Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں حکومت سازی: اشارے پیپلز پارٹی کے حق میں جا رہے ہیں

جعفر مندوخیل کا کہنا ہے کہ پہلے وفاق کی حکومت کا پھر صوبوں کا فیصلہ ہوگا۔ (فوٹو: پی پی پی)
وفاق کی طرح بلوچستان میں بھی حکومت سازی کے معاملات پر خاطر خواہ پیش رفت ہوسکی ہے اور نہ ہی صورتحال اب تک واضح ہے تاہم  تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اشارے پیپلز پارٹی کے حق میں جا رہے ہیں اور زیادہ امکانات ہیں کہ بلوچستان میں  پیپلز پارٹی کی سربراہی میں مخلوط حکومت قائم ہو۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے اندرونی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت اور پارٹی کے وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوارجام کمال خان حکومت سازی کے معاملات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد بلوچستان میں نمبر زگیم کیا ہے؟
بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے 33 ارکان کی حمایت درکار ہے تاہم عام انتخابات میں وفاق کی طرح بلوچستان میں بھی مینڈیٹ منقسم ہے اور کسی جماعت کے پاس ارکان کی واضح اکثریت نہیں۔
پی بی 9 کوہلو کے سات پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کے بعد مسلم لیگ ن کی ایک نشست مزید بڑھ گئی ہے اور جنرل نشستوں پر منتخب ہونےوالے مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد گیارہ ہوگئی ہے۔
 پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے کے دس دس ارکان جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی پانچ ارکان کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت اور نیشنل پارٹی تین ارکان کے ساتھ پانچویں بڑی جماعت ہے۔
اے این پی دو، بی این پی عوامی، جماعت اسلامی، حق دو تحریک اور بی این پی مینگل کی ایک ایک نشست ہے۔
چھ نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جن میں سے تین ارکان  بخت محمد کاکڑ، اسفندیار کاکڑ اور لیاقت علی لہڑی نے اسلام آباد میں آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد  پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی  جبکہ دو آزاد ارکان کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی اور ولی محمد نورزئی منگل کو لاہور میں مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف سے ملاقات کرکے ن لیگ میں شمولیت میں شامل ہوگئے ہیں۔
آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد 13،13 نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن برابر ہوگئی ہے تاہم چھٹے آزاد امیدوار مولوی نور اللہ نے شمولیت کے بغیر وزارت اعلیٰ کے لیے پیپلز پارٹی کی  حمایت  کا اعلان کیا ہے۔
اس طرح پیپلز پارٹی کو اب تک 14 ارکان کی حمایت کے ساتھ  برتری  حاصل ہے۔
بلوچستان اسمبلی کی 65 میں سے11 نشستیں خواتین اور 3 نشستیں اقلیت کے لیے مختص ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو خواتین کی تین تین نشستیں اور اقلیت کی ایک ایک نشست ملے گی جس کے بعد دونوں کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 17،17 ہوجائے گی۔  اس طرح دونوں جماعتوں کے ملاکر ارکان کی تعداد 34 تک پہنچ جائے گی۔
دونوں جماعتیں اگر بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے اتحاد کرتی ہے تو آسانی سے حکومت بنالے گی اور انہیں مزید کسی جماعت کی ضرورت نہیں رہے گی۔
 تاہم اگر دونوں بڑی جماعتیں بلوچستان میں اتحاد نہیں کرتیں تو انہیں جمعیت علماء اسلام  کا سہارا لینا پڑے گا جو 10 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے۔ جے یو آئی کو خواتین کی دو اور اقلیت کی ایک مخصوص نشست ملنا یقینی ہے اس طرح ان کے ارکان کی مجموعی تعداد 13 ہوجائے گی۔
بلوچستان عوامی پارٹی ،نیشنل پارٹی اور اے این پی کو بھی خواتین کی ایک ایک مخصوص نشست ملے گی جس کے بدلے ان کے ارکان کی تعداد بلاترتیب چھ، چار اور تین ہو جائے گی۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے اور جے یو آئی کے بغیر بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے باقی تمام 7 جماعتوں کو ساتھ ملانا ہوگا جو کوئی اچھا اور قابل عمل آپشن دکھائی نہیں دیتا۔

ن لیگ کی مرکزی قیادت کی بلوچستان کی حکومت سازی میں عدم دلچسپی

مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت بالخصوص میاں شہباز شریف بلوچستان میں حکومت بنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔
ذرائع کے مطابق منگل کو لاہور میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دوآزاد امیدواروں کی شمولیت کے موقع پر جب صوبائی صدر شیخ جعفر مندوخیل نے بلوچستان میں حکومت سازی اور سیاسی جماعتوں سے رابطوں کے حوالے سے میاں شہباز شریف کو آگاہ کرنا چاہا تو انہوں نے جعفرمندوخیل کو اس معاملے میں فی الحال آگے نہ بڑھنے کا مشورہ دیا۔

بلوچستان حکومت کا فیصلہ مرکز میں حکومت سازی کے بعد ہوگا۔ (فوٹو: ایکس)

مسلم لیگ ن کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار جام کمال خان کے ایک قریبی ذریعے نے بھی اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان جو کچھ دنوں پہلے تک صوبے میں حکومت بنانے کے لیے بڑے پرجوش تھے اور سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے رابطے میں تھے نے حکومت سازی کے معاملات سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ انہوں نے صوبے کی فعال سیاست سے دور رہنے اور صرف حلقے کی سیاست تک محدود رہنے کا عندیہ دیا ہے۔
اس سلسلے میں اردو نیوز نے مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر شیخ جعفرمندوخیل سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت بلوچستان کے معاملات میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی؟ جس پر شیخ جعفر مندوخیل کا کہنا تھا کہ  ن لیگ کی مرکزی قیادت نے پہلے کب دلچسپی لی؟
تاج محمد جمالی، نواب ذوالفقار علی مگسی، جان محمد جمالی سے نواب ثناء اللہ  زہری  تک حکومت سازی کے معاملات میں ہمیشہ ہم لوگوں (صوبائی قیادت) نے ہی دلچسپی لی۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے وفاق کی حکومت کا پھر صوبوں کا فیصلہ ہوگا۔ ’ہم بلوچستان میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے مسلم لیگ ن کے مرکز میں معاملات خراب ہوں۔‘ یہ بڑی گیم ہے معاملات الٹ پلٹ ہوجاتے ہیں اس لیے ہم بڑے احتیاط سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر سابق صدر آصف علی زرداری بلوچستان کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں اورپیپلز پارٹی بلوچستان کی پوری قیادت اور تقریباً تمام نومنتخب ارکان اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
ان کے درمیان کئی مشاورتی نشستیں ہوچکی ہیں تاہم اب تک پیپلزپارٹی نے اب تک وزارت اعلیٰ کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی  کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی واضح کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں حکومت پیپلز پارٹی بنائے گی جبکہ ن لیگ کی قیادت کی جانب سے اب تک ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

مرکز کے معاملات بلوچستان پر اثر انداز

بلوچستان 1970 میں صوبہ بننے کے بعد سے عام انتخابات میں کبھی کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور ہمیشہ مخلوط حکومت بنتی آرہی ہے ۔حکومت سازی کے لیے وفاق کی جانب  دیکھا جاتا ہے۔ وفاق میں اکثریت حاصل کرنےو الی جماعت بلوچستان میں بھی حکومت بنانے میں فیصلہ ساز رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی  بلوچستان کا فیصلہ وفاق  سے جڑا ہوا ہے لیکن اس بار چونکہ خود وفاق کی صورتحال غیر واضح ہے تو بلوچستان میں حکومت سازی کے معاملات بھی تعطل کا شکار ہیں۔
تجزیہ کار سید علی شاہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں نمبرز گیم میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن انیس بیس ہے تاہم  مسلم لیگ ن کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی پر انحصار کرنا پڑرہا ہے تو بدلے میں پیپلز پارٹی بلوچستان کی حکومت بھی مانگ رہی ہے۔

شاہد رند کہتے ہیں کہ مرکز میں لین دین کے نتیجے میں فیصلہ ہوگا کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کی قیادت کون سنبھالے گا۔ (فوٹو: ن لیگ ایکس)

تجزیہ کار شاہد رند کا کہنا ہے کہ بظاہر بلوچستان میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی بڑی جماعتیں ہیں تاہم  بلوچستان حکومت بنانے کے لیے زیادہ زور پیپلز پارٹی لگارہی ہے۔
’مرکز میں وہ ن لیگ کی اتحادی بن رہی ہےمگر وہ سربراہی نہیں کررہی تو وہ چاہتی ہے کہ بلوچستان سندھ کے بعد دوسرا صوبہ بنے جہاں وہ حکومت کی سربراہی کریں۔‘
ان کے بقول دو صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو اسے پاور شیئرنگ میں زیادہ حصہ ملے گا اس طرح وہ قومی مفادات کونسل، صدارتی انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات پر زیادہ اثر انداز ہوسکے گی  اس لیے آصف زرداری  بڑے ناپ تول کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
شاہد رند کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ مرکز میں بننے والی حکومت  بلوچستان کی وجہ سے خراب ہو۔ وہ اتحادی پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات کو خراب نہیں کرنا چاہتی۔

آصف زرداری طویل عرصہ سے بلوچستان میں حکومت بنانے کے خواہشمند

سید علی شاہ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری کی طویل عرصے سے بلوچستان میں حکومت بنانے میں دلچسپی رہی ہے۔ 2018 میں جب ان کی جماعت کا بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں تھا اور نواب  ثناء اللہ زہری کی حکومت گرائی جارہی تھی تب بھی آصف زرداری کی دلچسپی تھی اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر قیوم سومرو کوئٹہ آکر معاملات دیکھ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی بلوچستان میں زیادہ دلچسپی اس لیے نہیں کہ یہاں ان کی کوئی نظریاتی بنیادیں موجود نہیں اس کے  مقابلے میں پیپلز پارٹی کا کم صحیح مگر وجود ہمیشہ سے رہا ہے۔
’نصیرآباد اور دیگر اضلاع میں ان کا ووٹ بینک موجود ہے۔ طویل عرصے سے ان سے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔‘
شاہد رند کہتے ہیں کہ مرکز میں لین دین کے نتیجے میں فیصلہ ہوگا کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کی قیادت کون سنبھالے گا۔
میرا نہیں خیال کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو بلوچستان کو چھوڑ ینگے انہیں موقع مل رہا ہے کہ دوسرے صوبے کو سنبھالیں تو وہ اس صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔
بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے لیے مضبوط امیدواروں میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، سابق نگراں وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی، پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدورسابق صوبائی وزراء علی مدد جتک، صادق  علی عمرانی کے ساتھ ساتھ سابق صوبائی وزراء ظہور احمد بلیدی ، سردار سرفراز چاکر ڈومکی اور عبیداللہ گورگیج کے نام لیے جارہے ہیں۔
شاہد رند کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے چھ سات نام  گردش کررہے ہیں تاہم آصف علی زرداری  نے ارکان اسمبلی سے فیصلے کا اختیار لے لیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ بلاول بھٹو سے مشاورت کرکے کسی ایک نام کا فیصلہ کریں گے۔
شاہد رند نے انگریزی محاورے Elephant in the room   کا استعمال کرتے ہوئے غیر واضح انداز میں کہا کہ  اب دیکھنا یہ ہے کہ  وزارت اعلیٰ کا فیصلہ آصف زرداری کرینگے یا کمرے میں موجود ہاتھی؟
خیال رہے کہ اس محاورے کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے  جب کوئی موضوع ، مسئلہ یا کردار بہت بڑا اور اہم ہو اور اتنا نمایاں ہو کہ اسے ہر کوئی جانتا ہو لیکن کوئی اس کا ذکر نہ کرے  یا جان جھ کر توجہ نہ دے۔

شیئر: