ سماجی موضوعات پر ڈرامے پیش کیا کرتے۔
 اس مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’انہوں نے فلموں میں کام کرنا جاری رکھا کیوں کہ خاندان کی گزر بسر اور تھیٹر کمپنی کو چلانے کے لیے یہ ضروری تھا مگر ان کی زیادہ توجہ اب بھی تھیٹر ڈراموں کی پروڈکشن کی جانب رہی۔‘
پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنے مضمون میں پرتھوی راج کپور کے آل انڈیا ریڈیو کی ہندی سروس کو دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پرتھوی راج کپور نے سمندری میں گزرے اپنے بچپن اور حمید پہلوان نامی شخص کا ذکر کیا جن کے ساتھ وہ اپنا زیادہ وقت گزارتے تھے۔
انہوں نے پشاور کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی اور کہا کہ وہ جب کلکتہ میں تھے تو گرینڈ ٹرنک روڈ کو دیکھ کر اپنے محبوب شہر پشاور کو یاد کیا کرتے۔

پرتھوی راج کپور کے پڑپوتے رنبیر کپور انڈین سنیما میں اپنا منفرد مقام بنا چکے ہیں۔ (فوٹو: انسٹاگرام)

پرتھوی راج کپور کی نجی زندگی کا یہ واقعہ واقعتاً دلچسپی کا حامل ہے جب ان کے بیٹے ششی کپور نے جنیفر سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے انٹرویو میں کہا، ’میں نے جنیفر کو پہلی بار دیکھا تو میں 18 سال کا تھا اور اس سے فوری طور پر شادی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے والدین سے جب اس بارے میں بات کی تو انہوں نے چونکتے ہوئے کہا، ’اوہ بھگوان، 18 تو بہت چھوٹی عمر ہے۔‘ لہٰذا میں نے کہا ’میں انتظار کروں گا۔ میں نے دو برس انتظار کیا جس کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا، کیا تم اب بھی شادی کرنا چاہتے ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے اجازت دے دی۔‘
پرتھوی راج کپور اس خاندان کے بانی ہیں جس کے ارکان ہر دور میں سلور سکرین پر چھائے رہے جن میں نمایاں ترین راج کپور ہیں جنہوں نے فلم انڈسٹری کو ایک نیا آہنگ دیا جب کہ ان کے بھائی ششی کپور اور شمی کپور نے بھی بالی وڈ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور اب ان کے پڑپوتے رنبیر کپور انڈین سنیما میں اپنا منفرد مقام بنا چکے ہیں۔
جبکہ ان کی پڑپوتیاں کرشمہ کپور اور کرینہ کپور اپنے ادوار میں بالی وڈ کی کامیاب ترین اداکارائیں رہی ہیں۔
پرتھوی راج کپور کو 1969 میں انڈین حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایوارڈ اور 1971 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ وہ آٹھ برس راجیہ سبھا کے رُکن کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
پرتھوی راج کپور 29 مئی 1972 کے ایک گرم دن ممبئی میں چل بسے۔
کپور خاندان کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی جو آج بھی بالی وڈ میں راج کر رہا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کپور خاندان کی انڈین سنیما کے لیے خدمات کے تذکرے کے بغیر انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ نامکمل رہے گی۔

شیئر: