حج کے جملہ اعمال احرام ، طواف ،سعی ،اقامت منیٰ ، وقوف عرفات ، مزدلفہ میں شب باشی، جمرات کی رمی ، حلق و قصر اور قربانی ایک طویل المدت اعمال ہیں
* * * * ڈاکٹر سعید عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * * *
اسلام کا پانچواں رکن ، جس میں بندہ مؤمن کا بدن اور مال دونوں صرف ہوتے ہیں، جو بدنی اور مالی ہر دو عبادتوں کا مجموعہ ہے وہ’’ حج‘‘ ہے جس کی ادائیگی کا مکان نماز کی طرح پوری روئے زمین نہیں بلکہ اسکا مخصوص مگر انتہائی مقدس ومبارک قطعۂ ارض ہے جسکے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘(آل عمران97) پھرزمانہ ادائیگی بھی تمام سال نہیں بلکہ سال کے 12 مہینوں میں سے مخصوص حرمت والے یا قابل احترام مہینے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں‘‘ (البقرہ197)غورکریں کہ حج کی ادائیگی میں بندہ پر اللہ تعالیٰ کی چاروں نعمتیں مجتمع ہوتی ہیں ۔
٭صحیح و سالم بدن ۔ بدنی استطاعت اور صحت جسمانی شرط ہے ۔
٭ حلال وپاکیزہ مال ۔
٭ مقدس مقام ۔
حرم مقدس اور مشاعر مقدسہ والے مقامات کہ وہیں مناسک حج ادا ہوئے ہیں۔
٭مقدس و مبارک زمانہ ۔ حرمت والے مہینے ۔ حج کے اعمال میں غور کرنے والے پر یہ امر آسانی سے عیاں ہوجاتا ہے کہ ایک پہلو میں توبندے اور ربّ کے والہانہ تعلق کا مظہر ہے ، بندہ اپنے رب کی محبت اور اسکی عظمت کا والہانہ طور پر اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے سپرد کردیتا ہے ۔ وہ اپنے وطن، اپنے اہل عیال،اپنی تجارت وغیرہ سب سے علیحدہ ہوکر ہی یہ ادا ہوتاہے۔ دوسرے پہلو میں حج امت مسلمہ کے افراد میں اخوتِ ایمانی ، مساوات ، عقیدت و محبت اور امت کی مصلحتوں کے تحفظ کے عہد کا بھی مظہر ہے ۔ حج ایسی عبادت ہے کہ جس کے لئے نماز یا روزہ کی طرح قلیل مدت درکار نہیں ہوتی ۔ نسبتاً ایک طویل مدت مناسک حج کی تکمیل کیلئے چاہئیں ۔ حج کے جملہ اعمال احرام ، طواف ،سعی ،اقامت منیٰ ، وقوف عرفات ، مزدلفہ میں شب باشی، جمرات کی رمی ، حلق و قصر اور قربانی ایک طویل المدت اعمال ہیں اور تمام کے تمام ایک جانب قلوب میں ربّ جلیل کی عظمت بٹھانے والے اور دوسری جانب افرادِ امت میں اخوتِ ایمانی کے رشتہ کو مستحکم کرنے کی مؤثر ترین پختہ رموز ہیں ۔
گویا کہ حج کے تربیتی مدرسے سے کامیاب طور پر فارغ التحصیل ہونے والے افراد امت میں ان کی تعمیر و اصلاح کے یہ ہر دو پہلو عظمت ربّ جلیل کا دل میں رسوخ اور عقیدہ وایمان کی بنیاد پر افراد امت میں عالمگیر اخوت اسلامی کا شعور نمایاں طور پر نظر آنے لگتے ہیں ۔ ’’حج ‘‘جو لغت میں کسی معظم ومقدس کی زیارت ہے ، شرعاً وہ بیت اللہ الحرام کی زیارت اورحرم محترم اور مشاعر مقدسہ میں مخصوص اعمال کی مخصوص اوقات میں ادائیگی کا نام ہے۔حج صاحب استطاعت مسلمان پر پوری عمر میں صرف ایک بار فرض ہے ۔اس ضروری تمہید کے بعد گزارش ہے کہ ہم قارئین کیلئے حج کے مناسک پر دو اعتبار سے بات کریں گے۔ اولاً :اعمال ِحج پر ’’ عمومی نظر‘‘ جس میں ہر عمل کی مشروعیت سے ہمیں کیا درس لینا ہے اور کیا شعور ہونا چاہئے ؟ ثانیاً : مناسک حج کی فقہی اورتشریعی حیثیت جس میں حج کی اقسام،پھر مناسک میں سے کونسے اعمال فرض ہیں ، کونسے واجب اور کونسے سنت ہیں ؟ اس کے بعد نبی کریم کے حج کا مختصر خاکہ ۔ معمول کا وہ لباس جو اس کرہ ارض پر مقیم ، وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں، اس زمین کے شمال میں ہو یا جنوب میں، گرم ملکوں میں رہتا ہو یا سرد ملکوں میں ، اس کا اپنے علاقائی لباس شلوار قمیض ہو یا پتلون کوٹ یاکرتہ دھوتی ، جب وہ حج کی نیت کرنے لگے گا تو اسے اپنا وہ معمول کا لباس اتارناہے اور وہ بھی حرم محترم میں داخلے سے بہت دور میقات سے ہی دو چادریں زیب تن کرنا ہوںگی ۔
قلب و قالب کو صاف وستھرا کرنے کے بعد دو صاف چادریں جو سلی ہوئی بھی نہ ہوں ،یہی ہر محرم اور قاصد حرم کا اب لباس ہے ۔گویا اس کے لئے اپنے ربّ کی طرف ہمہ وقت توجہ کرنیکی وردی ہے جسکا اب ورد زبان بھی ، تکبیر و تہلیل و تسبیح ہے ،قول بھی ،مظہر بھی، ظاہر بھی،باطن بھی ، ربّ کی محبوبیت اور اس کے عشق و محبت کا مظہرہے ،پھر ہر محرم کی فکر میں وحدت قبلہ میں ، وحدت لباس میں وحدت تلبیہ ،تکبیر وتہلیل وتسبیح میں اخوت اسلامی کا عملاً اظہار ہے جسکا مشاہدہ اسے بحالت احرا م دیکھنے والا ہر انسان، وہ مسلم ہو یا کافر، کرتاہے کہ کرۂ ارض کی کسی بھی سمت سے قاصد حرم بلاا متیاز جنس، رنگ نسل ، وطن ،تہذیب وثقافت ،اپنے ربِ واحد ،قبلۂ واحد،شریعت ِواحدہ کا نہ صرف اعتراف و اظہار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو نظارہ بھی کراکر پوری دنیا کو گواہ بھی بنا رہا ہے کہ ہم امتِ واحدہ کے افراد ہیں۔ پھر اس احرام کی حدود ہیں، یعنی زمانی میقات ہیں۔جس وقت اسے باندھنا پھر مکانی میقات ہیں جنہیں بغیر احرام کے کراس نہیں کرنا ۔بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓحج کی میقات زمانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ حج کا احرام اشہر حج ہی میں باندھا جائے (یعنی شوال ،ذی قعدہ اور ذوالحجہ) پھر میقات مکانی کے بارے میںشارع علیہ السلام نے اس عالم کی چہار سمتوں سے قاصدینِ حرم محترم کے لئے حدود مقرر فرمائے ۔اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ ،اہل شام کے لیئے جحفہ ،اہل نجد کے لئے قرن المنازل اور اہل یمن کے لئے یلملم ۔ یہ میقات تمام عالم کی ہر جہت سے قاصد حرم کے لئے ایسے نشانات ہیں جن سے بغیر احرام کے نہیں گزراجاسکتا۔یہ علامت ہے اس امر کی گویا بہت دور سے ہی حرم محترم کی عظمت کو دل میں بٹھالینا ہے ۔
اس گھر کے ربّ کے جلال کا شعور اس میں بیدار کیا جا رہا ہے ۔احرام والے کا باطن وظاہر ،اسکا قلب و قالب عظمت ربّ اوربیت اللہ کی حرمت کا خود بھی شاہدبن رہا ہے اور ہر دیکھنے والے کو بھی بنارہاہے ۔سبھی دیکھنے والے اسی احرام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں کہ یہ ہے جو اسلام کے مرکز اول ، وحیٔ ربانی کے مَہبِط، صاحب دعوت و رسالت کے مولد ، حق کی دعوت کے مبدأ کی طرف متوجہ ہے۔آج وہ بحالت احرام اس قبلے کی طرف خود بنفس نفیس جارہا ہے کہ آج سے پہلے دنیا کے کسی بھی خطے سے جس کی طرف رخ کر کے وہ ربّ البیت کی عبادت کرتا رہا ہے ، وہ اپنے روحانی وطن کا رخ کئے ہوئے ہے ، جہاں وہ اجنبی نہیں اس کے لئے تو فرط محبت اور شوق زیارت کی دعائیں مانگتا تھا، وہ خود فرحت وانبساط میں ہے اورہر دیکھنے والا اس کی اس کیفیت کو محسوس کرلیتا ہے۔ یہی احرام اُسے یہ درس دے رہا ہے کہ تم سب ایک ہو، مساوی ہو، برابر ہو، تم باربار احرام کی اصلاح کرتے ہو، کبھی اوپر کی چادر کو پکڑتے ہو،کبھی نیچے کی چادر کو درست کرتے ہو، یہ تمہیں باربار تمہارے اندر اور باہر کے فساد کی اصلاح کی دعوت ہے ۔ تم کیسے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہو ، کیسے کسی کو حقیر خیال کرتے ہو یا دل میں کسی دوسرے کا حسد یا بغض رکھ کر چلتے ہو ، تم اپنے عجز کو سمجھو خود کو انکساری کا خوگر بناؤ ،زیب وزینت ترک کرنے والو ،یہ احرام تمہیں مٹنے کا درس دے رہا ہے ،تم سے نخوت وکبر کو نکالا جارہاہے ۔
تمہیں باہم مساوات و اخوت اور صرف رب جلیل کی کبریائی سکھائی جارہی ہے ۔جب تک احرام میں ہو زبان سے یہی کہتے ہو اسی کیلئے لبیک ہے، اسی کیلئے حمد ہے ،اسی کیلئے تسبیح ہے ،وہ اکبر و کبیر ہے ،وہ غنی ہے ،ہم سب فقیر ومحتاج ہیں ۔یہی احرام کا درس ہے جو محرم کو مسلسل ملتاہے ۔ رات کو بھی،دن کو بھی جاگتے ہوئے ،سوتے ہوئے ،وہ ہر حال میں دو ہی سفید چادروں میں سبھی زیب وزینت کا لباس اپنی عادت کا لباس ،اپنے معمول کا لباس ،اپنا علاقائی لباس ،اپنا آبائی لباس اتارچکے ۔یہ احرام ان میں وحدت کا اعتراف اور رب کی عظمت کے اظہار کا لباس ہے جس نے حاکم ومحکوم ،رئیس ورعایا ،قوی وضعیف ،سب کے سب فرق مٹادیئے ،سب کے سب اللہ کے بندے اس کے فقیر ، اس کی کبریائی ،اسی کی الوہیت ،اسی کی ربوبیت کا اپنے حال سے اور قال سے اظہار کررہے ہیں ۔ محرمین کے یہ قافلے ،ان کی یہ جماعتیں اور گروہ بحر وبر کے طویل وعریض اسفارکرتے ہوئے سبھی قاصدین حرم محترم تھے سب ایک ہی گھر کی طرف متوجہ تھے جو ان کی نمازوں کا قبلہ رہا دلوں کی دھڑکن ہے ،ان کے قلوب کچھے کچھے اس کی طرف آرہے تھے ۔اب وہ ان کے سامنے ہیں ۔
یہ اللہ کا پہلا گھر ہے جو مَہبِط وحی ہے ،منبع انوار ہے ،مطلع ہدایت ہے،خود اس کے رب نے کہا کہ یہ تمام لوگوں کے ہدایت کی جگہ ہے ۔یہ اس جگہ پر ہے جہاں سے زمین کا آغاز ہوا ،یہ عین بیت المعمور کے نیچے ہے ،صرف اسی گھر کے چکر لگانا عبادت ہے ، یہی وہ بیت عتیق ہے جہاں کوئی جبار نہیں ،نہ جبار اس پر قابض ہوسکتاہے ،اس کے طواف کا رب نے حکم دیا ہے ۔اولین وآخرین کے تمام عظماء یہاں آئے ہیں ،خود ابو البشر آدم ؑنے اس کی تعمیر فرمائی ،اس کا طواف کیا ،پھر آدم ثانی نوحؑ کے طوفان سے جب یہ پوشیدہ ہوا تو اس کو اسکے قواعد پر ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ نے قائم فرمایا ،ان سے رب نے اسی کے طواف کی خاطر اعلان کرایا تھا ۔ان کے نشانات بھی یہاں موجود ہیں، مقام ابراہیم اس گھر کے بالکل سامنے ہے ،اسی کے طواف کیلئے اسماعیلی بھی اوراسرائیلی انبیاء بھی آئے سیدالرسل نے اس کا طواف فرمایا ،اس کے اندرنصب حجر اسود جو جنت کا پتھر ہے اس کا بوسہ دیا ،اس کے ملتزم پر دعائیں فرمائیں ،اس کے بارے فرمایا ’’یہیں آنسو بہائے جاتے ہیں ،یہیں دعائیں قبول ہوتی ہیں ،یہیں پر زمزم کا کنواں ہے ‘‘جسکا پھوٹنا عظیم قربانی کی یادگار ہے جس کا پانی اس سرزمین پر افضل ترین پانی ہے ۔
نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے’’ زمزم کا پانی جس غرض کیلئے بھی پئیں اُسی کیلئے ہے‘‘اس غیرزراعتی زمین میں یہ اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے ۔ یاد رکھیں کہ یہی تو وہ اکیلا گھر ہے جس کا طواف عبادت ہے ،اس کے علاوہ کسی مرقد،مولد،مسکن یا گھر کے طواف کی اجازت نہیں ۔بعض نشانات کا تو آ پنے طواف ومطاف کے دوران ہی مشاہدہ کرلیا۔یہاں کچھ اور بھی نشانات ہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے’’صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ‘‘(البقرہ158)ان میں عمومی نگاہ اورقلیل تأمل کرنے سے فکر وتأمل کرنے والے پر ایک حقیقی عظیم مؤمن ومؤمنہ کی عظیم قربانی کا شعور واستحضار ہوجاتاہے کہ اس وادی میں جہاں نہ زراعت ،نہ پانی،کس طرح قدرت حق تعالیٰ سے اسماعیل کی والدہ کی سعی اور والد کی قربانی سے یہاں پر خیرات کا اجرا ہوا ۔حضرت ہاجر کی صفا ومروہ اور میلین کے مابین سعی اور دوڑ کو اہل اسلام کی اس عبادت کا ایک حصہ قراردیکر آئندہ ہمیشہ کیلئے ایک روشن یادگار قراردے دیا ہے ۔اہل اسلام اپنے شعور کو اپنے صالح اسلاف کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے سعی کے دوران اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی ،اس کی حمد وتسبیح اور اپنے فقر واحتیاج کو یادرکھتے ہیں ۔
مکہ مکرمہ میں چند روز اقامت سے جب حاجی کے دل میں کچھ اپنے گھر ،اپنے محلے اوراپنی رہائش کا ایک خاکہ سابن جاتاہے تو انہیں حکم ہوتاہے کہ یہاں سے نکلو اور منیٰ کی خیمہ بستی کا رخ کرو ۔وہاں شہر کی مکمل سہولیات تو نہیں،نہ شہر ہے کہ جس میں شہرجیسے مکانات ہوں یا ویسی رہائشیں یا اس طرح کی وافر طورپر دیگر ضروریات زندگی ہوں،محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ،یہ تربیت ،یہ تحمل اور یہ قربانی ،پھر اس جگہ تو عظیم قربانیوں کے کئی واقعات پیش آئے ۔خاندانِ ابراہیم علیہ السلام ،ان کی زوجہ ٔ محترمہ،ان کا عظیم فرزند،پھر باپ بیٹے کی اللہ کی خاطر قربانی، ابراہیم علیہ السلام کا اس قربانی کا صلہ ذبحِ عظیم کی صورت میں سامنے آیا ۔ حج ادا کرنے والا شخص جو اولاً اپنے وطنِ اصلی سے نکلا ،آرائش و آرام کو چھوڑ کر مشقت سے طویل مسافت طے کی، پھر مستقل آباد شہر مکہ مکرمہ پہنچا، وہاں سے عارضی شہر منیٰ کا رخ کیا، یہاں سے بھی وہ کوچ کرکے ایک عظیم الشان مکان عرفان پہنچ گیا ۔یہی میدان عرفات ہے، یہاں کا وقوف حج کا رکن اعظم ہے ۔
مشاعرہ مقدسہ میں صرف یہی وہ جگہ ہے جہاں پر رحمن کے تمام مہمان بیک وقت جمع ہوتے ہیں اور اس کی خصوصی عنایتوں اور رحمتوں کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔یہیں پر اکناف عالم سے امت مسلمہ کے تمام نمائندے اپنی زندگی کے باسعادت لحظات اور روحانی ساعات اللہ کے حضور انتہائی گریہ، آہ وزاری سے طلب مغفرت ،اپنی انفرادی اور امت کی اجتماعی حاجات کو قبولیت کے یقین کے ساتھ رحمن و رحیم کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ عرفات کے میدان میں حجاج کی ایمانی کیفیت، ان کے اندورنی سرور و شعور اور وجدان کے بیان سے قلم اور قرطاس عاجز رہتے ہیں ۔یہ بیان کی حد سے باہر عرفان وجدان سے متعلق ہے۔ عرفات کی حاضری یقینامعرفت حق میں کمال کی وہ مبارک گھڑیاں ہیں جن کا وصف یقینا بیان تو نہیں ہوسکتا البتہ مشاہدہ کرنے والا محسوس ضرور کرتا ہے۔ یہی تو وہ مقام ہے جہاں پر تمام اہل عرفان نے وقوف کیا ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر سید العارفین، فخر الرسل حضرت خاتم النبیین نے نہ صرف امت اجابت بلکہ تمام امت دعوت اور جملہ انسانیت کے نام اپنا عالمگیر پیغام چھوڑا جس کا استحضار ہمیں بھی رہنا ضروری ہے جسے آپ کے وفاشعار اصحاب نے نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اسے امانت علمی سمجھا اور اسلام کے عالمگیر پیغام کو تمام انسانیت تک پہنچایا ۔ آج کی متمدن دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیںاور عالمی فلاحی ادارے انسانیت کیلئے اسی خیر خواہی کے عالمی پیغام کو روشنی کا مینار اور راہ نما اصول جانتے ہیں ۔آپ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں اس مقام پر انسانوں کو امن و امان فراہم کرنے کی خاطر فرمایا تھا : ’’تمہارے خون اور مال تمہارے لئے اس طرح حرام ہیں جیسے آج کے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس شہر میں حرمت ۔
خبر دار!جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں تلے ہے‘‘ جاہلیت کی خون ریزی کے سلسلے کو جو سالہا سال اور نسل در نسل چلتا رہتا اور انسانیت میں انتقام کے نام پر کشت و خون کے ہولی کھیلی جاتی اس کو روک لگاتے ہوئے آپ نے یہ تاریخ ساز فیصلہ فرمایا کہ’’ میں سب سے پہلے اپنے خونوں کی معافی میں سے ابن ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب کا خون معاف کرتا ہو ں جو بنی سعد میں پرورش پار ہے تھے کہ ہذیل نے انہیں قتل کر دیا تھا ‘‘ پھر انسانوں کی معاشی معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے ایسے اصلاحی ضابطے بیان فرمائے جن سے انسانوں کی معیشت و معاشرت اور ان کی انفرادی، عائلی اور اجتماعی زندگیاں سدھر جائیں ۔ان میں معاشی آسودگی آجائے ،بھائی چارے اور امن و امان کا بول بالا ہو۔ ان کی غیرت و حمیت اور آبرو محفوظ ہو، ان سے ظلم و استبداد،فتنہ و فساد، بد امنی اور دہشت گردی جیسے ناسور کی جڑیں اکھڑ جائیں ۔سود کی لعنت جس نے قوموں کی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے نہ صرف آپ نے ترغیب دی بلکہ خود عملی اقدام یوں فرمایا کہ’’ سب سے پہلا سود ہمارے سودوں میں سے جو میں نے اتار دیا، وہ حضرت عباس بن عبدالمطلب کا ہے جو سارے کا سارا معاف ہے ‘‘ رنگ و نسل اور طبقاتی امتیازات کو مٹانے اور انسانوں کے ما بین مساوات اور ان میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اجاگر کرنے کی خاطر اور ان میں تقویٰ کو عظمت وشرافت کی بنیاد قرار دینے کے سنہری ضابطے کو یوں واضح فرمایا کہ’’ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں، نہ کسی سرخ سفید کو کالے پر فضیلت ہے، ہاں باعث شرف امر صرف تقویٰ اور پر ہیزگاری ہے ‘‘ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ (جاری ہے)