Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منوج باجپائی، جوان جذبے والا بے مثل اداکار جو کردار میں ڈھل جاتا ہے

فلم ’علی گڑھ‘ نے فلم بینوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے (فوٹو نیوز 18)
یہ رواں ہزاریے کے اوائل کی بات ہے۔ مشہور ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی اپنی فلم ’دیوداس‘ کے اہم کردار چنی لال کے لیے موزوں اداکار کی تلاش میں تھے۔ ان کا نظر انتخاب منوج باجپائی ٹھہرے۔ وہ ان کی اداکاری کے معترف تھے۔ انہوں نے منوج باجپائی کو فلم میں کام کرنے کی پیشکش کی مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب اداکار نے چنی لال کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔
اداکار نے اپنی تمام فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور معاون اداکار کے طور پر کام کرنے سے ان کی ساکھ متاثر ہوتی۔ اس کردار کے لیے بعد ازاں جیکی شیروف کا انتخاب کیا گیا۔
تاہم منوج باجپائی ہمیشہ سے ہی دیوداس میں کام کرنا چاہتے تھے اور ان کی ترجیح فلم کا مرکزی کردار تھی۔ انہوں نے ای ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے ہی دیوداس میں کام کرنا چاہتا تھا لیکن کسی نے مجھے کاسٹ کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ مجھے یہ کردار ادا کر کے خوشی ہوگی۔‘
یہ سال 2015 کی بات ہے جب ایک کم بجٹ کی فلم ’علی گڑھ‘ سینما گھروں کی زینت بنی۔ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی مگر اس نے فلم بینوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم بی ڈی پر ’علی گڑھ‘ کی ریٹنگ ’دیوداس‘ سے بہتر ہے۔ اس فلم میں منوج باجپائی نے مرکزی کردار ادا کیا اور جب فلم کا 20 ویں بوسان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ورلڈ پریمیئر ہوا تو شائقین نے کھڑے ہوکر داد دی۔
اس فلم نے پروفیسر شری نواس رام چندر سیرس کے کردار کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ یہ ایک حقیقی کردار تھا مگر یہ فلم اس وقت تنازعات کا شکار ہوگئی جب اس کے نام پر اعتراض کیا گیا اور اس کی نمائش روک دی گئی جس کی وجہ اس فلم کا متنازع موضوع تھا۔
شہر کی میئر شکنتلا بھارتی کا موقف تھا کہ اس فلم کا نام تبدیل کیا جانا چاہیے کیوں کہ اس کی وجہ سے شہر کی بدنامی ہو رہی ہے۔
منوج باجپائی نے اپنے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرا یہ ماننا ہے کہ علی گڑھ نے ایک ایکٹر اور انسان کے طور پر مجھے بہتر بنایا ہے۔ میں اس کردار کو دوسرے اداکاروں سے مختلف طور پر دیکھتا ہوں جو لیجنڈری گلوکارہ لتا منگیشکر کا فین ہے۔ وہ اپنی نجی زندگی کے تحفظ کے علاوہ وہسکی اور لتاجی کی آواز کے حوالے سے اپنے جنون پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ یہ ایک خوشگوار روحانی سفر تھا۔‘
گذشتہ سال جب یہ دعوے کیے گئے کہ منوج باجپائی کے اکاؤنٹ میں 170 کروڑ روپے ہیں تو اداکار نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جس طرح کا کام کرتا ہوں تو یہ میرے لیے ناممکن ہے کہ میرے اکاؤنٹ میں اس قدر رقم ہو جیسا کہ ’علی گڑھ‘ اور ’بھونسلے‘ وغیرہ۔ میں اب بھی اس کوشش میں ہوں کہ میں اپنے اکاؤنٹ میں کچھ رقم محفوظ رکھ سکوں۔‘

منوج باجپائی نے  فلم ’دروکال‘ میں مختصر کردار ادا کر کے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا (فوٹو انڈیا ٹوڈے)

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ان رپورٹس کے پڑھنے کے بعد وہ یہ امید رکھتے ہیں کہ پروڈیوسرز ان کی فیس میں اضافہ کر دیں گے۔‘
یہ کہانی ایک ایسے اداکار کی ہے جس نے بالی ووڈ میں اپنی اداکاری کے بل بوتے پر وہ مقام حاص کیا ہے جو معدودے چند اداکاروں کو ہی حاصل ہو سکا ہے۔ وہ دو نیشل فلم ایوارڈز اور تین فلم فیئر ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔
انڈین ریاست بہار کے ایک گاؤں میں 1969 میں آج ہی کے روز پیدا ہونے والے منوج باجپائی بچپن سے ہی فلموں میں اداکاری کرنے کا خواب دیکھا کرتے تھے، لیکن ان کے لیے یہ سفر آسان ثابت نہیں ہوا۔ وہ 17 سال کی عمر میں دہلی آگئے تاکہ نیشنل سکول آف ڈرامہ میں داخلہ لے سکیں مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ان کے داخلے کی درخواست چار بار رد کی گئی۔
انہوں نے اپنے اس تجربے کے بارے میں اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نیشنل سکول آف ڈرامہ میں داخلے کی درخواست بارہا رد ہونے پر ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے اور خودکشی کرنے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔
انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ پانچویں جماعت میں تھے جب سے وہ اداکار بننے کا خواب دیکھ رہے تھے اور ان کے سامنے کوئی پلان بی نہیں تھا۔
انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ ’میں نیشنل سکول آف ڈرامہ میں داخلہ لینے گیا تو ان تین برسوں میں کافی تجربہ کار ہو چکا تھا لیکن میری درخواست اس کے باوجود رد کر دی گئی جس کے بعد ایک ماہ تک میں یہ محسوس کرتا رہا کہ مجھ سے میری ہر چیز چھن چکی ہے کیوں کہ میرے سامنے کوئی دوسرا پلان نہیں تھا۔ میں نے کبھی پلان بی بنایا ہی نہیں تھا۔‘
’اس ایک ماہ کے دوران میرے دوستوں نے میری مدد کی اور مجھے ڈپریشن سے نکالا اور میں نے نئے راستے کی تلاش کرنا شروع کی اور بالآخر ’منڈی گروپ‘ کے نام سے کام کر رہے ایک تھیٹر گروپ میں شمولیت اختیار کر لی جو نیشنل سکول آف ڈرامہ کے سابق طالب علموں نے قائم کیا تھا جہاں سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔‘
منوج باجپائی نے 1994 میں ہدایت کار شیکھر کپور کی فلم ’دی بینڈٹ کوئین‘ اور بے مثل ہدایت کار گووند نہلانی کی فلم ’دروکال‘ میں مختصر کردار ادا کر کے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے موخرالذکر فلم میں اگرچہ ایک منٹ کا کردار ادا کیا مگر اس فلم میں ان کو اوم پوری اور نصیر الدین شاہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا جن کے نقش پا پر چلتے ہوئے وہ نیشنل سکول آف ڈرامہ میں داخلہ لینے کے لیے کوشاں رہے تھے۔

فلم ’ستیہ‘ نے منوج باجپائی کے لیے بھی ترقی کے دروازے کھول دیے (فوٹو انڈینب ایکسپریس)

اداکار اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی جستجو کرتے رہے۔ وہ اگلے چار برس تک بریک تھرو کے منتظر رہے۔ انہوں نے اس دوران دہلی میں ایک لڑکی سے شادی کی جو زیادہ عرصے نہیں چل سکی اور ان دونوں کا یہ رشتہ طلاق پر منتج ہوا۔
یہ 1998میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار رام گوپال ورما کی فلم ’ستیہ‘ تھی جس نے بہت سے دوسرے تخلیق کاروں کی طرح منوج باجپائی کے لیے بھی ترقی کے دروازے کھول دیے۔ اس فلم میں اداکار گینگسٹر بھیکھو مہاترے کے کردار میں نظر آئے اور فلم بینوں کے علاوہ فلم ناقدین کی توجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اداکار کو اس فلم میں کام کرنے پر بہترین معاون اداکار کا نیشنل ایوارڈ اور بہترین اداکار کے فلم فیئر کرٹکس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس فلم کے مکالمے انوراگ کیشپ نے لکھے تھے جن کا نام مکالمہ نگار کے طور پر اس فلم کے لیے منوج باجپائی نے ہی تجویز کیا تھا۔
آنے والے برسوں میں انوراگ کیشپ نے جب اپنی یادگار فلم ’گینگز آف واسع پور‘ بنائی تو اس میں منوج باجپائی نے مرکزی کردار ادا کیا۔
شیام بینیگل گزشتہ دہائی کے اوائل میں جب پاکستان کے دورے پر آئے تو مصنف کو ان سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں واضح طور پر یہ کہا کہ وہ رام گوپال ورما کو کوئی بہت بڑا ہدایت کار نہیں مانتے۔
ان کا یہ نقطہ نظر اس لیے بھی درست ثابت ہوا کہ رام گوپال ورما جلد ہی ایک ہی طرز کی فلمیں بنائے جانے کے باعث اپنی انفرادیت سے محروم ہو گئے۔ تاہم ’ستیہ‘ ایک ایسی فلم تھی جس نے راتوں رات رام گوپال ورما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس فلم کی کاسٹ میں کوئی نمایاں اداکار نہیں تھا مگر یہ منوج باجپائی سمیت انوراگ کیشپ اور فلم کی دیگر کاسٹ کے لیے ایک اہم بریک تھرو ثابت ہوئی۔
فلم کے ایک منظر میں کیمرا بھیکھو مہاترے پر فوکس کرتا ہے جو اپنے مخالفین کو ختم کر دینے کے بعد ممبئی کے ساحل سمندر پر ایک چٹان پر کھڑا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے چیخ کر کہتا ہے، ’ممبئی کا کنگ کون؟‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ منوج باجپائی کو فلم کے مرکزی کردار یعنی ’ستیہ‘ کے لیے سائن کیا گیا تھا لیکن جیسے ہی فلم کی کہانی آگے بڑھی تو رام گوپال ورما نے یہ محسوس کیا کہ بھیکھو مہاترے کا کردار منوج باجپائی سے بہتر کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکے گا۔

منوج باجپائی 2012 میں ریلیز ہونے والی فلم کلٹ فلم ’گینگز آف واسع پور‘ میں سردار خان کے کردار میں نظر آئے۔ (فوٹو بالی وڈ لائف)

منوج باجپائی مرکزی کردار سے ہٹائے جانے پر مایوس تھے لیکن اس کردار نے بالی ووڈ میں ان کے لیے مشکلات ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس فلم کے بعد منوج باجپائی نے ’کون‘ اور ’شول‘ میں کام کیا۔ ان دونوں فلموں کی کہانی ان کے دوست انوراگ کیشپ نے لکھی تھی۔ ان کا یہ سفر رُکا نہیں، انہوں نے زبیدہ، عکس، روڈ اور راج نیتی سمیت متعدد فلموں میں اہم کردار ادا کیے اور اپنی ایک منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔
منوج باجپائی 2012 میں ریلیز ہونے والی فلم کلٹ فلم ’گینگز آف واسع پور‘ میں سردار خان کے کردار میں نظر آئے۔
انہوں نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں خوش قمست رہا ہوں کہ مجھے حقیقتاً اچھا کام کرنے کا موقع ملا۔ تاہم میں اس سے بھی بہتر کام کرنا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ میں زیادہ دلچسپ، غیرمعمولی سکرپٹ اور کہانیوں پر مبنی فلموں میں کام کروں جو فلم بینوں نے اس سے قبل نہ دیکھی ہوں۔ ایسے کردار ادا کروں جو میں نے ادا نہ کیے ہوں۔ تلاش ہمیشہ جاری رہتی ہے اور جیسا کہ کہتے ہیں، یہ سب آپ کے انتخاب پر منحصر ہے۔‘
رواں سال منوج باجپائی کو بالی ووڈ سے منسلک ہوئے تین دہائیاں مکمل ہو چکی ہیں۔ وہ عرفان خان اور کے کے مینن کی طرح ایک ایسے اداکار ہیں جنہوں نے بالی ووڈ کو ایک منفرد آہنگ دیا ہے جس کی ایک مثال ستیہ جیت رے کی مختصر کہانیوں پر مبنی ویب سیریز ’رے‘ ہے جس کے ایک حصے ’ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ میں انہوں نے مسافر علی کا منفرد کردار ادا کیا ہے۔
بالی ووڈ کا یہ بے مثل اداکار جواں جذبوں کے ساتھ آج بھی ’ایکشن‘ کہے جانے پر اپنے کردار میں ڈھل جاتا ہے اور فلم بینوں کو اپنی ایکٹنگ سے محظوظ کرتا ہے۔

منوج باجپائی ایک ایسے اداکار ہیں جو آج بھی اپنی شرائط پر کام کرتے ہیں (فوٹو مڈ ڈے)

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ منوج باجپائی اسی ایکٹنگ ایجنسی کے ذریعے بالی ووڈ میں آئے تھے جس نے شاہ رُخ خان کا انتخاب کیا تھا، تاہم اداکار نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ان کی شاہ رُخ خان سے کبھی دوستی نہیں رہی۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ دونوں چوں کہ الگ الگ دنیاؤں کے لوگ ہیں تو اس لیے ان کی شاہ رُخ خان سے ملاقات نہیں ہوتی۔
منوج باجپائی نے اپنی پہلی ناکام شادی کے کئی برس بعد اداکارہ شبانہ رضا سے شادی کی جس سے ان کی ایک بیٹی ہے۔
اداکار کو 2019 میں حکومتی اعزاز پدما شری سے نوازا گیا جو ان کی خدمات کا ایک ادنی سا اعتراف ہے۔ ان کی فلموں نے بالی ووڈ میں متوازی سینما کی روایت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور شائقین فلم ان کی فلموں کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ ایک ایسے اداکار ہیں جو آج بھی اپنی شرائط پر کام کرتے ہیں۔  

شیئر: