Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جبری گمشدگی‘ سے وزارتِ اعلٰی تک، میر سرفراز بگٹی کون ہیں؟

سرفراز احمد بگٹی کا خاندان نواب اکبر بگٹی کے سیاسی مخالفین کے طور پر ابھرا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میر سرفراز احمد بگٹی بلوچستان کے بلامقابلہ نئے وزیراعلٰی منتخب ہو گئے ہیں۔
43 سالہ سرفراز احمد بگٹی کا تعلق بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے ہے۔ وہ یکم جون 1981 میں بگٹی قبائل کے بااثر وڈیرے غلام قادر مسوری بگٹی کے ہاں پیدا ہوئے۔
ان کے والد جنرل ضیا الحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ بعدازاں بینظیر بھٹو کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوئے۔
سرفراز احمد بگٹی، بگٹی قبیلے کی ذیلی شاخ مسوری کی سربراہی کرنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی محمد شریف بگٹی، بگٹی قبیلے کی مسوری شاخ کے ساتھ ساتھ ذیلی شاخوں کے سربراہ بھی ہیں، جنہیں چیف آف مقدم بگٹی کہا جاتا ہے۔ یہ نواب کے بعد دوسری اہم پوزیشن سمجھی جاتی ہے۔
سرفراز بگٹی کے والد سابق گورنر اور سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اکبر بگٹی کے اتحادی تھے۔ تاہم 80 کی دہائی کے آخر میں ان کے مخالف بن گئے اور اس وقت بگٹی قبیلے کی ذیلی شاخ کلپر سے تعلق رکھنے والے امیر حمزہ کلپر اور نواب بگٹی کے رشتے دار میر حمدان راہیجہ بگٹی کے ساتھ مل کر نواب اکبر بگٹی کے خلاف سیاسی اتحاد بنایا۔
اس سے قبل نواب اکبر بگٹی اور ان کے بیٹے اور خاندان کے دیگر اہم افراد قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بلامقابلہ منتخب ہوتے آ رہے تھے، لیکن سنہ 1988 کے انتخابات میں غلام قادر بگٹی اور ان کے سیاسی اتحادیوں نے پہلی بار نواب اکبر بگٹی کو چیلنج کیا۔
اس طرح سرفراز احمد بگٹی کا خاندان نواب اکبر بگٹی کے سیاسی مخالفین کے طور پر ابھرا اور آج تک نواب بگٹی اور ان کے خاندان کے درمیان یہ سیاسی اور قبائلی مخاصمت جاری ہے۔ حالیہ انتخابات میں انہوں نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے گہرام بگٹی کو شکست دی جبکہ گذشتہ انتخاب میں گہرام بگٹی سے انہیں شکست ہوئی۔
سنہ 1988 میں سرفراز بگٹی کے والد غلام قادر بگٹی نے نواب بگٹی کے بیٹے سلیم بگٹی کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست جبکہ ان کے ساتھی امیر حمزہ کلپر بگٹی نے صوبائی نشست پر نواب اکبر بگٹی کے مقابلے میں انتخاب لڑا۔ تاہم دونوں کامیاب نہ ہو سکے۔

سرفراز بگٹی کے والد غلام قادر مسوری بگٹی جنرل ضیا الحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ (فوٹو: سرفراز بگٹی فیس بک)

اس کے بعد اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ سنہ 1991 میں امیر حمزہ کلپر بگٹی کا قتل ہوا تو ان کے خاندان نے نواب بگٹی پر الزام عائد کیا۔ کچھ مہینوں بعد نواب اکبر بگٹی کے بیٹے سلال بگٹی کا قتل ہوا تو ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہو گئے اور مسوری اور کلپر قبائل سمیت نواب بگٹی کے مخالفین کو ڈیرہ بگٹی چھوڑنا پڑا۔
سرفراز بگٹی کا خاندان ملتان اور ڈیرہ غازی خان منتقل ہو گیا۔ سنہ 2002 کی دہائی کے اوائل اور وسط میں جب نواب اکبر بگٹی اور پرویز مشرف حکومت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے تو سرفراز بگٹی اور ان کے خاندان نے حکومت کی حمایت کی۔

والد اور بھائی کی نجی جیل میں قید

نواب اکبر بگٹی نے حکومت کی حمایت اور ڈیرہ بگٹی میں فورسز کی آمد کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے قبائلی لشکر بھیج کر سرفراز بگٹی کے والد، بڑے بھائی اور چچا کو ڈیرہ بگٹی کے علاقے پھیلاوغ سے پکڑ کر کئی ماہ تک نجی جیل میں قید رکھا۔
تاہم مارچ 2005 میں نواب اکبر بگٹی کے خلاف سکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی کی اور ان کے قلعے کو راکٹوں اور بھاری اسلحے سے نشانہ بنایا تو نواب اکبر بگٹی علاقہ چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے۔ اس طرح سرفراز بگٹی کے والد اور باقی رشتے داروں کو رہائی مل گئی۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت وڈیرے غلام قادر اور ان کے رشتے داروں کو کوئٹہ لایا گیا۔ انہوں نے نوب اکبر بگٹی کے خلاف پریس کانفرنس بھی کی۔

سرفراز بگٹی نے لارنس کالج مری سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ (فوٹو: سرفراز بگٹی فیس بک)

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پرویز مشرف کے دور میں حکومت نے نواب بگٹی کے مخالفین کو واپس ڈیرہ بگٹی میں بسانا شروع کیا اور نواب بگٹی کے خاندان کی بجائے ان کے مخالفین کو سیاسی منظر نامے پر آگے لانے کا فیصلہ کیا۔

سکیورٹی فورسز سے اختلافات

سنہ 2008 کے انتخابات میں ڈیرہ بگٹی سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر سرفراز بگٹی کے چچا زاد بھائی طارق حسین مسوری کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی جبکہ سرفراز بگٹی اور ان کے والد نے طارق حسین مسوری کی مخالف کی۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ’طارق مسوری بگٹی کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے جاتے ہوئے سرفراز بگٹی اور ان کے والد کو ڈیرہ بگٹی کی ڈولی چیک پوسٹ پر سکیورٹی فورسز نے روکا۔ ان پر تشدد ہوا جس سے سرفراز بگٹی کے ہاتھ کی ہڈی فریکچر بھی ہوئی۔ بعد ازاں انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کر کے تحفظ مانگا۔‘
’اس کے بعد سرفراز بگٹی اور ان کے والد مشکلات کا شکار رہے۔ خود سرفراز بگٹی یہ کہہ چکے ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے انہی اختلافات کی بنا پر انہیں اور ان کے والد کو گرفتار کیا اور کئی ماہ تک نامعلوم مقام پر رکھا۔ اس طرح خود سرفراز بگٹی اور ان کے والد بھی لاپتہ افراد میں شامل رہے ہیں۔‘
سرفراز بگٹی نے ایک انٹرویو میں اس حوالے سے بتایا تھا کہ پرویز مشرف دور میں انہیں قائداعظم یونیورسٹی میں ڈیفنس سٹرٹیجک سٹیڈیز کی تعلیم دو سیمسٹر پڑھنے کے بعد ادھوری چھوڑنا پڑی۔ انہوں نے لارنس کالج مری سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔

سرفراز احمد بگٹی 2013 سے 2018 تک ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت میں وزیر داخلہ بلوچستان رہے۔ (فوٹو: سرفراز بگٹی فیس بک)

سیاسی سفر کا آغاز

وہ پہلی مرتبہ سنہ 2012 میں ذرائع ابلاغ کے سامنے اس وقت آئے جب سپریم کورٹ میں انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی اور اس وقت کے رکن صوبائی اسمبلی طارق مسوری بگٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس میں پیش ہو کر الزام لگایا تھا کہ ’طارق مسوری نے دو قبائل کے درمیان جھگڑے کے تصفیے میں 13 لڑکیوں کو ونی میں دے دیا ہے۔‘
اس کیس کی سماعت اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار احمد چودھری کوئٹہ رجسٹری میں کر رہے تھے۔
تجزیہ کار عرفان احمد سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سرفراز بگٹی کے اس کیس کا مقصد بنیادی طور پر 2013 کے انتخابات میں طارق مسوری کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا اور پھر تب اسٹیبلشمنٹ کی حمایت طارق مسوری کے بجائے سرفراز بگٹی کو حاصل ہو گئی۔ پھر وہ سنہ 2013 کے انتخابات میں پہلی بار آزاد حیثیت سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر ن لیگ میں شامل ہوئے۔‘
وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں مسلم ن لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی مخلوط حکومت میں وزیر داخلہ بنے تو سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہوئے۔
باقی وزرا اور حکومتی حکام کے برعکس سرفراز بگٹی بلوچ مسلح تنظیموں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کھل کر بولتے رہے اور لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی سخت گیر مؤقف رکھا۔ اس طرح انہیں بلوچستان کی سیاست میں اسٹیبلشنٹ نواز سیاستدان کی حیثیت سے شہرت ملی۔

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پرویز مشرف کے دور میں حکومت نے نواب بگٹی کے مخالفین کو واپس ڈیرہ بگٹی میں بسانا شروع کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سرفراز احمد بگٹی 2013 سے 2018 تک ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت میں وزیر داخلہ بلوچستان رہے۔
سنہ 2018 کے اوائل میں نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور ن لیگ میں بغاوت کر کے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی تشکیل میں پیش پیش رہے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں باپ کی حکومت بنی تاہم سرفراز بگٹی ڈیرہ بگٹی سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر نواب اکبر بگٹی کے پوتے گہرام بگٹی سے شکست کھا کر صوبائی اسمبلی سے باہر ہو گئے۔
تاہم وہ ستمبر 2018 میں سینیٹ کی ایک خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں کامیاب ہو کر سینیٹر منتخب ہوئے۔ اور 2021 میں باپ کے ٹکٹ پر چھ سال کے لیے دوبارہ سینیٹر بنے۔ وہ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹیوں برائے امور داخلہ، خارجہ، پیٹرولیم اور استحقاق کمیٹیوں کے رکن رہے۔
سرفراز بگٹی اگست 2023 میں انوار الحق کاکڑ کی کابینہ میں نگراں وفاقی وزیر داخلہ بنے تاہم دسمبر کے وسط میں انتخابی شیڈول کے اعلان سے صرف چند گھنٹے پہلے انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑ کر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے 18 دسمبر کو بلوچستان کے علاقے کیچ میں آصف علی زرداری کی موجودگی میں ایک ورکرز کنونشن کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 8 فروری کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پی بی 10 ڈیرہ بگٹی سے دوبارہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔

سرفراز بگٹی پہلی مرتبہ سنہ 2012 میں اس وقت سامنے آئے جب انہوں نے ایک ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ میں اپنے چچا زاد بھائی کے خلاف الزام لگایا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

سرفراز بگٹی کی اپنے چچا زاد بھائی طارق حسین مسوری سے سیاسی مفاہمت ہو چکی ہے تاہم سیاست اور قبائلی دونوں میدانوں میں آج بھی ان کا مقابلہ نواب اکبر بگٹی کے خاندان سے ہے۔ نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی، شاہ زین بگٹی اور گہرام بگٹی ان کے مخالفین ہیں۔

دہائیوں سے چلی آ رہی جنگ

سرفراز احمد بگٹی اور نواب اکبر بگٹی کے خاندان کے درمیان چار دہائیوں سے چلی آ رہی سیاسی اور قبائلی جنگ میں سنہ 2006 میں نواب اکبر بگٹی کی موت کے بعد تشدد کا عنصر واضح دیکھا گیا۔
سرفراز بگٹی 2016 میں اپنے آبائی علاقے بیکڑ میں بم دھماکے میں بال بال بچے۔ اس سے پہلے 2008 میں ان کے والد کے گھر پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک خاتون ہلاک جبکہ ان کے والد کے دو محافظوں سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔
نومنتخب وزیراعلٰی کے قریبی حلقوں کے مطابق سرفراز بگٹی پر اب تک 17 حملے ہو چکے ہیں۔
سرفراز بگٹی اپنے اور اپنے قریبی ساتھیوں پر ہونےوالے حملوں کے لیے نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ بارہا الزام عائد کر چکے ہیں کہ براہمداغ بگٹی نے بلوچ ری پبلکن آرمی کے نام سے مسلح تنظیم بنا کر نہ صرف ریاستی اداروں اور اہداف بلکہ اپنے قبائلی مخالفین کو بھی نشانہ بنایا۔
دوسری جانب نواب بگٹی کا خاندان سرفراز بگٹی پر اپنے مخالفین کے خلاف ریاستی اور حکومتی حمایت سے نجی ملیشیا چلانے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔

سرفراز بگٹی 2016 میں اپنے آبائی علاقے بیکڑ میں بم دھماکے میں بال بال بچے۔ (فائل فوٹو: سرفراز بگٹی فیس بک)

سنہ 2013 میں نواب اکبر بگٹی کے پوتے اور بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب عالی بگٹی نے بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں الزام عائد کیا تھا کہ ’سرفراز بگٹی اور ان کے والد غلام قادر مسوری بگٹی نے امن لشکر کے نام پر غیرقانونی نجی ملیشیا قائم کی ہے۔‘
تاہم سرفراز بگٹی کا مؤقف ہے کہ ’یہ امن لشکر ہے جس کی مدد سے وہ دہشت گردوں کے خلاف اپنا اور اپنے لوگوں کا دفاع کر رہے ہیں۔‘
عرفان سعید کے مطابق اپنے اس پس منظر کی وجہ سے سرفراز بگٹی ماضی میں یورپ میں مقیم براہمداغ بگٹی سمیت بیرون ملک بیٹھے ناراض بلوچ رہنماؤں کی وطن واپسی کے لیے حکومتی مذاکرات کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔

مسلح تنظیموں کے خلاف طاقت کے استعمال کے قائل

سرفراز بگٹی سنہ 2008 کے بعد بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے وزیراعلیٰ ہوں گے۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جلال نورزئی کے مطابق نواب اکبر بگٹی کے قتل کے دو سال بعد 2008 جب پیپلز پارٹی بلوچستان میں برسراقتدار آئی تو اس نے مفاہمتی پالیسی اپنائی تھی۔ پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے صدر مملکت بننے کے بعد بلوچستان کے عوام سے ماضی کی غلطیوں پر معافی بھی مانگی تھی۔
ان کے بقول آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت گیس رائلٹی، پانچ ہزار سے زائد ملازمتیں اور 18ویں ترمیم جیسے اقدامات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی سراہا۔

جلال نورزئی کے مطابق ’سرفراز بگٹی مفاہمت کے بجائے مسلح تنظیموں کو عوام کا خون بہانے کا ذمہ دار سمجھ کر طاقت کے استعمال کے قائل ہیں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ آج پیپلز پارٹی کو مفاہمت کی پالیسی کے مخالف اور سخت گیر مؤقف رکھنے والوں کو سامنے لانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
’سرفراز بگٹی مفاہمت کے بجائے مسلح تنظیموں کو عوام کا خون بہانے کا ذمہ دار سمجھ کر طاقت کے استعمال کے قائل ہیں۔ ان کے وزیراعلٰی بننے سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ شاید ریاست بات چیت کی بجائے مسلح تنظیموں کے خلاف طاقت کے استعمال کو زیادہ قابل عمل سمجھتی ہے۔‘
جلال نورزئی کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا ہے کہ سرفراز بگٹی وزیراعلٰی بن کر اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہیں یا پھر نئی حکمت عملی اپنائیں گے۔
تاہم تجزیہ کار عرفان سعید کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے میڈیا سے اپنی گفتگو میں بات چیت کے حوالے سے مثبت عندیہ دیا ہے۔

ہزاروں بھیڑ بکریوں کے مالک

سرفراز بگٹی کی جانب سے بطور نگراں وزیر داخلہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں کے مطابق ’وہ آٹھ ہزار 870 دنبوں اور چار ہزار 60 بکریوں کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس 400 گائیں، 90 اونٹ، 86 بھینسیں، 80 بیل بھی ہیں۔‘
انہوں نے ’ان مال مویشیوں کی مالیت سات کروڑ روپے ظاہر کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ سب انہیں ورثے میں ملے ہیں۔‘
سرفراز بگٹی نے 74 لاکھ روپے نقدی اور 68 لاکھ روپے کی گھریلو استعمال کی اشیا کو اثاثوں میں ظاہر کیا تھا۔

سرفراز بگٹی کی اپنے چچا زاد بھائی طارق حسین مسوری سے سیاسی مفاہمت ہو چکی ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ان کے پاس ایک کروڑ دو لاکھ روپے مالیت کی 2010 ماڈل کی ایک گاڑی اور ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں ایک سی این جی اسٹیشن کی مشترکہ ملکیت ہے۔
سرفراز بگٹی کا ملتان میں دو کنال کے گھر میں حصہ ہے اور وہ ملتان میں ایک اپارٹمنٹ، اسلام آباد میں ایک گھر اور کوئٹہ میں ایک پلاٹ کے مالک ہیں، جن کی قیمت تقریباً سات کروڑ 60 لاکھ روپے ہے۔

شیئر: