Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن، دو تہائی اکثریت سے مخلوط حکومت بنانے تک کا سفر 

الیکشن 2024 میں مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں 79 قومی نشستوں پر کامیابی ملی ہے (فائل فوٹو: پی ایم ایل این، فیس بک پیج)
عام انتخابات 2024 کے مکمل نتائج آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں 79 قومی نشستوں پر کامیابی ملی ہے جس کے بعد ن لیگ کو حکومت سازی کے لیے دیگر جماعتوں کا تعاون درکار ہے۔ 
ن لیگ کو ماضی میں عام انتخابات کے بعد حکومت بناتے وقت کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ انتخابات اس اعتبار سے بھی مختلف ہیں کہ ن لیگ کو قومی اسمبلی میں کم نشستوں کے ساتھ حکومت بنانا پڑ رہی ہے۔
ماضی میں مسلم لیگ ن عام انتخابات میں اکیلے یا دیگر جماعتوں کے الائنس میں قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں جیتتی رہی ہےجس کے بعد نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ مسلم لیگ ن ماضی میں تین مرتبہ مرکز میں حکومت بنا چکی ہے۔
ن لیگ کی حکومت سازی کا اگر 1990 کے عام انتخابات سے ذکر کریں تو نواز شریف کی قیادت میں بنے اسلامی جمہوری اتحاد نے 37اعشاریہ37 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔
بینظیر بھٹو کی قیادت میں بنا پاکستان ڈیموکریٹک الائنس 36اعشاریہ83 فیصد ووٹ حاصل کر سکا تھا۔
تاہم آئی جے آئی کو نشستوں پر پی ڈی اے پر برتری حاصل رہی اور نواز شریف نے قومی اسمبلی کی 207 جنرل نشستوں میں سے 106 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ آئی جے آئی 44 نشستیں اپنے نام کر سکی، یوں میاں نواز شریف پہلی بار پاکستان کے وزیراعظم بنے تھے۔

سنہ 1997 میں  مسلم لیگ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

فروری 1997 کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کی مضبوط ترین جمہوری حکومت قیام میں آئی۔ 
اس وقت مسلم لیگ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ مسلم لیگ نے اُس وقت قومی اسمبلی کی 203 نشستوں میں سے 134 پر کامیابی حاصل کی۔ 
انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(اب ن لیگ) نے تاریخ میں پہلی بار وفاق، پنجاب، خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ میں اپنی حکومت بنائی تھی۔
عام انتخابات 1997 میں پاکستان پیپلز پارٹی محض 18 نشستیں جیت سکی۔ پیپلز پارٹی نے مرکز کے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی اپنی حکومت گنوائی تھی۔
سنہ2013 کے عام انتخابات کے نتائج کے بعد نواز شریف تیسری بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے تھے۔
پاکستان مسلم لیگ ن آخری بار 2013 میں عام انتخابات میں فاتح بن کر ایک بڑی سیاسی جماعت کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ 
سنہ2013 کے عام انتخابات میں بھی نواز شریف وزیراعظم بننے میں کامیاب رہے تھے۔ قومی اسمبلی کی کل 342 نشستوں میں سے اُن کی پارٹی کو 166 پر فتح حاصل ہوئی تھی۔
ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی مرکز میں 42 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔
اس کے علاوہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف 35 سیٹوں کے ساتھ ملک کی تیسری بڑی جماعت بنی تھی۔ 
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا اس بار کم نشستیں جیتنا عوام میں اُس کی عدم مقبولیت کا مظہر ہے۔ 

’ن لیگ کوئی عوامی بیانیہ نہیں بنا پائی‘

سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’اس مرتبہ مرکز میں ایک اقلیتی حکومت بن رہی ہے۔ عمومی طور پر اکثریتی نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار ملتا ہے مگر اس بار کچھ مختلف صورت حال ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’قومی اسمبلی کی نشستوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے نمبر پر دو تہائی اکثریت آتی ہے۔ اگر کوئی پارٹی یہ حاصل کر لے تو اُسے کسی دوسری جماعت کی سپورٹ نہیں چاہیے ہوتی۔‘
’اُس کے بعد قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت آتی ہے جسے حاصل کرنے کے بعد سیاسی جماعتیں کچھ دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملا لیتی ہیں۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن اس بار تیسرا حصہ یعنی ایک تہائی نشستیں جیت پائی ہے مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون کے ساتھ وہ مرکز میں حکومت بنا رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن اس بار صرف ایک تہائی نشستیں جیت پائی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ن لیگ کی جانب سے اس بار دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی وجہ یقینی طور پر اُن کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر پارٹی پوزیشن ہے۔ اگر وہ ماضی کی طرح عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہوتی تو ابھی نتائج مخلتف ہوتے۔
ضیغم خان کے مطابق ’ن لیگ کی سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرنے کی وجہ پارٹی کی عوامی حلقوں میں عدم مقبولیت ہے۔ ن لیگ الیکشن سے قبل کوئی عوامی بیانیہ نہیں بنا پائی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگر ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو اُن کا حال اس سے بھی بُرا ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف اور اُن کی جماعت کو مکمل تعاون فراہم کیا ہے مگر پھر بھی نتائج اُن کے حق میں نہیں آئے۔‘

مہنگائی کا سونامی ن لیگ کی عدم مقبولیت کی ایک وجہ

تجزیہ کار شہزاد اقبال سمجھتے ہیں کہ ماضی کے برعکس اس بار ن لیگ کے عام انتخابات میں کم نشستوں پر کامیاب ہونے کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن اپنی انتخابی مہم میں 2013 سے 2018 تک کی حکومتی کارکردگی کا ذکر تو کرتی رہی مگر 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کی کارگردگی زیربحث نہیں لائی گئی۔‘
’جب پی ڈیم ایم حکومت اقتدار میں آئی تھی تو مہنگائی کی مجموعی شرح 12 فیصد تھی۔ 16 ماہ گزرنے کے بعد یہ شرح 35 سے 40 فیصد تک جا پہنچی تھی۔ پی ڈی ایم حکومت میں مہنگائی کا سونامی بھی ن لیگ کی عدم مقبولیت کی ایک وجہ بنا۔‘

پی ڈی ایم حکومت میں مہنگائی کا سونامی بھی ن لیگ کی مقبولیت میں کمی کی ایک وجہ بنا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

شہزاد اقبال کے مطابق ’پی ڈی ایم الائنس میں سیاسی جماعتیں عوام سے کیے اپنے وعدے پورے نہیں کر سکیں۔ آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے جانا اور دیگر گورننس مسائل پی ڈی ایم کی جماعتوں بالخصوص ن لیگ کی سیاسی ساکھ کو متاثر کرنے کا سبب بنے ۔‘
وہ ضیغم خان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ن لیگ اس بار اپنی انتخابی مہم میں کوئی بیانیہ بھی نہ بنا سکی۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے سے پیچھے ہٹنے پر مسلم لیگ ن  کے قائد کو ’لاڈلا‘ ہونے کا لقب یا طعنہ ملا۔ یہ صورتحال بھی ن لیگ کی مقبولیت میں کمی کا سبب بنی۔‘
انہوں نے مزید کہا ’عام انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے خلاف عدالت سے آنے والے فیصلے ن لیگ کی سیاسی حریف جماعت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ ایسے فیصلوں کے بعد انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہمدردی کا ووٹ زیادہ ملا۔‘

شیئر: