Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی جماعتیں اردو نیوز کے سروے کے حوالے سے کیا کہتی ہیں؟

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اردو نیوز کے انتخابات کے حوالے سے سروے پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام باشعور ہیں۔ انھیں ووٹ کی پرچی سے اپنے مستقبل اور ملک کی قیادت کا فیصلہ کرنے حق دیا جانا چاہیے۔
اردو نیوز نے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے ملک گیر سروے کیا جس میں رائے دہندگان میں 33.7 فیصد نے تحریک انصاف کو، 23 فیصد نے مسلم لیگ (ن) کو، 21.6 نے جماعت اسلامی کو جبکہ 5.6 نے پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا۔
اسی طرح سروے میں 34.8 فیصد کی رائے میں ملک کے آئندہ وزیرِاعظم نواز شریف ہوں گے جبکہ 29.8 فیصد نے عمران خان کو بطور وزیراعظم منتخب کیا۔
آٹھ فیصد کے خیال میں وزیرِاعظم بلاول بھٹو زرداری جبکہ 3.2 فیصد کے مطابق مولانا فضل الرحمان وزیراعظم ہوں گے۔ صرف دو فیصد رائے دہندگان نے شہباز شریف کے حق میں رائے دی جبکہ ایک فیصد سے بھی کم رائے دہندگان نے کہا کہ آئندہ وزیرِاعظم مریم نواز ہوں گی۔
اس سروے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ن عوام کی رائے کا احترام کرتی ہے اور ہم ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے جب منشور بنایا جہاں اپنے ماضی کارنامے گنوائے وہیں مستقبل میں ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کا منصوبہ بھی بتایا ہے۔ کسی دوسری جماعت نے اپنی ماضی کی کارکردگی نہیں بتائی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اردو نیوز کے سروے میں بھی لوگوں نے بڑی تعداد میں ملک کی ترقی، مہنگائی اور بے روزگاری  کے خاتمے اور ملک کو مشکلات سے نکالنے کے حوالے سے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ چھوٹی بات نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام چوتھی بار ایک فرد جسے نواز شریف کہتے ہیں اس پر اعتماد کر رہے ہیں۔ کیونکہ لوگ باشعور ہیں اور جانتے ہیں کہ ملک اس دلدل سے کون نکال سکتا ہے اسے اس حالت میں دھکیلنے والے کون ہیں۔‘
ترجمان پاکستان تحریک انصاف شعیب شاہین نے اردو نیوز کے سروے پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں سمجھتا ہوں اردو نیوز کا سروے عوامی رائے کی عکاسی ہے۔ ’لیکن میری نظر میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ لوگ پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ کرنا چاہتے ہیں۔عمران خان جیل میں ہونے کے باجود اس وقت مقبول ترین لیڈر ہے۔ چاہے کوئی بھی سروے کروا لے نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہو گا۔‘
شیعب شاہین نے مزید کہا کہ ’بنیادی طور پر الیکشن جمہور کا فیصلہ ہوتا ہے۔اگر آپ اس فیصلے کو مانتے ہیں تو ملک کی جمہور کو سنا جائے۔ لوگ اپنے پسندیدہ لیڈر اور پارٹی کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔ بند کمروں میں بیٹھ کر ملک کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صرف میں نہیں سب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف یہ الیکشن جیت رہی ہے۔ ہم اب  کسی کو اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیں گے۔‘
جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکر ٹری امیر العظیم نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’اردو نیوز کا سروے کچھ لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہوگا لیکن یہ موجودہ حالات کے عین کے مطابق ہے۔ اس کے بارے کچھ حقائق یہ ہیں کہ جماعت اسلامی نے اپنی انتخابی سیاست کسی اتحاد کے بغیر اپنے پلیٹ فارم سے لڑنے کا فیصلہ کرکے مسلسل چار سال سے اپنے جھنڈے اور نشان کو عوام تک پہنچایا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملک بھر میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں جاری رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم نے سیلاب اور دوسرے مشکل اوقات میں خدمت خلق کی ہے جس سے ایک نیٹ ورک قائم ہوا ہے۔ کشمیر اور حالیہ غزہ جنگ کے حوالے سے جماعت کے اجتماعات کے باعث رائے عامہ کا پلڑا جماعت کی طرف جھکا ہے۔ جس کی نشان دہی جماعت کے بڑے بڑے پروگرامات ہیں۔ عوامی مسائل پر جماعت کے دھرنے اور احتجاج ہیں۔ جو عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کی کاوشیں ہیں اور لوگ انھیں تسلیم کرتے ہیں۔
ان کہا کہنا تھا کہ جماعت نے 70 کی دہائی کے بعد اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہم یا تو کسی انتخابی اتحاد کا حصہ بنتے رہے یا بائیکاٹ کرتے رہے۔ اخبار ٹی وی ہمیں وقت نہیں دیتے تھے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا موقع دیا ہے۔ حق دو گوادر، حق دو کراچی، سینیٹ میں سینیٹر مشتاق احمد اور قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے جس طرح عوام کی ترجمانی کی ہے اور عوام جماعت کو اپنا ترجمان قرار دیتے ہیں۔ جس کا اثر اس سروے میں سامنے آیا ہے۔

شیئر: