Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لذت بھرے مہکتے ذائقے اور عید، عامر خاکوانی کا کالم

لاہور میں چوبر جی کے قریب ہوٹل میں قیمہ بھرے کریلے ایسے کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ (فوٹو: فیس بک)
زرا تصور کریں کہ سخت گرمی میں آپ سفر کر رہے ہیں، راستے میں قیام کرنا پڑا یا آپ کی منزل آن پہنچی۔ میزبان نے دسترخوان بچھایا۔ سب سے پہلے ٹھنڈی یخ نمکین گاڑھی لسی کا جگ پیش کیا گیا۔ ایک دو گلاس پینے کے بعد آپ کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو سامنے دیکھا کہ سبز کٹی ہوئی مرچوںسے بھرے آلو کے کرسپی پراٹھے، پودینے کی چٹنی، پیازکھیرے کا سلاد، اچار جس میں آم کے ساتھ کڑاکے دار مرچ اور آدھ کٹا لیموں بھی پڑا ہے۔ لسی کے دور بھی ساتھ چل رہے ہیں۔ کیسا لگے گا؟
چلیں اس منظر کو بدلتے ہیں۔ سخت بھوک میں آپ کے سامنے ابلے سفید چاول اور ساتھ سپائسی پتلی دال کا بھرا ڈونگا آگیا، سرخ لوبیہ یعنی راجماہ کی پلیٹ بھی موجود ہے، پیاز، کھیرے، ٹماٹر کا سلاد اور ایک بار پھر خوشبودار اچار۔ سادہ مگر پرلطف تجربہ۔
اب کچھ بھرپور قسم کا نان ویج۔ فرض کریں کسی صبح آپ کے گھر پر دستک ہوئی، باہر نکلے تو دو پرانے دوست کھڑے مسکرا رہے۔ برسوں بعد ملاقات ہوئی۔ آپ نے اندر ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے لیے دروازہ کھولا تو انہوں نے آپ کا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ نہیں ابھی ہمارے ساتھ چلو۔ آپ ٹراﺅزر، شرٹ اور چپل ہی میں چل پڑے۔ آپ کے دوست آج نہاری کا ناشتہ کرنے کی نیت کر کے آئے تھے۔ ساتھ لیے نہاری کے مشہور پوائنٹ کی طرف گئے۔
وہاں پہنچے۔ ہر ایک کے لیے الگ الگ فرائی نہاری کی پلیٹ آرڈر ہوئی، جس میں نلی بھی ڈالی جائے گی۔ چند منٹ بعد گرما گرم ترتراتے گھی والی نہاری کی پلیٹ سامنے آگئی، ساتھ ادرک، دھنیا، کتری سبز مرچ پر مشتمل ہرا مسالہ۔ دوست نے ویٹر کو تاکید کی کہ کڑک خمیری روٹی لانا۔ فوراً ہی سرخ کرسپی پھولی ہوئی خمیری روٹی آ گئی۔
 نہاری کی پلیٹ پر ہرا مسالہ انڈیلا، لیموں نچوڑا، خمیری روٹی کا نوالہ توڑا اور نہایت ٹینڈر ہوئی نرم بہت اچھی طرح گلی ہوئی لال بوٹی کو چھیڑا تو وہ بکھر گئی۔
لال بوٹی، گاڑھا نہاری کا شوربہ اور گرما گرم خمیری روٹی۔ یوں لگے گا جیسے کائنات تھم گئی اور ذائقوں کی بارش ہوگئی۔ آپ کے پاس آپشن ہے کہ لائم سوڈا کا یخ بستہ گلاس ساتھ میں لیں یا گاڑھی میٹھی لسی کا ذائقہ لیں۔ دل چاہے تو بہت اچھا نرم بنا ہوا دودھ میں گندھا سپیشل شیرمال بھی ساتھ ٹرائی کریں۔ صدیوں تک نہیں تو برسوں تک یہ ذائقہ یاد رہے گا۔
لاہور میں چوبرجی کے پاس ایک بہت پرانا مشہور ہوٹل ہے، ساٹھ ستر سال پرانا۔ شاید قیام پاکستان سے بھی پہلے کا۔ وہاں کے کھانے خالص دیسی گھی میں پکے ہوتے ہیں۔ ریٹ تو زیادہ مگر ذائقہ بھی حیران کن۔ وہاں کا مٹن قورمہ اور خاص کر قورمے کا مسالہ شاندار ذائقے کا حامل۔ قیمہ بھرے کریلے ایسے کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ مٹن پلاﺅ کلاسیکل انداز میں، یخنی میں بنا، خوشبودار پلاﺅ جس میں مرچ مسالہ مناسب اور لمبے چاول کا ایک ایک دانہ الگ اور خوب پکا ہوا۔ زردہ یا گڑ والے چاول کا مزا مستزاد اور چاٹی کی نمکین لسی کی سہولت بھی موجود۔

 نہاری کی پلیٹ پر ہرا مسالہ اور لیموں کا نچوڑ کر خمیری روٹی کے ساتھ کھائے تو مزہ آئے گا۔ (فوٹو: فیس بک)

آٹھ دس سال پہلے نائیجریا جانے کا موقعہ ملا۔ ایک انٹرنیشنل تنظیم کے زیراہتمام وہاں پر فری آئی کیمپ لگائے جا رہے تھے۔ انہیں کور کرنے جانا ہوا۔ مصر کے راستے گئے اور چند گھنٹوں کا قیام تھا۔ ایئرپورٹ کے قریب ایک ہوٹل میں کمرہ ملا اور فری لنچ کی سہولت۔ لنچ کے لیے پہنچے تو خاصے بڑے ہال میں لمبا چوڑا بوفے، درجنوں ڈشز۔ دو تین قسم کے رائس، چکن ، ویجی ٹیبل وغیرہ، عربی سٹائل کے شوارمے، عرب بروسٹ اور ایک طرف روسٹ شدہ ٹرکی بھی پڑا تھا۔ امریکیوں کے تھینکس گِوِنگ ڈے پر ٹرکی لازمی ڈش ہوتی ہے۔
اس کا بہت تذکرہ سنا تھا، تھوڑا کھا کر دیکھا، ہمارے روسٹ سے مختلف تھا، پھیکا سا نامانوس ذائقہ۔
 پھر ہمیں ایک پورا تھال چھلے چلغوزے کی گریوں کا نظر آیا۔ تب چلغوزے آج کل جیسے مہنگے نہیں تھے، مگر پھر بھی چلغوزے کی چھلی ہوئی گریاں تو کبھی نہیں ایسے دیکھی تھیں۔ آرام سے رکے اور بڑے بڑے دو تین چمچ بھر کر پلیٹ میں ڈالے۔ چلغوزے روسٹڈ تھے، مزا کمال۔ چند لمحوں بعد (جی منٹوں نہیں بلکہ لمحوں بعد ) واپس پلٹے اور ایک بار پھر پلیٹ بھر لی۔ دو تین (یا شاید پانچ سات ) بار ایسا کیا اور ایسا مزا کہ روح تک سرشار ہوگئی۔
 نائیجریا میں مختلف افریقی کلچر اور مزاج کے کھانے ملے، ان کے بعض سالن ایسے پکے ہوئے جن میں ہم پاکستانیوں کو قدرے ناگوار سی مہک آئی، مقامی لوگ البتہ مزے لے کر کھا جاتے۔
ناشتے میں وہاں مزے کی چیزیں دیکھیں، لمبے سائز کے کیلے جو فرائیڈ تھے۔ ہاتھ بھر لمبے آلو کے فنگر فرائز جو دو انگلیوں جتنے موٹے مگر مزے دار۔ ایک اور مزے کی چیز آئی کیمپ میں دیکھی۔ قدونہ وہاں کی ایک مشہور ریاست ہے۔ وہاں کیمپ تھا، چائے کے لیے سنیکس لگے تو ایک تھال میں پسا ہوا پاﺅڈر سا کچھ تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ خشک گوشت ہے ،جس کی بوٹیوں کو بعد میں پیس دیا گیا۔ ہمارے سرائیکی پٹھان گھرانوں میں رواج ہے کہ قربانی کے گوشت کو نمک مرچ لگا کر دھوپ میں سکھایا جاتا ہے اور پھر ان خشک بوٹیوں کو پیس کر دیسی گھی میں بھون کر سالن بنایا جائے۔

لال بوٹی، گاڑھا شوربہ اور گرما گرم خمیری روٹی کے ناشتے کا جواب نہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

نائیجرین خشک گوشت بھنا ہوا نہیں تھا مگر چمچ بھر کر منہ میں ڈالا جائے تو کمال مزا آتا تھا۔ جتنے دن کیمپ رہا، میں تو چائے کے وقفے میں یہی اڑاتا رہا۔ خوب لطف آیا۔
اسی قدونہ میں ایک عجب تماشا ہوا۔ گورنر نے ہمارے اعزاز میں ڈنر دیا۔ وہاں گورنر منتخب ہوتا ہے، وزیراعلیٰ سمجھ لیں۔ بڑے ہال میں کرسیوں کی قطار تھی، آگے درمیان میں ایک میز تھی جس پر ایک ہٹا کٹا بکرا روسٹ ہوا پڑا تھا۔ باری باری سب جاتے اور چھرے سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر اپنی پلیٹ میں ڈالتے۔ اپنی باری پر گیا تو خاصی کوشش کے باوجود چھری سے گوشت نہ کٹ پایا۔ انداز ہوا کہ گوشت بڑا سخت ہے، ہمارے بس کا نہیں۔ مجبوراً کسی اور چیز سے گزارا کیا، البتہ نائجیرین ڈاکٹر اور دیگر سٹاف اپنے مضبوط دانتوں کی مدد سے اسی نیم کچے نیم پکے گوشت کو مزے سے ہڑپ کر رہے تھے۔
 مجھے تب ایک ایسے ہی مسلم روسٹ بکرے کی یاد آئی۔ یہ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے۔ 2013 کے انتخابات ہونے والے تھے، عمران خان کو گوجرانوالہ میں ایک مشہور واشنگ مشین کمپنی کے مالک نے دعوت میں مدعو کیا۔
اتفاق سے اس تقریب میں صحافی و اینکر ہارون الرشید صاحب کے ہمراہ میں بھی شریک ہوا۔ خان صاحب تو ازحد مصروف تھے، لوگوں نے انہیں گھیرا ہوا تھا، وہ چند لمحوں کے آئے اور پھر نجانے کچھ کھایا نہیں کھایا معلوم نہیں۔ البتہ ہم جب میز پر گئے تو حیران رہ گئے۔
نہایت عمدہ روسٹ ہوا بکرا، اس کا پیٹ چاولوں سے بھرا ہوا، جس میں جابجا بادام، کاجو، پستہ، بکرے کے پیٹ میں روسٹ دیسی مرغی اور اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو اس میں ابلے ہوئے انڈے اور میوہ جات بھرا ہوا۔ سب کچھ اتنا لذیز، وافر اور مزے دار کہ آج تک منہ میں ذائقہ گھلا ہوا ہے۔
 ذائقے تو بہت سے ہیں، پاکستان میں بھی ان گنت قسم کے مزے دار پکوان، ترکی کے کھانوں کا عجب لطف، افغانستان کے بھنے ہوئے گوشت کباب اور روش وغیرہ کے مزے کون بھلا سکتا ہے۔ مصری پکوان بھی کم نہیں۔ دریائے نیل کی بھنی مچھلی یاد گار تجربہ رہا۔ اس پر پھر کبھی سہی۔
 آخر میں وہی بات کہ یہ تمام ذائقے، لذات وغیرہ ہمارے جیسے کمزور لوگوں کو بھی اپنی طرف نہیں کھینچ پاتے۔ رمضان کے مہینے کی اپنی ہی کچھ ایسی برکات ہیں کہ آدمی صبر کیے رہتا ہے۔ البتہ رمضان ختم ہوتے ہی عید کے تہوار میں اپنی استطاعت اور توفیق کے مطابق ہر کوئی لطف اٹھا سکتا ہے۔ بس ایک کوشش کریں کہ یہ سب چیزیں شیئر کرتے رہیں۔ ایثار اور شیئرنگ ہی وہ اصل پیغام ہے جو رمضان کا مہینہ ہمیں سکھاتا ہے۔ یہ سیکھ لیا تو پھر بیرونی ذائقوں کے ساتھ  ہم باطنی ذائقوں سے بھی روشناس ہوجائیں گے۔

شیئر: