Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد غلام اسحاق خان سیاسی منظرنامے سے کیوں غائب ہوئے؟

ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں غلام اسحاق خان کو سیکریٹری دفاع کا عہدہ دیا (فوٹو: فلکر)
یہ 20 دسمبر 1971 کا دن تھا۔ پاکستان کو دولخت ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے۔ اس وقت ملک کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا۔
اس حوالے سے زیرِگردش رہنے والی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب جنرل یحییٰ خان انتقالِ اقتدار کی دستاویز ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر رہے تھے تو ایک اور صاحب بھی اس تصویر میں موجود تھے جو انتقالِ اقتدار کی اس دستاویز پر دستخط کروا رہے تھے۔
یہ اس وقت کے طاقت ور بیوروکریٹس میں سے ایک غلام اسحاق خان تھے جو سیکریٹری خزانہ تھے۔
وہ غلام اسحاق خان جنہوں نے پانچ سال کے اپنے عہدِ صدارت میں دو منتخب وزرائے اعظم کو اقتدار سے رُخصت کیا۔ وہ غالباً پاکستان کی تاریخ کے طاقت ور اور ادھیڑ عمر ترین سویلین صدر تھے۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے سال 1975 میں غلام اسحاق خان کو سیکریٹری دفاع کا عہدہ دیا اور یوں وہ جوہری پروگرام کے نگران بن گئے اور ان کے مقتدر حلقوں سے براہِ راست تعلقات استوار ہوئے۔
غلام اسحاق خان 20 جنوری 1915 کو صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بنوں کے گاؤں اسماعیل خیل میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے باٹنی اور کیمسٹری میں ڈبل گریجویشن کی اور 1940 میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا تو ترقی کے بند در ان پر کھلتے چلے گئے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے۔ یہ جولائی 1977 ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر سیاسی دباؤ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے تو فوج اور سویلین حکومت میں موجود تناؤ بھی اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ بھٹو حکومت کے دو اہم عہدیدار آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل غلام جیلانی خان اور بینک دولت پاکستان کے صدر غلام اسحاق تھے جنہوں نے ضیاالحق کو یہ معلومات دیں کہ بھٹو چار جولائی سے قبل جنرل ضیاالحق اور کچھ سینیئر جرنیلوں کی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔ یوں، راتوں رات مارشل لا لگا اور جنرل غلام جیلانی خان پنجاب کے گورنر اور غلام اسحاق خان مشیرِ خزانہ بنائے گئے۔
یہ سازشی حلقوں میں معروف بہت سے نظریات میں سے ایک ہے جو آج بھی مقبول ہیں جس کی صحت پر یقین کرنے کے لیے بہت زیادہ شواہد موجود نہیں۔ یہ کہانی اگر سچ ہے تو بھٹو کو اقتدار منتقل کرنے سے لے کر ان کی اقتدار سے بے دخلی تک غلام اسحاق خان کا کردار نمایاں رہا۔
1955 میں ون یونٹ کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان دو صوبے بنائے گئے تو افسرِ شاہی کا کردار مزید بڑھا۔ غلام اسحاق خان محض 30 برس کی عمر میں مغربی پاکستان کے سیکریٹری آبپاشی تعینات کیے گئے۔ اس وقت انڈیا کے ساتھ دریاؤں کی تقسیم کا معاملہ زیرِغور تھا۔ 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے میں ان کا اہم کردار تھا۔

غلام اسحاق خان کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے حلف لینے کی تصویر پاکستان کی قومی تاریخ میں اہمیت رکھتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

وہ 1961 میں واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ بنائے گئے۔ واپڈا کے چیئرمین کے طور پر منگلا اور وارسک ڈیم بنانے کا سہرا غلام اسحاق کے سر ہی بندھتا ہے جو 1965 تک اس عہدے پر تعینات رہے جس کے بعد پانچ برس سے زیادہ عرصے تک وفاقی سیکریٹری خزانہ رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے غلام اسحاق خان کو بینک دولت پاکستان (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کا سربراہ تعینات کیا اور چند سال بعد سیکریٹری دفاع کے طور پر تقرر عمل میں لائے۔
جنرل ضیاالحق اور قسمت ان پر مہربان رہی۔ وہ 1977 کے مارشل لا کے بعد مشیر خزانہ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد وزیر خزانہ بنا دیے گئے۔ انہوں نے ضیاالحق کے اکنامک ویژن کو آگے بڑھانے اور معیشت کو اسلامی رنگ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
غلام اسحاق خان سے مسندِ صدارت اب زیادہ دور نہیں رہی تھی۔ وہ ضیاالحق کی کابینہ کے طاقت ور ترین اراکین میں سے ایک تھے۔
پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک اور منظر
غلام اسحاق خان ملک کے حادثاتی صدر بن چکے تھے۔ انتخابات کروائے تو پیپلز پارٹی مرکز اور صوبوں میں کامیاب رہی۔ 11 سال اقتدار سے دور رہنے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) چلانے کے بعد پیپلز پارٹی کسی طور پر اقتدار میں آنے کا یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ بے نظیر بھٹو صدر غلام اسحاق خان سے ملاقاتیں کرتی رہیں۔ مقتدرہ بھی کچھ پس و پیش کے بعد بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم قبول کرنے پر آمادہ ہو گئی اور سیاست کا المیہ دیکھیے کہ غلام اسحاق خان کو قبول کرنا بے نظیر بھٹو کی سیاسی مجبوری قرار پایا جس کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان کی قربانی دی گئی۔

شیخ عزیز کے مطابق ’ بے نظیر اگرچہ حکومت کی سربراہ تھیں مگر ان کا وزارت خارجہ، خزانہ اور دفاع پر کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

غلام اسحاق خان کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے حلف لینے کی تصویر پاکستان کی قومی تاریخ میں اس لیے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ آمریت سے جمہوریت کی جانب ایک کامیاب سفر کی داستان سناتی ہے جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔
سال 1984 کے اوآخر میں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو غلام اسحاق خان کو سینیٹ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ وہ ضیاالحق کا اعتماد جیت چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اگست 1988 میں جب جنرل ضیاالحق بہاولپور کے قریب طیارہ حادثے میں جان سے گئے تو ملکی سیاست میں یہ سوال ابھرا کہ ضیاالحق کی موت سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو کون پُر کرے گا؟
فوج کے اقتدار میں آنے کے تمام تر خدشات غلط ثابت ہوئے اور غلام اسحاق خان کی صدرِ مملکت کے عہدے کے انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کے علاوہ اسلامی جمہوری اتحاد نے بھی حمایت کی جس کی تخلیق کے مطمعٔ نظر ہی پیپلز پارٹی کی طاقت کو متوازن کرنا تھا۔
چھ اگست 1990 کی ایک شام کا منظر
اس شام ایک اور منتخب حکومت برطرف ہونے جا رہی تھی جس کے بارے میں بے نظیر بھٹو کے ’انکلز‘ ملک معراج خالد، غلام مرتضیٰ جتوئی اور غلام مصطفیٰ کھر جان چکے تھے مگر انہوں نے بے نظیر بھٹو کو اس بارے میں آگاہ کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔
بے نظیر بھٹو کے ان انکلز کے علاوہ باخبر صحافی بھی اقتدار کے ایوانوں میں کھیلے جا رہے کھیل سے واقف تھے جس کی ایک مثال مرحوم صحافی عارف نظامی کے نام سے اس روز نوائے وقت راولپنڈی میں شائع ہونے والی خبر ہے جس میں صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے اور غلام مرتضیٰ جتوئی کو نگراں وزیراعظم بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
یوں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت اقتدار سے رخصت ہوئی۔ کرپشن، اقربا پروری اور بری طرزِ حکمرانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ 58 ٹو بی ایک اور منتخب حکومت کو نگل گئی۔ نگراں وفاقی کابینہ میں غلام مصطفیٰ کھر بھی شامل کیے گئے جو کبھی بھٹو کے وفادار ساتھی ہونے کا دعویٰ کیا کرتے تھے اور پنجاب کی تاریخ کے طاقت ور ترین گورنر تھے۔
اس روز چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی توڑ دی گئیں۔ پنجاب میں غلام حیدر وائیں، سندھ میں جام صادق، سرحد میں میر افضل اور بلوچستان میں میر ہمایوں مری کو نگراں وزیراعلیٰ بنایا گیا۔

اپریل 1993 میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

انگریزی کے موقر اخبار ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں شیخ عزیز لکھتے ہیں کہ ’جنرل ضیاالحق کی جانب سے آئین میں کی گئی ترامیم کے تحت منتخب وزیراعظم اختیارات سے محروم ہو گئی تھیں۔ بے نظیر اگرچہ حکومت کی سربراہ تھیں مگر ان کا وزارت خارجہ، خزانہ اور دفاع پر کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا۔‘
ایک اور مضمون میں برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے حسن مجتبیٰ لکھتے ہیں کہ ’سندھ کے معاملات پر بھی ان (بے نظیر بھٹو) سے زیادہ طاقت ور آئی ایس آئی اور ایم آئی کے کرنل تھے۔‘
دسمبر 1988 میں انڈین وزیراعظم راجیو گاندھی کے سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے دورۂ پاکستان نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا جس کے بعد 1989 میں ان کے دورۂ امریکہ نے ان کو ہیئتِ مقتدرہ کے مقابل لا کھڑا کیا تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب بھی اسی دور میں ملا۔
سندھ میں نگراں وزیراعلیٰ غلام صادق کی کابینہ میں عرفان اللہ مروت بھی شامل تھے جو صدرِ مملکت کے داماد تھے۔ ان کے دوسرے داماد سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ ہیں۔  
برسبیلِ تذکرہ ذکر کرتے چلیں کہ عمر ایوب خان، انور سیف اللہ کے داماد ہیں جو سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے اور گوہر ایوب خان کے صاحبزادے ہیں، اور ہر حکومت میں اپنا حصہ ضرور وصول کرتے ہیں۔ وہ اس وقت پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں سے ایک ہیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہارون بلور، عرفان اللہ مروت کے داماد تھے۔
نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ
یہ چھ نومبر 1990 کا دن ہے۔ غلام اسحاق خان نواز شریف سے حلف لے رہے ہیں۔ ایک اور منتخب حکومت برسرِاقتدار آچکی تھی مگر غلام اسحاق خان کے پاس اب بھی 58 ٹو بی کا ہتھیار موجود تھا اور یوں اپریل 1993 میں نواز شریف حکومت کا خاتمہ بھی انہی الزامات کی بنیاد پر کیا گیا جو پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت ختم کرنے کے لیے لگائے گئے تھے، لیکن غلام اسحاق خان کے لیے یہ فیصلہ آسان ثابت نہیں ہوا کیونکہ گوہر ایوب خان، جو اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، نے اسمبلی کے کسٹوڈین کی حیثیت سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
اس وقت چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے تقریباً پانچ ہفتوں کی سماعت کے بعد 26 مئی 1993 کو نواز شریف کی حکومت کی غیرمشروط بحالی کا حکم جاری کر دیا اور یوں نگراں وزیراعظم بلخ شیر مزاری نے 39 روز تک نگراں وزیراعظم رہنے کے بعد یہ عہدہ دوبارہ نواز شریف کو سونپ دیا۔

غلام اسحاق خان صدارت سے جبری طور پر ہٹائے جانے کے بعد سیاسی منظرنامے سے مکمل طور پر غائب ہوگئے (فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف کی مشکلات آسان نہیں ہوئیں اور صدر غلام اسحاق خان سے ان کے اختلافات جوں کے توں رہے اور نواز شریف کے لیے ہر گزرتا دن ان کی اقتدار پر گرفت کمزور کرتا رہا اور یوں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ اور غلام اسحاق خان صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔
غلام اسحاق خان صدارت سے جبری طور پر ہٹائے جانے کے بعد سیاسی منظرنامے سے مکمل طور پر غائب ہوگئے۔
وہ صحافیوں کو انٹرویو دینے سے گریز کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی کوئی آپ بیتی بھی نہیں لکھی جبکہ وہ چار دہائیوں تک اقتدار کے ایوانوں کا ایک اہم حصہ رہے تھے۔
اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ جوہری پروگرام کے نگراں کے طور پر غلام اسحاق خان نے ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایک بیوروکریٹ اور معاشی امور کے ماہر کے طور پر بھی وہ بے داغ شخصیت کے مالک رہے مگر جب سیاست میں آئے تو سیاسی داؤ پیچ کھیلتے کھیلتے وہ اس تالاب میں گہرائی تک اُتر گئے جس کے باعث تاریخ میں ان کا نام ایک ایسے صدر کے طور پر درج ہو گیا جس نے دو منتخب وزرائے اعظم کو وہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے گھر بھیجا، جسے کبھی جنرل ضیاالحق نے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کو رخصت کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
سابق صدر غلام اسحاق خان نے ایک اور اہم کام غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنا کر کیا جو اعلیٰ تعلیم کا ایک بہترین ادارہ ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ 90 کی دہائی کی سیاسی کشمکش میں غلام اسحاق خان کا ایک اہم کردار تھا جنہوں نے سیاسی اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنا زیادہ وقت سیاست کی بساط پر غلط مہرے چلاتے ہوئے صرف کیا اور اپنی ہی غلط چال کا شکار ہو گئے۔

شیئر: