Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان: کار فنانسنگ میں نمایاں کمی کیوں دیکھنے میں آرہی ہے؟

رواں مالی کے 8 ماہ میں 59 ہزار 699 گاڑیاں فروخت ہوئی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس کے رہائشی 45 سالہ محمد زوہیب ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینجر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے ایک بینک سے یارس گاڑی لیزنگ پر لی تھی۔ اچھی تنخواہ ہونے کی وجہ سے انہیں گاڑی بآسانی مل گئی تھی۔ بینک سے طے شدہ فارمولے کے تحت سسٹم اچھے سے چل رہا تھا۔ لیکن گزشتہ برس پاکستان میں معاشی صورتحال خراب ہوئی اور ان کا بجٹ آؤٹ ہو گیا۔
ملکی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اتحادی حکومت نے بہت سے اہم فیصلے لیے تھے جن میں ایک ملک میں شرح سود میں اضافہ بھی تھا۔ 18 فیصد مارک پر لی گئی گاڑی دیکھتے ہی دیکھتے 22 فیصد پر پہنچ گئی، مارک اپ ریٹ بڑھنے کے ساتھ ساتھ بینک چارجز اور دیگر ٹیکس بھی بڑھ گئے۔
محمد ذوہیب کا کہنا تھا کہ ابتدا میں تو یہ اندازہ نہیں ہوا لیکن کچھ ماہ میں ہی گھر کا بجٹ آؤٹ ہونے لگا اور مجبوراً دو ماہ قبل اپنی گاڑی ایک دوست سے ادا شدہ قسط کے پیسے وصول کر کے اسے فروخت کر دی۔ اب گھر میں ایک ہی گاڑی ہے اسی میں فیملی کو مینج کر رہے ہیں۔ بچوں کے سکول سے دفتر اور گھر کے دیگر کام اسی گاڑی پر کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بینک سے قرض پر گاڑی خریدنے کے رجحان میں مسلسل کمی رپورٹ کی جا رہی ہے۔ سال 2024 کے ابتدائی ماہ میں جاری کیے گئے اعداد و شمار بھی گزشتہ برس کے نمبرز سے کچھ خاص مختلف نظر نہیں آ رہے ہیں۔
آٹو سیکٹر سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق پاکستان میں شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے گاڑیوں کی بینک سے خریداری کا رجحان کم ہو رہا ہے۔
پاکستان آٹو موبائل ایسوسی ایشن ( پاما) کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں مسلسل کمی رپورٹ کی جا رہی ہے۔ پاما کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں اب تک 41 فیصد گاڑیوں کی فروخت میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے 8 ماہ میں 59 ہزار 699 گاڑیاں فروخت ہوئی ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال میں 8 ماہ کے دوران 1 لاکھ ایک ہزار 426 گاڑیاں فروخت ہوئی تھی۔ پاما کے جاری کردہ اعداد شمار میں بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تقریبا 41 فیصد کم ہے۔
پاما رپورٹ کے مطابق 13 سو اور اس سے زائد ہارس پاور کی گاڑیوں میں ماہانہ بنیادوں پر چار فیصد کی کمی  ہوئی ہے، ایک ہزار سی سی کی گاڑیوں کی فروخت میں 25 فیصد کمی دیکھی گئی ہے اور ایک ہزار سی سی سے کم ہارس پاور کی گاڑیوں میں 14 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پاکستان میں گاڑیاں اسمبلنگ کرنے والی کمپنی انڈس موٹرز کی گاڑیوں کی فروخت میں رواں مالی سال کے 8 ماہ میں 49 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، گزشتہ مالی سال کی 8 ماہ میں انڈس موٹرز نے 23 ہزار 680 گاڑیاں فروخت کی تھی جبکہ رواں مالی سال میں یہ تعداد 11 ہزار 996 رہی ہے۔
پاک سوزکی کمپنی کی گاڑیوں کی فروخت میں 8 ماہ کے دوران 40 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے 8 ماہ میں فروخت ہونے والی کل گاڑیوں کی تعداد 50 ہزار 294 تھی جبکہ رواں مالی سال کے 8 ماہ میں یہ تعداد 31 ہزار 432 رہی ہے۔
ہنڈا اٹلس کی فروخت میں 50 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ سال 2023 کے مالی سال کے 8 ماہ میں ہنڈا اٹلس کی کل 15 ہزار 443 گاڑیاں فروخت ہوئی تھی اور 2024 مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں یہ تعداد کم ہوکر 7 ہزار 741 کی سطح پر آ گئی ہے۔ اسی طرح دیگر کمپنیوں کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔

آٹو سیکٹر کے ماہرین کے مطابق 22 سے 24 فیصد پر صارف کے لیے گاڑی لینا آسان نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گاڑیوں کی فروخت میں اتنی کمی کی وجہ کیا ہے؟
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجہ پاکستان میں شرح سود میں اضافہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں نوکری پیشہ یا کاروبار کرنے والے فرد کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ گاڑی بینک سے لون لے کر خریدے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی ماہ سے شرح سود میں مسلسل اضافے کی وجہ سے بینک سے لون لے کر گاڑی خریدنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نوکر پیشہ افراد کے لیے کچھ ماہ میں شرح سود کے اضافے کے بعد بجٹ بنانا آسان نہیں ہے تو دوسری جانب کاروبار کے حالات بھی بہتر نہ ہونے کی وجہ سے کمپنیاں بھی نئی گاڑیاں بینک کے ذریعے لینے سے کترا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 سے 24 فیصد پر کار فنانسنگ ہو رہی ہے۔ اس ریٹ پر صارف کے لیے گاڑی لینا آسان نہیں ہے۔ نئی گاڑی خریدنے والے اتنے مارک اپ پر گاڑی نہیں خرید رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی فنانسنگ پر 30 لاکھ کا ایک لاک بھی لاگو کیا گیا ہے اور موجودہ حالات میں گاڑیوں کی قیمتیں 30 لاکھ سے بہت اوپر جا چکی ہے۔
مشہود خان کا مزید کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافے کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہونا بھی گاڑیوں کی فروخت کو متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں کا تقریباً سامان باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں گزشتہ دنوں میں ڈالر کی اونچی اڑان نے کار ساز کمپنیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ کمپنیوں کو طے شدہ رقم پر صارف کو گاڑی دینا مشکل ہو گیا ہے۔ کئی کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتوں میں وقفے وقفے سے اضافہ بھی کیا ہے اور کمی بھی کی ہے لیکن کمی کے مقابلے میں اضافہ اتنا زیادہ ہوا ہے کہ گاڑی کی خریداری کرنے والوں کا بجٹ متاثر ہوا ہے اور گاڑیوں کی خریداری کم کی گئی ہے۔‘
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان کے مطابق پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی ایک اہم وجہ بیرون ممالک سے استعمال شدہ گاڑیوں کا پاکستان میں درآمد ہونا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو آٹو سیکٹر کے بارے میں سوچنا ہو گا، ملک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ، شرح سود بڑھنے اور درمیانے طبقے کی قوت خرید متاثر ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

سوزوکی گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: آٹو)

عبدالوحید خان نے کہا کہ حکومت کو پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کے بارے میں مثبت سوچنا ہو گا۔ حکومت اگر اس جانب توجہ دے گی اور آٹو سیکٹر کو سہولیات فراہم کرے گی تو یہ صنعت پروان چڑھے گی اور ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والوں کو سستی اور معیاری گاڑی بھی میسر ہو گی۔
آل پاکستان موٹر امپورٹر ایسوسی ایشن کے رہنما محمد کامران مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والوں کی بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کار ساز کمپنیاں گاڑی کا مکمل سامان بیرون ممالک سے امپورٹ کرکے ملک میں گاڑیاں اسمبل کر رہے ہیں۔ ’حکومت سے بڑی بڑی مراعات لیے بیٹھی یہ کار ساز کمپنیاں گاڑیاں بناتی نہیں بلکہ گاڑیوں کو جوڑتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ملک میں گاڑیاں درآمد کرنے کی باقاعدہ اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اووسیز پاکستانی اپنے کسی عزیز کو گاڑی گفٹ کرتا ہے یا اپنے استعمال کے لیے گاڑی ملک میں لاتا ہے تو ہی گاڑی ملک میں آتی ہے اس پر بھی اسے بھاری ڈیوٹیاں ادا کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا اگر مقامی سطح پر اچھی اور معیاری گاڑی سستے داموں ملے گی تو کوئی بھی باہر ملک سے گاڑی کیوں پاکستان لائے گا؟ 
انہوں نے کہا کہ اگر مقامی سطح پر آٹو سیکٹر کو کامیاب بنانا ہے تو ملک میں گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنیاں ملک میں مکمل گاڑی بنانے کا انتظام کرے۔ 

شیئر: