Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات: کیا ’مریم لابی‘ اور ’حمزہ لابی‘ کی وجہ سے پارٹی تنازعات کا شکار ہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ضمنی انتخابات کے لیے حمزہ شہباز کی لابی کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ملک بھر میں عام انتخابات کے بعد خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات 21 اپریل کو ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی چھ اور پنجاب اسمبلی کی 12 نشستوں پر ضمنی انتخابات شیڈول کیے جا چکے ہیں۔ 
خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کی دو,دو جبکہ سندھ اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ 
انتخابات سے قبل کاغذات نامزدگی، جانچ پڑتال اور اپیلوں کے بعد حتمی فہرست شائع کی جا چکی ہیں۔ یہ وہ حلقے ہیں جہاں پاکستان مسلم لیگ ن کے متعدد رہنماؤں نے ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی نو جبکہ استحکام پاکستان پارٹی، ق لیگ اور پی ٹی آئی کی ایک، ایک نشست پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔  پنجاب میں مجموعی طور پر 12 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔
اس طرح صوبائی دارالحکومت لاہور میں قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں خالی ہوئی ہیں لیکن ن لیگ کے اکثر مرکزی رہنماؤں نے ضمنی انتخابات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ 
کن نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں؟
وزیراعظم شہباز شریف نے عام انتخابات میں لاہور کے حلقہ این اے 123، قصور این اے 132 جبکہ لاہور کے صوبائی حلقوں پی پی 158 اور پی پی 164 سے فتح حاصل کی تھی۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے قصور کے این اے 132 اور صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹ چھوڑ دیں اور ایم اے 123 لاہور کی نشست اپنے پاس رکھی۔  
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صوبائی حلقہ پی پی 159 اور قومی اسمبلی کی نشست این اے 119 جیت لی تھی جس کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست خالی کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسی طرح حمزہ شہباز نے این اے 118 کی نشست سنبھال کر پی پی 147 کی نشست چھوڑ دی ہے۔ 
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما احسن اقبال قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 76 اور پی پی 54 سے کامیاب قرار پائے تھے لیکن انہوں نے پنجاب اسمبلی کی نشست خالی کر دی۔  

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز گروپ کے لوگ پارٹی پالیسی سے خوش نہیں ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے تین قومی اسمبلی کی نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ وہ سندھ سے دو قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئے جس میں انہوں نے ایک نشست خالی کر دی۔
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان نے این اے 117 کی نشست اپنے پاس رکھی اور پی پی 149 کی نشست چھوڑ دی ہے۔
ان حلقوں کے علاوہ ملک بھر میں کئی دیگر قومی اسمبلی کے حلقے بھی خالی ہو گئے ہیں جن میں حلقہ این اے 8 باجوڑ، حلقہ این اے 44 ڈیرہ اسمعیل خان، حلقہ این اے 196 قمبر شہداد کوٹ، حلقہ این اے 207 شہید بےنظیر آباد شامل ہیں۔
پنجاب میں  پی پی 22 چکوال کم تلہ گنگ، پی پی 32 گجرات‌، پی پی 36 وزیرآباد، پی پی 54 نارروال، پی پی 93 بھکر، پی پی 139 شیخوپورہ، پی پی 158 لاہور، پی پی 164 لاہور، پی پی 266 رحیم یار خان، پی پی 290 ڈی جی خان کے حلقے شامل ہیں۔
اسی طرح خیبرپختونخوا سے حلقہ پی کے 22 باجوڑ، اور حلقہ پی کے 91 کوہاٹ شامل ہیں جبکہ بلوچستان سے پی بی 20 خضدار اور حلقہ پی بی 22 لسبیلہ شامل ہیں۔ سندھ میں صوبائی اسمبلی کے پی ایس 80 دادو پر بھی ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔
مسلم لیگ ن تنازعات کا شکار
عام انتخابات 2024 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت میں شامل کئی اہم رہنما ہار گئے تھے۔ ان میں سے کچھ رہنماؤں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کو ترجیح دی تھی۔
اس کے بعد خبریں گردش کرنے لگیں کہ صوبوں اور مرکز میں حلف برداری کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے متعدد رہنماؤں کو ضمنی انتخابات میں ایڈجسٹ کرنے کی تجویز پر غور شروع کیا تھا۔ اس کے مطابق پارٹی نے پی پی 147 سے رانا مشہود، این اے 119 سے خواجہ سعد رفیق جبکہ شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی نشستوں میں سے ایک پر رانا ثنا اللہ کو ضمنی انتخابات کے لیے کال دی تاہم یہ رہنما راضی نہ ہوسکے۔ 
متعدد دعوؤں کے مطابق رانا مشہود نے پارٹی کو واضح جواب نہیں دیا جبکہ خواجہ سعد رفیق نے براہ راست معذرت کی تھی جس کے بعد سابق ایم این اے علی پرویز ملک کو این اے 119 سے ٹکٹ جاری کیا گیا۔ اسی طرح رانا ثنا اللہ نے بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے۔  سابق وفاقی وزیر جاوید لطیف کی طرف سے بھی ضمنی انتخابات میں عدم دلچسپی دیکھنے میں آئی۔

ن لیگ کے اکثر مرکزی رہنماؤں نے ضمنی انتخابات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر یہ باتیں بھی گردش کرتی رہیں کہ پارٹی کے اکثر رہنما مرکز میں حکومت لینے کے حق میں نہیں تھے اور عام انتخابات میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کو تسلیم کرتے رہے جس کی وجہ سے بیشتر لیگی رہنما الیکشن لڑنے سے گریزاں نظر آئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، رانا مشہود، جاوید لطیف پارٹی اور مرکز میں حکومت کے ساتھ چند نکات پر متفق نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اس بار ضمنی انتخابات لڑنے کے خواہشمند نہیں دکھائی دے رہے۔
اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار احمد ولید نے اُردو نیوز کو بتایا کہ الیکشن کے نتائج آنے کے فوراً بعد کئی لیگی رہنماؤں نے اپنی شکست تسلیم کی۔ ان کے بقول ’خواجہ سعد رفیق نے اپنے حریف سردار لطیف کھوسہ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے شکست مان لی تھی اور انہیں مبارکباد بھی دی۔ اُس وقت خواجہ سعد رفیق اپنے دوستوں سے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ وہ ایک بار ہار تسلیم کر چکے ہیں اس لیے اب وہ دوبارہ ضمنی الیکشن نہیں لڑیں گے۔
اسی طرح رانا ثنا اللہ کو سینیٹر بنانے کی پیشکش ہوئی لیکن وہ نہیں مانے۔ اس سے یہ تاثر گیا کہ مسلم لیگ ن میں آج بھی کئی ایسے حلقے ہیں جو پہلے سے ہی الیکشن کے حق میں نہیں تھے جن میں خود نواز شریف بھی شامل ہیں۔‘ 
ان کے مطابق ’نواز شریف کی وطن واپسی وزارت عظمیٰ کی شرط پر طے ہوئی تھی لیکن اُس وقت انہیں معلوم ہوا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں۔ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ جس طرح مہنگائی بڑھ رہی ہے اور پی ٹی آئی کو کرش کیا جا رہا ہے تو کوگوں کا شدید ردعمل آئے گا۔‘ 
احمد ولید کے مطابق مرکز میں عہدوں کی تقسیم کا ان رہنماؤں کی عدم دلچسپی میں کوئی کردار نہیں کیونکہ یہ رہنما پہلے سے ہی الیکشن کے حق میں نہیں تھے۔
ملک میں الیکشن منعقد ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے بیان دیا کہ ن لیگ غلطیوں کی نشاندہی کرکے اپنی اصلاح کرے۔ کئی رہنماؤں نے پارٹی سے مشاورت کے بعد عہدے لینے سے بھی انکار کیا۔
اب چونکہ 21 اپریل کو ملک بھر میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں لیکن مرکز اور پنجاب میں حکومت ہونے کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن عدم دلچسپی دکھا رہی ہے۔ 

ملک بھر میں عام انتخابات کے بعد خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات 21 اپریل کو ہونے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار سلمان عابد بتاتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں ابھی تک کوئی مومینٹم نہیں بنا۔ ان کے بقول ’مسلم لیگ ن کے اندر اس حوالے سے تنازعات اٹھتے نظر آرہے ہیں۔ پارٹی کے مرکزی رہنماء ضمنی الیکشن لڑنا نہیں چاہتے اور یہاں تک کہ خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کو مرکز میں عہدوں کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انہوں نے انکار کیا۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ رہنما پارٹی پالیسی سے خوش نہیں ہی‍ں‘ 
سلمان عابد اس حوالے سے ایک اور نکتہ بتاتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔
’اس وقت پارٹی نے ضمنی انتخابات میں جن لوگوں کو ٹکٹیں دی ہیں ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق مریم نواز کی لابی سے ہے جبکہ حمزہ شہباز کی لابی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس لیے اب ان پر مریم نواز کا کنٹرول زیادہ ہے۔‘ 
سلمان عابد سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شہباز گروپ کے لوگ مجموعی طور پر پارٹی پالیسی سے خوش نہیں ہیں۔ ’اس گروپ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں جو کچھ ہوا ہے اس سے پارٹی کو نقصان ہوا۔ موجودہ منظر نامے سے تو لگتا ہے کہ پارٹی مزید تقسیم ہوگی۔‘ 
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پارٹی کیا کر سکتی ہے؟ اس حوالے سے سلمان عابد نواز شریف اور مریم نواز کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ عام انتخابات میں جس طرح نتائج تبدیل ہوئے اب یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ’اس لیے اب یہ مسلم لیگ ن کے لیے بڑا چیلنج ہے کہ آنے والے ضمنی انتخابات میں یہ کلین سویپ کرتی ہے یا پھر بڑا اپ سیٹ دیکھنے کو ملے گا؟‘

شیئر: