Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیر افضل مروت کے بیانات، پی ٹی آئی میں ڈسپلن کی کمی یا اختلافات؟

شیر افضل مروت نے عمران خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور ہدایات کو دوسرے پارٹی قائدین کے برعکس میڈیا کے سامنے رکھا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نائب صدر اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے ایک مرتبہ پھر اپنی ہی جماعت کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پارٹی نے انتخابات سے پہلے جمیعت علمائے اسلام نظریاتی اور انتخابات کے بعد مجلس وحدت المسلمین سے اتحاد نہ کر کے دو غلطیاں کی ہیں۔ جس وجہ سے پی ٹی آئی 80 نشستوں سے محروم ہو گئی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ شیر افضل مروت نے پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کوئی بیان دیا ہوں بلکہ اس سے قبل بھی وہ ایسا کئی بار کر چکے ہیں اور انہیں پارٹی کی طرف سے کئی بار تنبیہہ بھی کی جا چکی ہے۔
شیر افضل مروت نے انٹرا پارٹی انتخابات، ٹکٹوں کی تقسیم اور مختلف جماعتوں سے اتحاد کے ساتھ ساتھ عمران خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور ان کی ہدایات کو دوسرے پارٹی قائدین کے برعکس میڈیا کے سامنے رکھا ہے۔
اسی وجہ سے انہیں پارٹی کے اندر تنقید کا سامنا بھی رہتا ہے۔ کئی مرتبہ انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری ہوا اور پارٹی کی ترجمانی سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے باوجود وہ میڈیا پر آتے ہیں اور اپنے موقف کا کُھل کر اظہار کرتے ہیں۔
شیر افضل مروت کے اسی موقف کی وجہ سے تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا پر اکثر انہیں ’ایجنٹ‘ قرار دیتے ہیں اور ان پر الزام لگتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو ’بدنام کرنے کے ایجنڈے‘ پر ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کو جواز بنا کر بھی اکثر کہا جاتا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر ’ڈھیل‘ دی گئی ہے۔ اگر کوئی اور پارٹی رہنما ایسا موقف اختیار کرے تو وہ اسی وقت گرفتار کر لیا جائے۔
پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے خلاف بیانات دینے اور اس پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہونے کے بعد شیرافضل مروت نے ان سے ملاقات کر کے معذرت بھی کی تھی۔

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ شیر افضل مروت کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اپنے حالیہ انٹرویو میں شیر افضل مروت نے کہا کہ ’عمران خان نے مولانا شیرانی کی جماعت کے ساتھ اتحاد کی منظوری دے کر ٹی او آرز فائنل کر کے پبلک کرنے کو کہا۔ ہم نے پریس کانفرنس کر کے بتا دیا کہ ہمارا ان کے ساتھ اتحاد ہو گیا ہے۔
’لیکن یہ سب کچھ حتمی ہو جانے کے بعد مولانا شیرانی کی پارٹی (جس نے ہمیں کافی اکاموڈیٹ کیا تھا) اس کا پتّہ کٹ گیا اور بلّے باز (پی ٹی آئی نظریاتی) سامنے آ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بلے باز کو کون لایا، وہ کیوں آیا اور شیرانی صاحب کو کس نے ہٹایا، یہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔ پارٹی کی سطح پر اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے۔
’دوسری بڑی غلطی کا ارتکاب اس وقت ہوا جب مجلس وحدت المسلمین میں شمولیت کا فیصلہ ہوا۔ اس کا مقصد صرف اپنی مخصوص نشستیں بچانا تھا، لیکن اس کے بعد کچھ لوگوں نے مجھ سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کو دھمکی آمیز واٹس ایپ پیغامات بھیجنا شروع کر دیے۔
شیر افضل مروت کے مطابق ’جب یہ بات عمران خان کو بتائی گئی تو انہوں نے ہم سے کہا کہ قوم کو جا کر پریس کانفرنس کے ذریعے بتائیں کہ اس میں ہمارا کوئی مسلکی نقطہ نظر نہیں ہے، ہم تو اپنی سیٹیں بچانا چاہتے ہیں۔ قوم سمجھ جائے گی۔

شیر افضل مروت کے اسی موقف کی وجہ سے تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا پر اکثر انہیں ’ایجنٹ‘ قرار دیتے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان دھمکیوں کے بعد ہمیں سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کرنا پڑا۔
’یہ دو غلط فیصلے تھے جن کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے کیونکہ ان کی وجہ سے ہم 80 نشستیں کھو بیٹھے۔ ہمیں غیرضروری قانونی معاملات میں جانا پڑا، اور آج پشاور ہائی کورٹ نے ہماری پٹیشن بھی خارج کر دی۔
پاکستان تحریک انصاف نے حسب معمول شیر افضل مروت کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ان کی ذاتی رائے قرار دے دیا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ شیر افضل مروت کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے۔ یہ پارٹی موقف نہیں ہے اور ان کو ذاتی رائے ان کی اپنی معلومات اور تجزیے پر مبنی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ شیر افضل مروت نے جن غلطیوں کی نشان دہی کی ہے کیا آپ اسے غلطی تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’شیر افضل مروت تمام حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ پارٹی نے عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں درست وقت پر درست فیصلے کیے ہیں۔
بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کچھ نشستوں کا نقصان ہوا ہے اس کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کا تعلق پارٹی فیصلوں سے نہیں ہے بلکہ کہیں اور سے ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ہم کچھ بھی کر لیتے ہمیں مصنوعی طریقے سے ہرانے کے لیے اگلوں نے کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لینا تھا۔ اس لیے پارٹی فیصلوں کو بنیاد بنا کر تنقید کرنا درست نہیں ہے۔

شیر افضل مروت کے مطابق ’دوسری بڑی غلطی کا ارتکاب اس وقت ہوا جب مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ ہوا۔‘ (فوٹو: ڈان)

ایک سوال کہ جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’پارٹی میں ڈسپلن کی کوئی کمی یا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ آزادی اظہار رائے کا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے یا کوئی نشان دہی کرتا ہے تو اس پر قدغن نہیں لگانی چاہیے۔ یہ بنیادی جمہوری حق ہے اور جمہوری پارٹیوں میں اس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس بھی بیرسٹر گوہر کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شیر افضل مروت کے بیانات پارٹی میں اختلافات یا ڈسپلن مسئل کی نشان دہی نہیں کرتے بلکہ یہ ایک جمہوری رویہ ہے جہاں ایک پارٹی رہنما کو پارٹی فیصلوں پر تنقید کا حق حاصل ہے۔ جمہوریت اور سوشلسٹ پارٹی میں یہی فرق ہے کہ یہاں ہر فرد اپنی رائے رکھ سکتا ہے اور اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر مروت صاحب نے یہ کہا ہے کہ پارٹی فیصلوں سے نقصان ہوا ہے تو درست کہا ہے۔ انہوں نے تو پارٹی کو اپنی پالیسیوں پر سوچنے اور فیصلہ سازی کے طریقوں پر نئے سرے سے غور کرنے کا کھلا راستہ دیا ہے کہ ماضی قریب میں اگر کچھ غلطیاں کی ہیں اور ان کا نقصان ہوا ہے تو انہیں تسلیم کرتے ہوئے حکمت عملی بدلنی چاہیے۔ اس سے تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام جائے گا کہ تحریک انصاف اپنی غلطیاں سدھارنے میں سنجیدہ ہے۔
عمران خان سے ملاقاتوں کے بعد شیر افضل مروت اور باقی پارٹی رہنماوں کی جانب سے عمران خان کے پیغام کو الگ الگ انداز میں بیان کرنے کے حوالے سے رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ اس وقت عمران خان پارٹی کو کوئی لائن دے رہے ہیں یا ہر ملاقات میں کوئی لائن دی جاتی ہے۔ مشاورت کے ساتھ فیصلہ ہوتے ہیں اور ان کو بیان کرنے میں الگ الگ انداز یا انڈرسٹینڈنگ ہو سکتی ہے لیکن الگ الگ موقف ہونا درست نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔‘

شیئر: