Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کی چنچل ’کُڑی‘ کامنی کوشل جسے دلیپ کمار دل دے بیٹھے

کامنی کوشل کے بھائی کی مخالفت کی وجہ سے ان کی شادی دلیپ کمار سے نہ ہو سکی (فوٹو: بالی وڈ ڑائریکٹ)
یہ لاہور کی اُوما کی کہانی ہے۔ وہ اُوما جو آج بھی ہمہ وقت اداکاری کے لیے تیار رہتی ہے۔ اس نے میٹرک تک لاہور کے لیڈی مکلیگن سکول سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد اس کا داخلہ کنیرڈ کالج میں کروا دیا گیا۔
والد پروفیسر شیو رام کیشپ گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں باٹنی کے استاد رہے۔ انہوں نے پودوں کی کچھ اقسام بھی دریافت کیں۔
پروفیسر شیو رام کی بیٹی اُوما نے آنے والے دنوں میں کامنی کوشل کے نام سے شہرت حاصل کی۔ وہ کامنی کوشل جو کبھی لاہور کی پوش بستی راج گڑھ کے ایک بنگلے میں رہا کرتی تھی۔ یہ لاہور کا وہ علاقہ ہے جو آج ماضی کی گرد میں کہیں کھو چکا ہے۔
 راج گڑھ کی کھوج کے سفر پر جانے سے قبل اُس فلم کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے جس کے ذکر کے بنا بالی ووڈ کی تاریخ نامکمل ہے۔ یہ 1946 میں ریلیز ہونے والی فلم ’نیچا نگر‘ ہے جس کی ہدایات چیتن آنند نے دی تھیں۔
اولڈ راوین چیتن آنند اداکار دیو آنند کے بڑے بھائی تھے۔ اس فلم میں اُوما آنند نے بھی کام کیا تھا جو لاہور کے مسیحی بنگالی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور چیتن آنند کی بیوی تھیں۔
اُن کی چھوٹی بہن اندو مٹھا پاکستان کی ممتاز بھرت نٹیم رقاصہ ہیں جن کے شوہر جنرل ریٹائرڈ اَبوبکر عثمان مٹھا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فوج میں سپیشل سروسز گروپ  (ایس ایس جی) قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا ادا کیا تھا۔
بات طویل ہو جائے گی مگر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اوما آنند کے والد پروفیسر گنیش چندرا چیٹرجی گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد اور ادارے کے سربراہ رہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ملحق چیٹرجی روڈ انہی کے نام سے منسوب ہے۔
بات فلم ’نیچا نگر‘ کی ہو رہی تھی جس میں لاہور ہی کے رفیع پیر نے بھی کردار ادا کیا تھا مگر یہ فلم کامنی کوشل کے حوالے سے یاد رکھی جائے گی۔
یہ ہندوستانی تاریخ کی پہلی فلم تھی جس نے کینز فلم فیسٹیول میں گرینڈ پرکس (گرینڈ ڈی اور) ایوارڈ حاصل کیا تھا۔
یہ فلم روس کے مایہ ناز ناول نگار میکسم گورکھی کے کھیل ’دا لوئر ڈیپتھس‘ سے ماخوذ تھی جس میں اس عہد کے انڈین سماج کی سماجی اور معاشی محرومیوں کو بڑے پردے پر پیش کیا گیا تھا۔

فلم ’نیچا نگر‘ میں ایک افسانوی قصبے ‘نیچا نگر‘ کی کہانی بیان کی گئی تھی جو پہاڑوں کے قدموں میں واقع تھا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

اس فلم میں ان لوگوں کی کہانی بیان کی گئی تھی جو کچی آبادیوں میں رہتے ہیں اور اشرافیہ کے ہاتھوں استحصال برداشت کرتے ہیں۔
فلم میں ایک افسانوی قصبے ‘نیچا نگر‘ کی کہانی بیان کی گئی تھی جو پہاڑوں کے قدموں میں واقع تھا اور اس قصبے میں نچلے معاشی طبقے کے لوگ آباد تھے۔
اس قصبے کے قریب ہی پہاڑوں کی بلندی پر اُونچا نگر آباد تھا جہاں اشرافیہ رہتی تھی۔ ان دونوں قصبوں کے اس قدر قریب ہونے کے باوجود ان میں بسنے والے لوگوں کی زندگی میں واضح فرق تھا۔
کہانی کا خلاصہ یوں ہے کہ ایک دن نیچا نگر کے باسی اپنے عدم تحفظات پر قابو پاتے ہوئے متحد ہوجاتے ہیں اور طاقت ور طبقے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ فلم برطانوی راج کے آخری ایام میں بنائی گئی جب برطانوی حکام کی جانب سے ملک میں سخت قوانین نافذ تھے۔ ان مشکلات کے باوجود فلم کی کاسٹ ایک چھوٹے بجٹ میں یہ فلم بنانے میں کامیاب رہی جس کے دونوں پروڈیوسرز راشد انور اور اے حلیم تقسیم کے وقت پاکستان آ گئے تھے۔
چیتن آنند نے اگرچہ بعدازاں فلم حقیقت، ہیررانجھا، قدرت، ٹیکسی ڈرائیور اور دور درشن پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل پرم ویر چکرا کی ہدایات بھی دیں مگر یہ فلم ’نیچا نگر‘ ہی تھی جس نے چیتن آنند کے فلمی کیریئر کو ایک نیا آہنگ دیا۔ اس نے لاہور کی کامنی کو راتوں رات ہندوستان بھر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
دو سال قبل 1944 میں بالی ووڈ لیجنڈ دلیپ کمار بھی اپنا ڈبیو کر چکے تھے۔ دونوں اداکار 1948 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شہید‘ میں ایک ساتھ نظر آئے جس نے ایک ایسی پریم کہانی کو جنم دیا جس کا دردناک انجام ہوا۔
دلیپ کمار فلم کی شوٹنگ کے دوران لاہور کی شوخ و چنچل ’کڑی‘ کامنی کو دل دے بیٹھے۔ کامنی بھی دلیپ کمار کی وجاحت سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکیں۔ دونوں میں محبت پروان چڑھنے لگی۔ وہ شادی کے بندھن میں بندھنے پر تیار تھے مگر کامنی کوشل کے بھائی کی مخالفت کی وجہ سے یہ شادی نہ ہو سکی۔
دونوں نے ایک ساتھ فلم ’ندیا کے پار‘، ’شبنم‘ اور ’آرزو‘ میں بھی کام کیا۔

ریڈیو کے دنوں میں ہی کامنی نے امتیاز علی تاج کے یادگار ڈرامے ’انارکلی‘ میں مرکزی کردار ادا کیا (فوٹو: بالی وڈ ڈائری)

اس مخالفت کی ایک وجہ کامنی کا شادی شدہ ہونا بھی تھا۔ یہ لاہور کا ایک معمول کا دن تھا جب کامنی کوشل کی بہن اوشا کیشپ ایک کار حادثے میں چل بسیں۔ ان کی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے کامنی نے ان کے شوہر سے شادی کر لی جس کے باعث کامنی کے لیے اس رشتے سے نکلنا آسان نہیں تھا۔
انہوں نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لوگ ہم دونوں کو ایک ساتھ فلموں میں دیکھنا پسند کرتے تھے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ دلیپ صاحب ایک فطری اداکار تھے۔ وہ اداکاری کرنے کے لیے کوئی محنت نہیں کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُن کا اردو زبان پر عبور مثالی تھا۔‘
کامنی کیشپ آج سے 97 برس قبل جنوری 1927 میں پیدا ہوئیں۔ وہ کالج کے دنوں میں آکاش وانی ریڈیو پر ڈراموں میں اداکاری کیا کرتی تھیں جب چیتن آنند نے شہد کی سی مٹھاس جیسی ان کی آواز سنی تو انہیں فلم ’نیچا نگر‘ میں کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کو کامنی کا نام بھی چیتن آنند کا دیا ہوا ہی ہے تاکہ فلم میں ایک ہی اُوما یعنی اُن کی بیوی ہی نظر آئیں۔
ریڈیو کے دنوں میں ہی کامنی نے امتیاز علی تاج کے یادگار ڈرامے ’انارکلی‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ وہ رفیع پیر کے ساتھ بھی ڈراموں میں کام کرتی رہیں۔ یوں وہ کم عمری میں ہی فنونِ لطیفہ کے مختلف ذائقوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔
انہوں نے انگریزی ادب میں بی اے آنرز کیا مگر اداکاری کی وجہ سے ایم اے کرنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
کامنی کوشل نے فلم آگ میں راج کپور، فلم ضدی اور شیر میں دیو آنند کے ساتھ کام کیا۔
فلم فیئر میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں لیجنڈ اداکارہ نے کہا تھا کہ ’ثریا مجھ سے چاہتی تھی کہ میں اس کے خط دیو تک پہنچایا کروں۔ اس کی ممانی ہمہ وقت اس پر نظر رکھا کرتیں۔ مجھے اس پر افسوس ہوتا تھا۔‘  
یہ بھی اس عہد کی ایک ایسی پریم کتھا ہے جس کا انجام افسوس ناک ہوا۔ اداکارہ ثریا کا تعلق بھی لاہور سے تھا۔
اس لاہور سے جس کی سڑکوں پر کبھی کامنی جی سائیکل چلایا کرتی تھیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اگست 1947 کے وسط میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد کامنی کوشل نے تین بار لاہور کا دورہ کیا۔ لاہور سے اپنی وابستگی کے بارے میں اداکارہ نے کہا، لاہور ہمیشہ میرے خیالوں میں رہا ہے، میری والدہ اور بھائی نے مجھ سے لاہور جانے کے لیے کہا اور 1962 میں مجھے پہلی بار اپنی جنم بھومی آنے کا موقع ملا۔‘

ہدایت کار بمل رائے کی فلم کے لیے کامنی کوشل کو بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

’میں اپنے گھر گئی جس کے رہائشی ہمارے پرانے پڑوسی تھے جو سڑک کے اُس پار رہا کرتے تھے اور جنہیں ہم اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ مجھ سے پرخلوص طور پر پیش آئے۔ وہ میرے والد کو جانتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے کیوں کہ وہ لاہور کے ایک معروف اکیڈمک تھے۔‘
پروفیسر اشتیاق احمد اپنے اس مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ ’اپنے دوسرے اور تیسرے دورے کی درست تاریخوں کے بارے میں کامنی کوشل آگاہ نہیں تھیں، لیکن دونوں مواقع پر وہ ایک بار گورنمنٹ کالج لاہور اور دوسری بار اپنی مادرِ علمی کی تقریبات کے سلسلے میں آئی تھیں۔‘
انہوں نے پروفیسر اشتیاق احمد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’2004 میں میری بیٹی کرکٹ کا مشہور میچ دیکھنے کے لیے لاہور آئی تھی۔ وہ ہمارا وہ گھر بھی دیکھنا چاہتی تھی جہاں میں پیدا ہوئی تھی۔ افسوس کہ اس وقت تک وہ منہدم کیا جا چکا تھا اور اس کے بجائے ایک شاپنگ پلازہ تعمیر کیا جا چکا تھا۔ ہمارا مکان اگرچہ اب موجود نہیں تھا مگر گھر لاہور اب بھی موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔‘
ان کے اس انٹرویو سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ راج گڑھ میں ان کا گھر منہدم کیا جا چکا ہے۔ اس علاقے میں اب ماضی کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
کامنی کے لاہور کی کھوج پھر کبھی سہی، بات ان کی ایک اور یادگار فلم ’براج باہو‘ کی ہو جائے۔
بے مثل ہدایت کار بمل رائے کی اس فلم کے لیے کامنی کوشل کو بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس عہد کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ مدھو بالا اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے بے چین تھیں۔ انہوں نے اس مقصد سے متعدد بار بمل رائے کے دفتر کے چکر کاٹے۔ تاہم بمل رائے نے مدھو بالا کی فلم کے لیے زیادہ معاوضہ طلب کرنے کے خدشے کے پیشِ نظر کامنی کوشل کو اس فلم میں کاسٹ کر لیا۔
مدھو بالا کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ’مجھے اگر ایک روپیہ بھی ملتا تو میں براج باہو میں ضرور کام کرتی۔‘ یہ فلم بھی کینز فلم فیسٹیول میں ’پام ڈی اور‘ کے لیے نامزد ہوئی تھی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب اداکارہ کا نام فلم کریڈٹس میں مرد اداکاروں سے پہلے دیا جانے لگا جو اس زمانے میں ایک اعزاز تھا۔ اشوک کمار وہ واحد اداکار تھے جنہیں اس حوالے سے استثنیٰ حاصل تھا۔
کامنی کوشل کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب فلم ’پونم‘ کی کاسٹ ٹرین کے ذریعے کولکتہ جا رہی تھی۔ ایک فین ان کے کمپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا اور ان کا سرہانہ چرا لیا۔ وہ جاتے ہوئے ایک نوٹ چھوڑ گیا جس پر لکھا تھا کہ ’اگر آپ کو تکیہ چوری میں کوئی رومانس دکھائی دیتا ہے تو میں آپ کا چور پریمی ہوں۔‘
منوج کمار کی سال 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم سے اداکارہ کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس حوالے سے فلم فیئر میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’منوج نے مجھے ماں کا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا۔ میں نے احتجاج کیا کیوں کہ میں صرف 40 سال کی تھی اور اس کے سامنے بہت چھوٹی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اس نے بہت زبردست فلمیں بنائیں۔‘

کامنی کوشل کے ساتھ پران، راج کپور اور دیو آنند جیسے سپرسٹارز نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا (فوٹو: نیشنل ہیرلڈ)

کامنی جی نے اداکار منوج کمار کی ’اُپکار‘ کے بعد فلم ’پورب اور پچھم‘، ’سنیاسی‘، ’شور‘، ’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’دس نمبری‘ اور ’سنتوش‘ میں ان کی والدہ کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دو راستے‘ میں راجیش کھنہ کی سالی کا کردار ادا کیا۔ وہ ’پریم نگر‘ اور ’مہاچور‘ میں سپرسٹار کی والدہ کے کردار میں نظر آئیں۔
کامنی جی کا طویل کیریئر فی الحال ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے 2013 میں شاہ رُخ خان کی فلم ’چنئی ایکسپریس‘ میں کام کیا جس میں وہ اداکار کی دادی کے کردار میں نظر آئیں۔ بلاک بسٹر فلم ’کبیر سنگھ‘ میں اداکارہ نے مختصر مگر اہم کردار ادا کیا جس کے لیے انہیں فلم فیئر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
کامنی جی نے فلم فیئر میگزین کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں دلیپ کمار سے ایک تقریب میں ہونے والی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہ میری جانب خالی نظروں سے گھور رہے تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور میں نے ان کی جانب۔ ان کے لیے کسی کو بھی پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ میرے لیے افسوس ناک تھا۔ ہم نے ایک ساتھ ایک پورا عہد گزارا تھا۔‘
آج جب اداکارہ اپنی 97 ویں سالگرہ منا رہی ہیں تو وہ بہت کچھ بھول جاتی ہیں۔ جو لمحوں میں سکرپٹ یاد کر لیا کرتی تھیں، ان کے لیے چند لفظوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ وہ واحد ایسی اداکارہ ہیں جن کے ساتھ پران، راج کپور اور دیو آنند جیسے سپرسٹارز نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
کامنی کوشل ہی وہ پہلی اداکارہ تھیں جن کے لیے سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر نے کسی لیڈ کردار کے لیے پہلی بار پلے بیک سنگنگ کی تھی۔
کامنی جی نے اگرچہ اپنے طویل کیریئر کے دوران اداکاری سے کچھ عرصہ کے لیے وقفہ بھی لیا مگر وہ اس دوران ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بچوں کے پروگرام تیار کرنے لگیں۔ ان کے بچوں کے پروگرام ’چاند ستارے‘ کو سرکاری ٹیلی ویژن چینل دور درشن پر نشر کیا گیا جب کہ وہ بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھتی رہیں۔
کامنی جی کو فلم فیئر کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ وہ آج بھی ہمہ وقت اداکاری کے لیے تیار رہتی ہیں مگر اب ان کے وہ ساتھی اداکار کہاں جو ان کے نبض شناس تھے۔ امید ہے کہ ان کا جذبہ یوں ہی جواں رہے اور وہ دوبارہ کسی فلم میں نظر آ جائیں۔

شیئر: