Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین الیکشن: بی جے پی انتخابی مہم میں کرکٹ کا استعمال کیسے کر رہی ہے؟

حکمراں جماعت بی جے پی کو توقع ہے کہ وہ تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے میدان مار لے گی(فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں الیکشن سے قبل وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مہم پر مختلف طرح کی آراء سامنے آ رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ناقدین حمکراں جماعت کی جانب  سے الیکشن مہم میں کرکٹ کے استعمال پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے بی جے پی کی حکومت انڈین کرکٹ بورڈ کے ساتھ مل کر اس کھیل کی مقبولیت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
انڈیا میں جمعے کو عام انتخابات کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ یہ انتخابات چھ ہفتے کے دورانیے میں چھ مراحل میں مکمل ہوں گے۔
حکمراں جماعت بی جے پی کو توقع ہے کہ وہ تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے میدان مار لے گی۔
نریندر مودی کی جماعت کے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) سے گہرے روابط ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کھیل کے ذریعے سیاسی حریفوں کو میدان سے آؤٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کرکٹ سے جڑے امور پر نگاہ رکھنے والی صحافی شردا اُگرا نے کہا کہ ’یہ کھیل دیو ہیکل قوم پرستی کے لیے ایک سواری کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کنٹرول کا مطلب صرف یہ نہیں کہ بورڈ کے سینیئر اہلکاروں کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے بلکہ انڈین کرکٹ کو سیاسی پیغامات کے ترسیل اور ترویج کے استعمال کرنا بھی اس کا حصہ ہے۔‘

انڈیا میں جمعے کو عام انتخابات کا آغاز ہونے جا رہا ہے جو چھ مراحل میں مکمل ہو گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بی سی سی آئی کے سربراہ جے شاہ وزیراعظم نریندر مودی کے دستِ راست شمار ہونے والے انڈیا کے وزیرداخلہ امیت شاہ کے بیٹے ہیں۔ خود امیت شاہ اس سے قبل ریاست گجرات کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
ارون دُھمل انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے چیئرمین ہیں۔ وہ وزیر کھیل انورنگ ٹھاکر کے بھائی ہیں جو بی سی سی آئی کے سابق چیئرمین کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
شردا اُگرا نے مزید کہا کہ ’پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ صرف ایک ہی سیاسی جماعت کے کنٹرول میں ہے۔‘

بعض اندازوں کے مطابق انڈیا میں کرکٹ سے ہونے والی اوسط آمدن بالی وُڈ سے بھی زیادہ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دا آسٹریلین نیوز پیپر کے کرکٹ تجزیہ کار گیڈون ہیے نے بی جے پی کی جانب سے کھیل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کو ’اپنے مفادات کے لیے بے شرمی کا مظاہرہ‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کرکٹ بورڈ ان کئی اداروں میں سے محض ایک ہے جسے انہوں نے اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ یہ کھیل اکثر افراد کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔‘
سنہ 2019 میں نئی دہلی کے کرکٹ سٹیڈیم کو بی جے پی کے نمایاں رہنما اور سابق وزیرخزانہ ارون جیٹلی کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ ارون جیٹلی کے بیٹے روہان جیٹلی سٹیٹ کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں۔
اس سے قبل 137 برس تک اس گراؤنڈ کا نام فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم رہا جو کہ 14ویں صدی کے ایک انڈین مسلم حکمران تھے۔
اسی طرح ماضی قریب میں احمد آباد کے بڑے کرکٹ سٹیڈیم کو وزیراعظم نریندر مودی کے نام سے موسوم کیا گیا۔
انڈیا میں کرکٹ کو ایک بڑا کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق انڈیا میں کرکٹ سے ہونے والی اوسط آمدن بالی وُڈ سے بھی زیادہ ہے۔
دوسری جانب آئی پی ایل دنیا کی امیر ترین کرکٹ لیگ ہے جس نے 2023 سے 2027 تک کے ٹی20 ٹورنامنٹس کی نشریات اور ڈیجیٹل رائٹس چھ ارب 20 کروڑ ڈالر میں میں فروخت کر کے بی سی سی آئی کی دولت میں بڑا اضافہ کیا ہے۔

بی سی سی آئی کے سربراہ جے شاہ انڈیا کے وزیرداخلہ امیت شاہ کے بیٹے ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئی سی سی کی 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے کرکٹ شائقین میں سے 90 فیصد کا تعلق برصغیر سے ہے۔ اس لیے یہ کھیل یہاں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
آئی سی سی کے ضوابط کے مطابق کرکٹ بورڈ کا سیاسی مداخلت سے پاک ہونا ضروری ہے اور ماضی میں زمباوے اور سری لنکا پر اس بنیاد پر پابندیاں بھی عائد کی جا چکی ہیں۔
لیکن انڈیا کے حوالے سے اے ایف پی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا آئی سی سی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

شیئر: