ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کا رفیق بن کر کام کرے نہ کہ فریق بن کر،رفاقت سے حوصلہ ملتا ہے
* * * * مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔حیدرآباد دکن * * *
اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں صلاحیتیں مختلف رکھی ہیںجن کے باہم ملنے سے ہی دنیا کا نظام چل رہا ہے ۔ایک شخص میں سارے اوصاف نہیں پائے جاتے ‘کسی میں کچھ صلاحیتیں ہیں اور کسی میں کچھ‘ پھر ایک دوسرے کے تعاون سے ہر ایک کی ضرورت پوری ہوتی ہے ۔اس کو سمجھنے کے لئے دنیا کے معاشرتی نظام پر غور کیجئے کہ کوئی ڈاکٹر ہے جو علاج و معالجہ کی ضرورت پوری کرتا ہے تو کوئی انجینیئر ہے جو نقشے تیار کرتا ہے یا اپنے علم و فن کے اعتبار سے لوگوں کی خدمت کررہا ہے ۔ کوئی تاجر ہے جو تجارت کے ذریعے ضروریات زندگی مہیا کرتا ہے تو کوئی زراعت کے ذریعے غذا فراہم کررہا ہے ‘کوئی ملازم ہے تو کوئی مالک ۔غرض دنیا کا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی ضرورت کی ساری چیزیں خود مہیا کرتاہے۔ٹھیک اسی طرح قوم کی خدمت اور تحفظ دین کے لئے اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں صلاحیتیں الگ الگ رکھی ہیں جن کے باہم ملنے سے سیکڑوں سال کا کام چند دہوں میں ہو سکتا ہے ۔
اگر ان میں آپس میں خلیج پیدا ہوجائے توملت کو نفع کم اور نقصان زیادہ ہوگااس لئے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کا رفیق بن کر کام کرے نہ کہ فریق بن کر ۔رفاقت سے حوصلہ ملتا ہے اور فطری طور پرجوش عمل میں اضافہ ہوتا ہے ۔ رسول اکرم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں اخیر میںتاکید فرمائی تھی کہ جو یہاں حاضر ہیں ان کوچاہئے کہ یہ باتیں ان تک پہنچادیں جو کسی وجہ سے یہاں حاضر نہیں ہوسکے اس لئے کہ جن کو بات پہنچائی جائے بسااوقات وہ سننے والوں سے اس کو زیادہ یاد رکھنے والے اور اس سے زیادہ مسائل اخذ کرنے والے ہو سکتے ہیں ۔اگر سننے والے نے اسے اپنے پاس ہی رکھا تو اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے یا ممکن ہے کہ اس کا نفع تام لوگوں کو حاصل نہ ہو۔گویا آپ نے اس میں ایک دوسرے کی مدد سے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی تلقین کی اور اس پر خیرالقرون سے عمل چلتا رہا ۔
اسی وجہ سے شریعت کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہا ۔حضراتِ محدثین فقہا ‘ مفسرین ومتکلمین اور دیگر اہل فنون کے باہم تعاون سے وہ کام انجام پایا جس کا آج سارے وسائل کے باوجود بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔یہ ہمارا مشاہدہ بھی ہے کہ 10 انگلیوں کے ذریعے کسی چیز کو پکڑا جائے تو اس میں گرفت زیادہ ہوتی ہے اور جتنی انگلیاں کم ہوں گی اسی قدر گرفت ڈھیلی ہوتی جائے گی۔انگلیوں کے باہم ملنے سے وہ طاقت پیدا ہوتی ہے جو تنہا انگلی میں نہیں حالانکہ یہ انگلیاں سائز میں متفاوت ہیں مگر ضرورت ہر ایک کی ہے اور ہر ایک کے ملنے سے ہی ہاتھ میں مضبوطی آتی ہے ۔اسی مقصد کے تحت اللہ تعالیٰ نے یہ کامل10 انگلیاں عطا کی ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے معاشرے میں مختلف صلاحیتوںکے حامل افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے اپنے طور پر دین و ملت کی خدمت انجام دے رہے ہیںلیکن ان کے درمیان باہم تال میل نہیں جس کے سبب ان کی خدمات کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہا ۔ظاہر ہے کہ انفرادی طور پرجو کام کیا جائے اس کی زندگی بہت تھوڑی ہوتی ہے ‘اس میں نہ مطلوب تاثیر ہوتی ہے اور نہ کوئی دم خم ‘کچھ ہی دنوں بعد ایسے کام سے روح نکلتی نظر آتی ہے لیکن اگر اسی کو اجتماعیت کے ساتھ منصوبہ بند طریقے پر کیا جائے اور ایک دوسرے کا تعاون شامل حال ہو تو کام میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور غیر معمولی طور پر اسکے اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن یہ ملت اسلامیہ کیلئے بڑا المیہ ہے کہ وہ مسلکی ‘گروہی ‘خاندانی ‘علاقائی ‘ادارتی اور نہ جانے کتنے حصوں میں بٹی ہوی ہے جس نے مسلمانوں کے کاز کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ دینی اور عصری ادارے بھی اسی تقسیم کی زد میں ہیں۔دینی مدارس اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے درمیان کوئی تال میل نہیں ۔
دونوں2مختلف سمتوں پر رواں دواں ہیں حالانکہ علماء اور دانشور ان دونوں 2طبقے یا 2 فرقے نہیں بلکہ دونوں ہی ملت کے اثاثہ ہیں۔مدارس سے وابستہ افراد کو دین و شریعت میں مہارت ہے تو اسکولس اور کالجوں کے لوگ حالات کے رخ میں ملت کی رہنمائی کا اچھا ہنر جانتے ہیں ۔ٹکنالوجی اور جدید تکنیک کا استعمال کرکے مسلمانوں کی معاشی ‘سیاسی ‘تعلیمی اور مختلف ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیوی حالات کی نزاکتوں کو جس طرح یہ لوگ سمجھ سکتے ہیں ارباب مدارس اس کو نہیں سمجھ سکتے یا جس طرح عصری اداروں کے افراد کسی چیز کی حقیقت اور ماہیت کو پہچانتے ہیں اس طرح دینی مدارس کے لوگ نہیں جان سکتے ۔ایسے وقت اگر دونوں کی صلاحتیں آپس میں مل جائیں اور ایک دوسرے کی جانکاری کی مدد سے قوم کی خدمت کی جائے تو بہت بڑا کام انجام پاسکتا ہے ،جیسے تجارت کی کوئی نئی شکل آج ایجاد ہوجائے تو اس کی تصویر کشی اور مکمل تحقیق عصری تعلیم کے حامل افراد کریں اور ماہرین شریعت مکمل طور پر سمجھنے اور جاننے کے بعد اس پر جواز یا عدم جواز کا حکم لگائیں ‘تو اس سے قوم کی صحیح رہنمائی ہوگی اور غلطی کا امکان کم ہوگا۔
اس طرح تمام شعبوں میں آپسی تعاون سے ملت کا مفاد دوچند ہو سکتا ہے‘اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی اور عصری اداروں کے درمیان جو خلیج ہے اس کو کم سے کمتر کیا جائے اور ایک دوسرے کے علوم و فنون سے استفادہ کیا جائے ‘آپسی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور ایک دوسرے کی قدرکی جائے ‘اس سے یقینی طور پر مسلمانوں کی ترقی میں اضافہ ہوگا اور دینی و دنیوی دونوں اعتبار سے کامیابی حاصل ہوگی۔شاید یہی بنیادی وجہ ہے کہ سرخیلِ دیوبند شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ؒ نے جامعہ ملیہ دہلی کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جب اس کا افتتاح عمل میں آیا توحضرت نے اپنے تاریخی خطبۂ افتتاحیہ میں فرمایا تھا: آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوںگے کہ میرے بزرگوں نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوم کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا ( موجِ کوثر)۔ دارالعلوم دیوبند کے بانی اور عظیم قائد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ایک تقریر میں عصری علوم و فنون سے متعلق اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا : ’’اس کے بعد ( یعنی دینی علوم سے فراغت کے بعد ) اگر طلبا ئے مدرسہ ہذا ،مدارسِ سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ کو حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ مؤ ید ہوگی۔‘‘ ( روداد 1290 ھ ) ۔
اسی طرح انگریز کے زمانہ میں جبکہ ملک میں انگریزی زبان سے بھی نفرت تھی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ سے انگریزی کا لجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے متعلق فتویٰ لیا گیا تھا تو انہوں نے بزورکہا : ’’ جائو انگریزی کالجوں میں پڑھو اور انگریزی زبان سیکھناشرعاً ہر طرح جائز ہے۔ ‘‘ ( دینی مدارس اور عصر حاضر) ۔ اس طرح بہت سے اقتباسات ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کبھی دونوں اداروں میں تفریق نہیں کی بلکہ دونوں کی افادیت کے قائل تھے اور عملی اعتبار سے بھی اس کا اظہار ہوتا تھا ۔ان حضرات نے دونوں اداروں اور دونوں سے وابستہ افراد کو ملت کا اثاثہ سمجھا ‘اسی لئے لوگوں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے استفادہ کی تلقین فرماتے تھے۔ حضرت شیخ الہند ؒ نے جامعہ ملیہ قائم کرکے صاف طور پر یہ واضح فرمادیا کہ یہ بھی مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے ‘ان سے علماء کا رابطہ مضبوط ہونا چاہئے ‘آپس میں بھید بھاؤ اور تنگ نظری سے قطع نظر مل جل کر کام کرنا چاہئے ۔
جس طرح کھیل کود کے میدان میں پاسنگ سسٹم ہوتا ہے ‘ایک دوسرے کو گیند پار کرنے سے ہی گول ہوتا ہے اور کامیابی ملتی ہے تنہا ایک شخص فٹ بال کو لے کر گول نہیں کرسکتا ٹھیک اسی طرح اجتماعیت کے بغیر محض چند لوگوں کے ذریعے دین کا کوئی اہم کام انجام نہیں دیا جا سکتا ۔فریق بننے کے بجائے رفیق بن کر پاسنگ نظام کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ شروع میں دیوبند اور علی گڑھ کے اشتراک نے ملک و ملت کو غیر معمولی نفع پہنچایا ۔دونوں کی موجودگی نے اپنے اپنے میدان میں مسلمانوں کو تقویت پہنچائی اور دونوں سے بڑا سہارا ملا ۔ دونوں کے وجود سے ہی قوم کے تحفظ اور تبلیغ واشاعت دین کی راہ ہموار ہوئی جس کا ارباب بصیرت نے کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔
رسول اکرمنے صحابۂ کرامؓ سے ان کی استعداد ولیاقت کے اعتبار سے کام لیا۔کسی سے سرحد کی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مقابلے کا تو کسی سے قضا اور امامت کا ‘کسی کو صدقات و زکوٰۃ کی وصولی کی ذمہ داری سپرد کی تو کسی کو تعلیم قرآن اور تبلیغ دین پر مامور فرمایا ‘کسی کو آپ نے اس امت کا قاری کہا ‘کسی کو امین اور کسی کو قاضی ۔گویا آپنے امت کو اس وصف میں ان سے رجوع کرنے اور خداداد ایک دوسرے کی صلاحیت کے اعتراف و استفادہ کی تلقین کی۔بنیادی طور پر ہر ایک میں صلاحیتیں موجود تھیں لیکن امتیازی وصف کو معیار قرار دیا گیا اور اسی اعتبار سے آپنے عملی طور پر کام کی تقسیم کی۔ان تمام کی اجتماعیت سے قرن اول میں جو اسلام کو ترقی ہوئی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج بھی اسی طرز کو اپنانے اور اپنی عملی زندگی کو اس میں ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔دینی اور عصری اداروں سے وابستہ افراد اپنے اپنے میدان میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ کاش !یہ دونوں مل جائیں او ر ہر ایک کو دوسرے کی رفاقت حاصل ہوجائے تو مسلم قوم کا نقشہ آج بھی بدل سکتا ہے۔