Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج، حکومتی بینچوں پر واضح تقسیم

بلاول بھٹو زرداری اپنی تقریر کے آغاز پر مفاہمت اور مل بیٹھنے کی بات کرتے رہے (فوٹو: سکرین گریب)
ارکان کی حلف برداری، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا باضابطہ اجلاس بھی ہنگامہ آرائی، طعن و تشنیع، نعروں، احتجاج اور سینسرشپ کا شکار رہا۔
سوموار کو قومی اسمبلی کا اجلاس بھی حسب معمول طے شدہ وقت سے ایک گھنٹے بعد شروع ہوا تو اپوزیشن رہنما عمر ایوب نے نکتہ اعتراض اٹھایا اور پی ٹی وی کی جانب سے اپنا خطاب براہ راست نہ دکھانے کا شکوہ کیا۔
محمود خان اچکزئی نے اپنے گھر پر پڑنے والے چھاپے پر احتجاج کے دوران شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نواز شریف کو ’ذبح‘ کر دیا ہے جس پر وزیراعظم غصے میں آگئے اور سپیکر سے ان کے الفاظ حذف کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اچکزئی صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن بات اگر ذاتیات پر آئے گی تو پھر دور تلک نکل جائے گی۔‘
محمود خان اچکزئی کے خطاب کے دوران صرف پی ٹی وی پر ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی اندرونی ویڈیو فیڈ بھی ختم کر دی گئی۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج کے اجلاس میں ایک طرح سے کلیدی خطاب کیا۔ وہ اپنی تقریر کے آغاز پر مفاہمت اور مل بیٹھنے کی بات کرتے رہے۔ وہ ایک لمحے حکومتی اتحادی لگتے اور اگلے ہی جملے میں وہ اپوزیشن رہنما بن جاتے۔ ان کی تقریر کے دوران ایک موقع پر تو اپوزیشن نے بھی ڈیسک بجائے اور اس کے چند ہی لمحے بعد اپوزیشن ان کے خلاف بھی سراپا احتجاج بن گئی۔
بلاول بھٹو زرداری نے مفاہمت اور اصلاحات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں لوگوں نے یہاں لڑنے اور نعرے لگانے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ ہمیں معاشی اصلاحت کرنی ہیں اور انتخابی اصلاحات کرنی ہیں تاکہ جب اگلی بار الیکشن ہو تو کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔‘
بلاول بھٹو نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگلی بار جب الیکشن ہو اس میں شہباز شریف جیتے یا آپ کا قیدی نمبر 804 جیتے تو سب کو قبول ہو تو اس پر اپوزیشن نے ڈیسک بجائے۔ کسی نے پچھلی نشستوں سے آواز لگائی کہ اب وہ قیدی نمبر 420 ہو چکا ہے۔‘
ایک وقت پر جب شہباز شریف نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی آپ کی حکومت بنے گی، اس میں ہمارے وزراء نہیں ہوں گے۔‘
اس پر جمشید دستی نے آواز لگائی کہ آپ بھی شامل ہو جائیں تو بلاول بھٹو نے برجستہ جواب دیا کہ آپ بھی شامل ہو جائیں تو ہم بھی ہو جائیں گے۔ جس پر جہاں حکومتی بینچوں نے خوب ڈیسک بجائے وہیں شہباز شریف زور زور سے ہنس سے دیے۔

عمر ایوب نے پی ٹی وی کی جانب سے اپنا خطاب براہ راست نہ دکھانے کا شکوہ کیا (فوٹو: سکرین گریب)

جب بلاول نے کہا کہ ’عوام نے منقسم مینڈیٹ دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم مل کر فیصلے کریں۔‘ تو اپوزیشن رہنما اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ عوام نے دیا ہے یہاں جعلی وزیراعظم بیٹھا ہے جو فارم 47 والا ہے۔ جس پر بلاول بھٹو نے جارحانہ انداز میں جواب دیا کہ ’عوام نے کسی کو واضح مینڈیٹ نہیں دیا آپ کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ کو بھی ووٹ نہیں ملا اور جو ملا ہے وہ اس لیے نہیں ملا کہ آپ یہاں شور شرابا کرتے رہیں بلکہ اس لیے ملا ہے کہ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالیں۔‘
ایک موقع پر بلاول بھٹو نے جمہوریت کے حوالے سے اپوزیشن کے طعنے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کون ہوتے ہیں ہمیں جمہوریت کا درس دینے والے، جس پر اپوزیشن نے ایوان میں پہلی بار پیپلزپارٹی کے خلاف احتجاج کیا۔ تمام ارکان اپنی نشستوں سے اٹھا کر سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے اور گو زرداری گو کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ جواب میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ارکان بھی جمع ہوگئے۔
چونکہ گزشتہ تین دنوں میں جب ن لیگ کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا تو پیپلز پارٹی کے ارکان اس احتجاج سے لاتعلق رہے تھے، اس لیے مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی شزا فاطمہ خواجہ نے سنی اتحاد کونسل کے سامنے کھڑے لیگی ارکان کو ایک ایک کر پیچھے نکالا۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی اور سنی اتحاد کونسل کے آمنے سامنے کھڑے نعرے لگاتے رہے۔ یہ سلسلہ بلاول کے خطاب ختم کرنے تک جاری رہا۔
بعد ازاں سپیکر نے بلاول بھٹو زرداری کے الفاظ حذف کرنے کا اعلان کیا تو بلاول بھٹو زرداری نے خود کہہ دیا کہ یہ الفاظ حذف کر دیے جائیں مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔

گنتی پوری نہ ہونے پر اجلاس جمعہ کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا (فوٹو: قومی اسمبلی فیس بک)

بلاول بھٹو زرداری کے بعد اسد قیصر کا خطاب شروع ہوا تو ان کے خطاب کے دوران بھی سینسرشپ کا سلسلہ جاری رہا اور بعض مقامات پر ویڈیو فیڈ ختم کی گئی۔
ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کے خطاب کے دوران بھی اپوزیشن ارکان نے شدید نعرے بازی کی۔
باضابطہ اجلاس کے پہلے روز ہی اپوزیشن کی جانب سے کورم کی نشاندہی حکومتی رکن شگفتہ جمانی کی طرف سے کی گئی اور گنتی پوری نہ ہونے پر اجلاس جمعہ کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ اجلاس ختم ہونے سے پہلے ارکان کی اکثریت وزیراعظم کی حلف برداری کے لیے ایوان صدر روانہ ہو گئی تھی۔

شیئر: