رمضان کا مہینہ اکٹھے وقت گزارنے، خاندانی اجتماعات، اور ایک دوسرے کے ساتھ روحانی تجربات شیئر کرنے کا نام ہے۔
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے گھر والوں سے دور ماہِ رمضان گزارنے پر مجبور ہیں اور یہ ان کے لیے ایک منفرد تجربہ ہے جو یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں۔
خاندان والوں کے بغیر افطار اور سحری کا اہتمام کرنا اور یہ روحانی سفر اکیلے طے کرنے کے حوالے سے چند نوجوانوں نے اپنے تجربات سے آگاہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
رمضان میں جدہ کے کاروباری مراکز اور گھروں کی سجاوٹ کے مقابلےNode ID: 886830
لیلیٰ الغامدی نے اپنے تجربات کے حوالے سے عرب نیوز کو بتایا کہ سب سے بڑا چیلنج اُن تمام لمحات کو یاد کر کے اداس ہونا ہے جو اس مہینے میں آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔
’اپنے پیاروں کے ساتھ اکھٹے سحری اور افطاری کرنا اور مل کر نماز پڑنا، اس سے ایسا گہرا جذباتی تعلق پیدا ہوتا ہے جو اکیلے محسوس کرنا مشکل ہے۔‘
روئی مجدی نے کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماہ رمضان میں ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج خاندان کی کمی کو محسوس کرنا ہے خاص طور پر جب عرب ثقافت میں خاندانی رشتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹی وی پر خاندانی اجتماعات کے حوالے سے چلنے والے اشتہارات بھی ہمارے لیے زیادہ مشکل پیدا کر دیتے ہیں۔ جذبات کے حوالے سے رمضان کا مہینہ سب سے زیادہ چیلنجنگ ہوتا ہے۔‘
تاہم لایان الشماری کے لیے سب سے بڑا چیلنج کھانے، سونے اور جاگنے کی نئی روٹین کو اپنانا اور اس کے ساتھ ساتھ تنہائی کے احساس سے نمٹنا ہے، ’کیونکہ آپ کے ساتھ کھانا بنانے یا ساتھ کھانے والا کوئی بھی نہیں ہوتا۔‘

مشکلات کے باوجود کچھ لوگوں کو اکیلے رمضان گزارنے سے روحانیت کا گہرا احساس ہوتا ہے۔
روئی مجدی کے لیے تنہائی میں غور و فکر اور خود کو پہچاننے کا موقع ملتا ہے۔
’میرے خیال میں رمضان کا یہ مقدس مہینہ اکیلے گزارنے سے روحانی عمل سے گزرنا آسان اور زیادہ معنی خیز ہوتا ہے۔ میرے پاس غور کرنے، دعا کرنے اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے زیادہ وقت اور موقع ہوتا ہے۔‘
دوسری جانب لیلیٰ الغامدی گھر سے باہر نکل کر اس مہینے کے سماجی پہلوؤں کو محسوس کرنا پسند کرتی ہیں۔
’یہ شاید عجیب لگتا ہو، لیکن میں باہر جاتی ہوں۔ مذہبی فرائض عموماً اکیلے ادا کیے جاتے ہیں، لیکن رمضان کی خوشیوں کا ایک بڑا حصہ ثقافتی روایات کا حصہ بننا ہے۔ جدہ جیسے شہر میں باہر قدم رکھتے ہی آپ ان لمحات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ شہر کی سڑکیں مشترکہ کھانوں، چمکدار سجاوٹوں، اور یکجہتی کے احساس سے زندہ ہو جاتی ہیں جس کا تجربہ آپ اکیلے نہیں کر سکتے۔‘
لایان الشماری کے لیے اگرچہ جدوجہد باقی ہے۔
’جیسے پہلے اس مہینے کی روحانیت کا احساس ہوتا تھا اب مجھے ویسے محسوس نہیں ہوتا۔ یہ مہینہ بھی باقی مہینوں کی طرح ہی لگتا ہے، لیکن اس مہینے میں کام اور نیند کے اوقات سے نمٹنے کا ایک اضافی بوجھ ہے۔‘
اکثر لوگوں کے خیال میں سب سے زیادہ تنہائی کا احساس اکیلے روزہ کھولتے وقت ہوتا ہے۔

روئی مجدی کا کہنا ہے کہ ان کے لیے رمضان کا مشکل ترین وقت اکیلے افطاری کرنا ہے۔
’کبھی کبھی، میں افطار کے وقت واک کرتے ہوئے کھانا خریدنے جاتی ہوں اور فیملیز کو اکٹھے کھانا کھاتے دیکھ کر تنہائی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ جب ایسا محسوس کروں تو میں عام طور پر گھر واپس آ جاتی ہوں اور اپنے گھر والوں سے ویڈیو کال پر بات کر لیتی ہوں۔‘
جو لوگ خاندان سے دور کسی اور شہر یا ملک گزر بسر کر رہے ہیں، ان کے لیے سوشل میڈیا نے بھی تنہائی کے احساس کو کم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔
لایان الشماری کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا سے انہیں ’رمضان کی روح کو محسوس کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ میں دوسرے لوگوں کو دیکھ سکتی ہوں کہ وہ یہ مہینہ کیسے گزار رہے ہیں، ان کے معمولات کیا ہیں اور وہ اپنے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ کس طرح سے وقت گزارتے ہیں۔‘
تنہا رمضان گزارنا دراصل خود شناسی اور غور و فکر کا ایک چیلنجنگ سفر ہے۔ اگرچہ تنہائی ایک جدوجہد ہو سکتی ہے، لیکن کچھ لوگ تنہائی کو اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے اور رمضان کو گہرے ذاتی انداز میں دریافت کرنے کے موقع کے طور پر اپناتے ہیں۔