Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دودھ کے پیالے میں تیرتی گلاب کی پتیاں: عامر خاکوانی کا کالم

’ذرا تحقیق کر کے دیکھیں کہ پچھلے چھ آٹھ ماہ میں کتنی زیادہ طلاقیں اور خلع ہوئی ہیں؟
رمضان کے آخری عشرے کے ایام ہیں۔ سیاست کی کھِچ کھِچ سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔ 
 دو حکایات یا اقوال دانش کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، ایک قدیم اور دوسرا جدید آج کے زمانے کا۔ اس سے پہلے مگر تھوڑا بیک گراؤنڈ کہ اس کی ضرورت کیوں آ پڑی ؟
 کچھ عرصہ قبل ایک محفل میں ایک وکیل صاحب کے ساتھ دلچسپ گپ شپ ہوئی۔ وہ فیملی کیسز کی پریکٹس کرتے ہیں اور ان کے پاس طلاق، خلع کے بہت سے کیسز رہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ آپ لوگ میڈیا پر کرنٹ افیئرز اور سیاسی بحث مباحثوں میں بہت وقت ضائع کرتے ہیں ، کبھی کوئی ٹی وی پروگرام یا اخبار کے کالموں میں سوشل ایشوز بھی زیربحث لایا کریں۔
 پھر بتانے لگے ،’ذرا تحقیق کر کے دیکھیں کہ پچھلے چھ آٹھ ماہ میں کتنی زیادہ طلاقیں اور خلع ہوئی ہیں؟ پچھلے چند برسوں سے گھرجس خوفناک رفتار سے ٹوٹ رہے ہیں، آپ لوگوں کو شاید اس کا اندازہ تک نہیں۔ طلاق کیسز تو چلتے رہتے تھے، مگر اب عدالتوں میں خلع کے کیس بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور زیادہ تر معاملات میں شادی کے پہلے سال ڈیڑھ کے اندر ہی ایسا ہو رہا ہے۔‘
 وکیل صاحب کے مطابق خلع کے نوے پچانوے بلکہ سو فی صد کیسز عورت کے حق میں جاتے ہیں، کچھ عرصہ میں طلاق ہوجاتی ہے۔بہت بار عدالتوں میں دیکھا ہے کہ طلاق کے بعد چھوٹے بچوں کی تقسیم بڑا جذباتی معاملہ بن جاتا ہے۔  فریق آنسو بہاتے نظر آتے ہیں۔ اس سب کے سدباب کے لیے آپ لوگ لکھیں یا پروگرام کریں۔
 اس گفتگو کے بعد میں سوچتا رہا، ادھر اُدھر معلومات کیں تو پتہ چلا کہ واقعی یہ معاملہ بہت پریشان کن ہوچکا ہے۔ ماں باپ بڑے چاؤ سے شادیاں کرتے ہیں۔ بہو لے آتے ہیں یا بیٹی رخصت کرتے ہیں۔ پہلے دوسرے سال ہی معاملہ اتنا بگڑ جاتا ہے کہ آگے بڑھنا ممکن نہیں لگتا۔ تب یا تو کورٹ سے باہر سیٹلمنٹ کر کے طلاق ہوجاتی ہے یا پھر لڑکی عدالت میں جا کر خلع لے لیتی ہے۔ 
 مجھے چند سال پہلے اپنے ایک دوست کے والد کا قصہ یاد آیا۔ ان کے گھر ایک دو دن مہمان رہنے کا اتفاق ہوا۔ محسوس کیا کہ ان کے گھر میں بڑی خیروبرکت ہے، گھریلوماحول بھی خوشگوار ہے۔ ساس سسر اور بہو کا باہمی تعلق بھی بڑا خالص اور محبت آمیز لگا۔ دوست کے والد بڑے خوش مزاج آدمی تھے، گپ شپ کرنے والے۔ باتوں میں آخر پوچھ ہی لیا کہ آپ کے گھریلو ماحول کو دیکھ کر بڑا اچھا لگا، مگر اس کا راز کیا ہے۔ یہ بات سن کر پہلے تو وہ مسکراتے رہے، پھر کہنے لگے کہ کتابوں میں ایک پرانے بزرگ کا قصہ پڑھا تھا، اسے ہم نے اپنے گھر میں آزمایا تویہ خوشگوار نتیجہ سامنے آیا۔ 
 بتانے لگے کہ کسی جگہ بزرگ محبت اور اخلاقی تعلیمات سے استفادہ کرتے رہتے۔ ایک بار کسی دوسرے علاقہ سے ایک بزرگ آئے اور اسی بستی میں ڈیرہ ڈال دیا۔

ایک  وکیل صاحب کے مطابق خلع کے نوے پچانوے بلکہ سو فی صدکیسز عورت کے حق میں جاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 چند دن گزرگئے تو جوبزرگ عرصے سے وہاں رہ رہے تھے، انہوں نے اپنے ایک چاہنے والے کو دودھ کا پیالہ دے کر نووارد بزرگ کے پاس بھیجا۔وہ وہاں گیا اور ڈھکے ہوئے پیالے سے رومال ہٹا کر حضرت کی خدمت میں پیش کیا۔ وہ دودھ سے بھرا پیالہ دیکھ کر مسکرائے اور پھر پاس رکھی ہوئی گلاب کی چند پتیاں پیالے میں ڈال دیں۔ پیالے کو پھر سے ڈھک کر واپس بھیج دیا۔ مرید واپس پہنچا، ماجرا سنایا اور پیالہ دکھایا۔ دودھ میں تیرتی گلاب کی پتیاں دیکھ کر وہ بھی مسکرائے اور پھر خاموشی سے پیالہ سائیڈ میں رکھ دیا۔
 چاہنے والا ان کا مزاج شناس اور خاص خدمت گزار تھا۔ اس نے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا۔جواب ملا، ہم نے دودھ سے بھرا پیالہ مہمان کو بھیجا، اس میں پیغام تھا کہ ہم پہلے سے یہاں موجود ہیں، اور اس موجودگی کی وجہ سے علاقہ بھر میں اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے گلاب کی پتیاں ڈال کر یہ جواب دیا کہ وہ اس علاقہ میں خاموشی سے اس طرح مقیم رہیں گے جیسے دودھ کے پیالے میں تیرتی گلاب کی پتیاں، جو اپنی خوشبو سے کیفیت کو بڑھا رہی ہیں، تصاد م نہیں۔ 
 دوست کے والد محترم کہنے لگے کہ جب بیٹے کی شادی ہوئی، بہو گھر آگئی تو میں نے اپنی بیوی کو یہ واقعہ سنا کر کہا:’بہوکے آنے سے گھر یوں ہوگیا ہے جیسے خالی پیالہ دودھ سے بھر گیاہو۔ہمیں اب اس میں گلاب کی پتیوں کی طرح رہنا چاہیے جو دودھ کی مہک اور لطافت تو بڑھادیں،اسے خراب نہ کریں۔ ‘ 
یہ بات میری بیوی کی سمجھ میں آگئی ۔ بہو ہماری بھی بیٹی ہے، وہ آ گئی ہے، گھر اچھے سے چلا رہی ہے۔ ہم اس کے معاون تو بنتے ہیں، جہاں اسے ضرورت پڑے رہنمائی بھی دے دی، مگر اسے پوری سپیس دے رکھی ہے۔ اسی وجہ سے گھر کا ماحول خوشگوار اور حسین ہے۔ ہمارا بیٹا بھی بہت خوش ہے اور اس کی گھروالی بھی عزت اور تکریم ملنے سے مسرور ۔
 ابتدا میں دو حکایات کا ذکر کیا تھا، دوسری حکایت یا واقعہ نہیں بلکہ اسے اقوال حکمت سمجھ لیں۔ یہ مشہورمغربی مصنف رابرٹ گرین کی کتاب طاقت کے اڑتالیس اصول (The 48 Laws Of Power)کا ایک اصول ہے۔ 

طلاق کے بعد چھوٹے بچوں کی تقسیم بڑا جذباتی معاملہ بن جاتا ہے (فوٹو: پکسابے)

 اس اصول یا قانون کا نام ’Never outshine the master‘ ہے۔یعنی اپنے سے بڑے یا مقتدر کی توقیر کرو ، اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش نہ کرو۔ 
 یہ اصول زندگی کے متعدد شعبوں میں اپلائی کیا جا سکتا ہے۔ سیاست، اقتدار، دربار، دفاتر، کاروباری مقامات وغیرہ ۔ میرے خیال میں گھر میں بھی اسے آزمانا چاہیے۔ اگر گھر میں آنے والی نئی لڑکی یعنی بہو اپنے بزرگوں کے حوالے سے اس قانون کو استعمال کرے تو خوشگوار نتائج آئیں گے۔ خاص کر ساس جو پہلے سے گھر کو چلا رہی ہے اور ایک طویل عرصہ اس کی گھر میں حکومت چلتی رہی آئی ، اسے یکا یک سائیڈ لائن پر کردینا قطعی مناسب نہیں۔ 
 ہر لڑکی چاہتی ہیں کہ وہ سسرال جا کراپنے رنگ ڈھنگ سے معاملات چلائے۔ نئی نسل کی سوچ پرانی سے مختلف ہوتی ہے،بہت کچھ وہ بدلنا چاہتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے احتیاط اور سلیقے سے کام لیا جائے۔ اپنی چکاچوند سے ساس کو نہ دھندلایا جائے۔ جاتے ہی چھا جانے کی جو خواہش ہے، اسے دباتے ہوئے گھر کے پرانے حکمرانوں کو عزت، توقیر دی جائے ۔ حکمت کے ساتھ ان کی انا کومجروح نہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے تو شائد تصادم کی نوبت ہی نہ آئے۔ 
 ہر بہو اپنی تعریف اور واہ واہ چاہتی ہے۔ اس کا حق اسے ضرور ملنا چاہیے، مگر اسے بھی کشادہ دلی اور بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ یہ تعریف اور واہ واہ اس کی ساس، نندوں کا بھی حق ہے۔تعریف، ستائش اور داد کے الفاظ ہر ایک چاہتا ہے۔بہو کو چاہیے کہ ان میں بخل نہ برتے اور گھر میں اپنی پوزیشن ضرورمستحکم کرے ، مگر تھوڑا ٹھنڈا کر کے کھائے ۔’سہج پکے سو میٹھا ہو‘ کا اردو محاورہ ایسے نہیں بنا۔ 
 دودھ کے پیالے میں تیرتی گلاب کی پتیوں والی قدیم حکایت اور اپنے بڑوں سے زیادہ چمکنے اور چھا جانے کی کوشش سے گریز کے بجائے بتدریج جگہ بنانے کی حکمت ہی وہ دو ایسے اصول ہیں جو ٹوٹتے گھروں کو پھر سے جوڑ دیں۔ باقی سب کہانیاں ہیں بابا! 
 

شیئر: