Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میقات ، جہاں سے عازمین احرام کے بغیر نہیں گزرسکتے

میقاتوں میں ائمہ اور مؤذن متعین ہیں، ان میں نیا قالین اور فرش ہے،صفائی اور اصلاح و مرمت کا اہتمام ہے نیز قرآن پاک کے نسخے موجود ہیں
 
میقات مفرد ہے اس کا جمع مواقیت ہے۔ میقات 2طرح کی ہوتی ہے، ایک میقات زمانی کہلاتی ہے۔ اس سے مراد وہ اوقات ہیں جن کے سوا کسی اور وقت میں حج صحیح نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے حج کے اعمال اور مناسک و شعائر کے لئے ذی الحجہ کے مخصوص ایام مقررکررکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ” حج کے مہینے معلوم ہیں“۔ یہ شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے مہینے ہیں۔
ذی الحجہ کے مہینے کے سلسلے میں فقہاءمیں اختلاف ہے کہ آیا یہ پورا مہینہ حج کا مہینہ ہوتا ہے یا اسکے کچھ دن حج کے لئے مختص ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کے 10 دن مراد ہیں۔ راجح قول یہی ہے کہ ذی الحجہ کا پورا مہینہ حج کے مہینوں میں شامل ہے کیونکہ مہینہ چند روز کے لئے نہیں بلکہ اسکے تمام ایام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 9ذی الحجہ کے بعد حج کے احرام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ حج کے بعض اعمال اس تاریخ کے بعد ادا کئے جاتے ہیں اور قبول ہوتے ہیں۔
حج کا احرام شوال سے پہلے باندھنا جائز نہیں۔ جس نے شوال سے قبل حج کا احرام باندھا وہ عمرے کا احرام مانا جائیگا، حج کانہیں۔ عمرے کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔ سال کے کسی بھی مہینے اور دن میں عمرہ کیا جاسکتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ حج کا احرام حج کے مہینوں سے قبل بھی باندھا جاسکتا ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ حج کے دنوں میں ہی اسکا احرام باندھا جائے۔
میقات کی دوسری قسم میقات مکانی کہلاتی ہے۔ انکی پابندی حج اور عمرہ دونوں کیلئے لازم ہے۔ نبی کریم نے میقاتیں متعین کی ہیں۔ 
وزارت اسلامی امور نے ساتوں میقاتو ںپر حج وعمرہ کے عازمین کے لئے مساجد تعمیر کراد ی ہیں۔ خصوصاً حج موسم میں ضیوف الرحمان کے لئے ان میقاتوں پر غیر معمولی انتظامات کرائے جاتے ہیں۔ ائمہ اور م¶ذن متعین ہوتے ہیں۔ ان میں نیا قالین اور فرش بچھایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مدینہ منورہ کے شاہ فہد پرنٹنگ پریس سے چھپے ہوئے قرآن پاک کے نسخے اور انکے معنی کے ترجمے رکھے جاتے ہیں۔ انکی صفائی اور اصلاح و مرمت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
وزارت اسلامی امور میقاتوں پر عازمین حج اور عمرہ کی دینی آگہی اور انہیں حج کے اعمال مطلوبہ شرعی طریقے سے ادا کرنے کا طریق کار بتانے کے لئے مختلف پروگرام ترتیب دیتی ہے۔
وزارت اسلامی ا مور ان میقاتوں کی منتظم اعلیٰ ہے وہ میقاتوں کی جملہ ضروریات پوری کرتی ہے۔
٭ ذوالحلیفہ: یہ آبار علی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے بہت زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔ شہر کے وسطی علاقے سے 8کلو میٹر دور ہے۔ یہ ان عازمین حج و عمرہ کی بھی میقات ہے جو اس میقات سے ہوکر گزرتے ہیں اور وہ مدینہ کے شہری نہیں ہوتے۔یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً450کلو میٹر دور ہے۔
یہاںوزارت اسلامی امور نے نہایت شاندار مسجدتعمیر کرائی ہے۔ اس کے اطراف وضو خانے اور غسلخانے بھی کثیر تعداد میں بنائے گئے ہیں۔ یہاں 24گھنٹے صفائی ، پانی کی فراہمی اور روشنی کا بندوبست رہتا ہے۔ سعودی حکومت نے حج و عمرے کیلئے آنے والوں کی سہولت کی خاطر چھوٹے سے بازار کا بھی اہتمام کیا ہے۔ یہاں مقامی شہریوں اور بعض غیر ملکیوں نے دکانیں کھول رکھی ہیں جن سے احرام کی چادریں، چپلیں ، تسبیحیں، مسواک،جاءنمازیں، بیلٹ اور حج و عمرہ گائیڈ بکس حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہلکار عازمین کو دینی آگہی فراہم کرنے ، احرام کے تقاضوں کو پورا کرنے اور ممنوعات احرام سے مطلع کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ وزارت اسلامی امور کے کارندے بھی یہ کام انجام دیتے ہیں۔ زیادہ تر وہی ہوتے ہیں۔ یہاں عازمین کو طبی امداد فراہم کرنے کے لئے عارضی ہیلتھ سینٹر بھی قائم ہیں۔ یہاں رابطے کے لئے مختلف مواصلاتی کمپنیوں کے دفاتر بھی قائم ہیں۔ جن سے عازمین موبائل سم خریدتے ہیں۔ بعض حاجی موبائل کارڈ ر یچارج کراتے ہیں۔
٭ الجحفہ: یہ اہل شام و مصر اور مغرب عربی کے تمام علاقوں نیز ان سب لوگوں کی میقات ہے جو اس سے دوسری طرف آباد ہوں۔ یہ میقات جس قریہ میں واقع تھی اس کا نام مھیعتہ تھا۔ یہ قریہ اب افسانہ ماضی بن چکا ہے۔ یہ رابغ شہر کے بالمقابل واقع تھا۔ اس سے قریب تھا۔ اب رابغ اس کی جگہ آباد ہوگیاہے لہذا وہی مصر، شام اور مغرب عربی کے باشندو ںکی میقات بن گیا ہے۔ 
یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً 4منزل دور ہے۔یہ مکہ مکرمہ سے 187کلو میٹر دور ہے۔ یہ ذوالحلیفہ کے بعد پڑتی ہے۔ الجحفہ اب شامیوں کے لئے غیر معروف مقام ہے۔ اب وہ اس سے نہیں گزرتے۔جن لوگوں کی میقات جحفہ ہوا کرتی تھی وہ اب دوسرے راستے سے آتے ہیں۔ رابغ نے جحفہ کی جگہ لے لی ہے یہی وجہ ہے کہ ترکی، شام ، لبنان، اردن ، مصر کے عازمین حج رابغ سے احرام باندھتے ہیں۔
وہ لوگ بھی رابغ ہی سے احرام کی پابندی کرتے ہیں جو اس راستے سے گزرتے ہیں۔ رابغ مکہ مکرمہ سے تقریباً200کلو میٹر دور ہے۔ رابغ چھوٹا سا شہر ہے۔جحفہ میقات کی مسجد ساحلی شہر رابغ سے تقریباً 15کلو میٹر دور بنائی گئی ہے۔ یہاں بھی وہی تمام سہولیات مہیا ہیں جو الجحفہ مسجد کے اطراف فراہم ہیں۔
٭ قرن المنازل: یہ اہل نجد، الاحساء، عراق، خلیج کی عرب ریاستوں اور بحرین والوں کی میقات ہے۔ عام طور پر یہ لوگ بسوں اور اپنی کاروں سے اس راستے سے گزرتے ہیں۔ یہ ان میقات میں سے ایک ہے جن کی نشاندہی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ اب یہ السیل الکبیر کے نام سے مشہور ہے جو مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔ السیل مکہ مکرمہ سے 94کلو میٹر دور ہے۔
اسے میقات السیل الکبیر کی مسجد بھی کہتے ہیں۔ اس مقام سے بہت زیادہ عازمین آتے ہیں۔ زیادہ تر داخلی عازمین ہوتے ہیں۔ نجد ، ریاض کے مشرقی علاقوں اور طائف کے شہری اور مقیم غیر ملکی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں بھی وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جو دیگر میقاتوں کی مساجد کے اطراف مہیا ہیں۔
٭ یلملم: یہ اہل یمن اور ان لوگوں کی میقات ہے جو اس راستے سے ہوکر گزرتے ہیں۔ ان میں اہل عسیر ، جنوبی حجاز کے باشندے شامل ہیں۔ ماضی قریب میں جب برصغیر کے لوگ سمندر کے راستے حج پر آتے تھے تب یہ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے حاجیوں کی بھی میقات ہوا کرتی تھی۔ یہی انڈونیشیا اور چین کے باشندوں کی میقات رہی ہے۔ 
یہ مکہ مکرمہ سے جنو ب میں واقع ہے۔ اسکے اور یلملم کے درمیان 95کلو میٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے 2منزل دور ہے۔یہ جدہ کے جنوب میں 60میل دور ایک پہاڑی ہے جس کے پاس سعدیہ نامی ایک بستی ہے ۔ یمن کی سمت سے آنے والا کوئی حاجی جو حج یا عمرے کی نیت سے آرہا ہو وہ یلملم سے بغیر احرام باندھے آگے نہیں گزرے گا۔
یہاںمیقات یلملم کی مسجد بنی ہوئی ہے۔ یہ مسجد یلملم میقات کی اصل جگہ کے بالمقابل بنائی گئی ہے۔ یہاں بھی عازمین حج و عمرہ کیلئے دینی آگہی ، صحت معلومات اور مختلف ضروریات کی تکمیل کا ویسا ہی اہتمام کےا گیا ہے جیسا کہ دیگر میقاتوں کی مساجد کے اطراف میں کیا گیا ہے۔
٭ ذات عرق: یہ اہل عراق او رمشرقی ممالک کے باشندو ںکی میقات ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے ڈھائی منزل دور ہے۔ رسول کریم کی حدیث مبارک میں اسکا تذکرہ نہیں آیا۔ اسکی نشاندہی حضرت عمر بن خطابؓ کی طرف سے ہوئی ہے۔
ابن عمرؓ بتاتے ہیں کہ جب بصرہ اور کوفہ فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر بن خطابؓکے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے امیر المؤمنین ، رسول کریم نے اہل نجد کے لئے قرن کو میقات مقرر کیا تھا اور یہ ہمارے راستے سے ہٹی ہوئی ہے۔ اگر ہم قرن المنازل ہوتے ہوئے آئیں تو یہ ہم پر شاق گزرے گا۔ حضرت عمر بن خطاب نے یہ سن کر کہا کہ قرن المنازل کے بالمقابل اپنے راستے میں آنے والی کسی جگہ کی نشاندہی کرو۔
کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے لئے ذات عرق کو میقات کے طور پر مقرر کردیا۔ عرق (پہاڑی) کو کہتے ہیں۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً94کلو میٹر دور ہے۔ اس کا تذکرہ ان احادیث میں نہیں ملتا جن میں رسول کریم نے میقاتوں کی نشاندہی کی تھی۔ بعض آثار صحابہ میں یہ بات مذکور ہے کہ رسول اللہ نے ہی اسکی نشاندہی فرمائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذات عرق سے متعلق کوئی صحیح حدیث رسول کریم سے منقول نہیں۔
یہاں 2مساجد بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تو مسجد جعرانہ کہلاتی ہے۔ یہ مکہ مکرمہ کے شمال مشرق میں مسجد الحرام سے تقریباً 22کلو میٹر وادی الجعرانہ میں تعمیر کی گئی ہے۔دوسری مسجد تنعیم ہے جسے مسجد عائشہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمرے کے احرام کے لئے بھیجی گئی تھیں۔ رسول کریم نے انہیں حجتہ الوداع کے موقع پر التنعیم سے احرام باندھ کر حرم شریف آنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ مسجد الحرام سے تقریباً ساڑھے 7کلو میٹر دور ہے۔ یہ مکہ مکرمہ مدینہ منورہ روڈ پر واقع ہے جسے طریق الحجرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ مکہ مکرمہ کے قابل دید مقامات میں سے ایک ہے۔ اسلامی فن تعمیر کا حسین نمونہ ہے۔
٭ جو لوگ مذکورہ میقاتوں کے دائرے میں رہتے ہیں ان کی میقات وہی جگہ ہے جہاں وہ آباد ہوتے ہیں۔ وہیں سے وہ احرام باندھنے کے پابند ہیں۔
٭ اہل مکہ مکرمہ کی میقات انکے گھر یا مسجد الحرام ہے۔ عمرے کیلئے انہیں مکہ مکرمہ سے باہر (الحل) جانا پڑیگا۔ وہیں سے انہیں احرام باندھنا ہوگا۔
٭ جو لوگ ایسے مقامات سے آرہے ہوں جہاں میقات نہیں پڑتی انکی میقات کسی بھی میقات کے بالمقابل آنے والا مقام ہوتا ہے۔یہ سہولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دے رکھی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شامی ، یمن کے راستے ہوتے ہوئے آنے لگے تو اسکے لئے اہل یمن کی میقات ہی میقات ہوگی۔ یہی اصول اہل یمن پر بھی لاگو ہوگا اگر وہ شام کے راستے سے ہوتے ہوئے آئیں۔
یہ میقاتیں ایک طرح سے چہار دیواری کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ حرم شریف کی عظمت کی نشانیاں ہیں۔ یہ میقاتیں اس عبادت کی عظمت کا پتہ دیتی ہیں کیونکہ اسکی وجہ سے عازمین حج و عمرہ اپنے گھر بار، آل اولاد، احباو اقارب کو خیر باد کہہ کر نکلتے ہیں۔ ان میقاتوں پر ٹھہرنا گویا اپنے نفس کا محاسبہ کرنا اور اپنی کوتاہیوں کا مراجع کرنا ہے۔
 
 

شیئر: