سلام کا پیغام،قرآن کی روشنی میں
ہر اہم کام کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ پر درود وسلام مسنون ومستحب ہے
* * * مفتی محمد تبریز عالم قاسمی۔ حیدرآباددکن* * *
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’السلام‘‘ اللہ جل شانہ کا نام ہے اور دارالسلام کے معنیٰ ہیں اللہ کا گھر، اور ظاہر ہے کہ اللہ کا گھر امن وسلامتی کی جگہ ہوتی ہے اس لئے حاصل معنیٰ پھر یہی ہوگئے کہ وہ گھر جس میں ہر طرح کا امن وسکون اور سلامتی واطمینان ہو، جنت کو دارالسلام فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت ہی صرف وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہر قسم کی تکلیف، پریشانی اور اذیت اور ہر خلافِ طبع چیز سے مکمل اور دائمی سلامتی حاصل ہوتی ہے، جو دنیا میں نہ کسی بڑے بادشاہ کو کبھی حاصل ہوئی اور نہ بڑے سے بڑے نبی ورسول کو کیونکہ دنیائے فانی کا یہ عالم ایسی مکمل اور دائمی راحت کا مقام ہی نہیں۔ اور رب کے پاس ہونے کے یہ معنیٰ بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ دارالسلام یہاں نقد نہیں ملتا بلکہ جب وہ قیامت کے روز اپنے رب کے پاس جائیں گے اس وقت ملے گا، اور یہ معنیٰ بھی ہوسکتے ہیں کہ دارالسلام کا وعدہ غلط نہیں ہوسکتا۔ رب کریم اس کا ضامن ہے، وہ اس کے پاس محفوظ ہے، اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس دارالسلام کی نعمتوں اور راحتوں کو آج کوئی تصور میں بھی نہیں لا سکتا، رب ہی جانتا ہے جس کے پاس خزانہ محفوظ ہے(معارف القرآن)۔
مذکورہ آیات میں سلام کاتذکرہ بطور تحیہ کے تھا اور عام طور سے مومنین کا ملین کے لئے استعمال ہوا ہے،یا ادب وتہذیب سکھانے کے لئے، اس کے علاوہ قرآن میں یہ کلمہ انبیاء ورسل کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال کیا گیا ہے جس میں عنایت وتوجہ اور محبت کارس بھرا ہوا ہے، وہ آیات مندرجہ ذیل ہیں:
٭ اور سلام پہنچے ان (حضرت یحییٰ ؑ) پرجس دن وہ پیدا کیے گئے اور جس دن دنیا سے رخصت ہوئے اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہوکر اٹھائے جائیں(مریم15)۔ یعنی حضرت یحییٰ علیہ الصلاۃ والسلام ایسے وجیہ اور مکرم تھے کہ ان کے حق میں منجانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچے، جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پائیں اور جس دن(قیامت میں) زندہ ہوکر اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان 3 اوقات میں سلامتی کی دعا جو دی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں اوقات میں انسان انتہائی ضعیف اور ضرورت مند ہوتا ہے، اور اللہ کی طرف سے نصرت ، مدد اور سلامتی کا خواہاں ہوتا ہے۔ پیدائش اور موت کا وقت بڑا نازک ہوتا ہے اور دوبارہ زندہ کیے جانے کے وقت کی نزاکت کا کیا پوچھنا!(بدائع الفوائد)۔ علامہ طبریؒ کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں’’سلام‘‘ سے مشہور ومتعارف سلام مراد نہیں بلکہ یہ سلام امن وامان کے معنیٰ میں ہے لیکن ابن عطیہ نے اس رائے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اظہر قول یہ ہے کہ یہاں سلام سے وہی متعارف تحیہ مراد ہے، اور امن وامان کے مقابلہ میں یہ معنیٰ زیادہ بہتر اور قرینِ قیاس ہے کیونکہ امن وامان کا مفہوم تو حضرت یحییٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے عصیان کی نفی کر کے حاصل ہوجاتا ہے، شرف وسعادت تو اس میں ہے کہ اللہ انھیں سلام کریں(القرطبی)۔
٭ (اور ہم نے ان کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں میں یہ بات رہنے دی کہ) نوح(علیہ السلام) پر سلام ہو دنیا والوں میں(الصافات79)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے،ان کی نظر میں حضرت نوح علیہ السلام کو ایسا معزز ومکرم بنادیا کہ وہ قیامت تک حضرت نوح علیہ السلام کے لئے سلامتی کی دعا کرتے رہیں گے چنانچہ واقعہ بھی یہی ہے کہ تمام وہ مذاہب جو اپنے آپ کو آسمانی کتابوں سے منسوب کرتے ہیں، سب کے سب حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت اورتقدس کے قائل ہیں۔مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور نصرانی بھی آپ ؑ کو اپنا پیشوا مانتے ہیں(معارف القرآن)۔
٭ سلام ہو ابراہیم پر!(الصافات108)۔
٭ سلام ہے موسیٰ وہارون پر(الصافات120)۔
٭ سلام ہے الیاس پر(الصافات130)۔
٭ اور سلام ہے رسولوں پر(الصافات181) ۔
شروع میں اللہ تعالیٰ نے کچھ پیغمبروں کے اسماء کی صراحت کر کے سلام بھیجا ہے اور اخیر آیت میں ’’المرسلین‘‘ کا لفظ استعمال کر کے جملہ انبیاء ورسل پر سلامتی بھیجی ہے چنانچہ اس کا اثر دنیا میں یہ ظاہر ہوا کہ جب بھی انبیاء ورسل کے نام آتے ہیں، مسلمان اْن کے ناموں کے ساتھ’’علیہ السلام‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو لوگوں کی دعاؤں اور سلامتی کی بشارتوں کا مرکز بنادیا۔
٭ قُلِ الْحَمْدُلِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی(النمل59)۔
انبیائے سابقین اور ان کی امتوں کے کچھ حالات اور ان پر عذاب آنے کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ() اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ ()کی امت کو دنیا کے عذابِ عام سے مامون کردیا گیا ہے، اور انبیائے سابقین اور اللہ کے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیجئے۔ جمہور مفسرین نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے اور بعض نے اس کا مخاطب بھی حضرت لوط علیہ السلام کو قرار دیا ہے۔اس آیت میں ’’اَلَّذِیْنَ اصْطَفٰی‘‘کے الفاظ سے ظاہر یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام مراد ہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے ’’وسلٰمٌ علی المرسلین ‘‘۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ کے صحابہ کرام ہیں۔حضرت سفیان ثوری نے اسی کواختیار کیا ہے(اخرجہ عبد بن حمید والبزاز وابن جریر وغیرہم)۔ اگر آیت میں’’ الذین اصطفٰی‘‘ سے مراد صحابہ کرام لئے جائیں جیسا کہ ابن عباس کی روایت میں ہے تو اس آیت سے غیر ابنیاء پر سلام بھیجنے کے لئے انہیں ’’علیہ السلام‘‘ کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ مسئلہ: اس آیت سے خطبہ کے آداب بھی ثابت ہوئے کہ وہ اللہ کی حمد اور انبیاء علیہم السلام پر درود وسلام سے شروع ہونا چاہیے۔رسول اللہ اور صحابہ کرامؓ کے تمام خطبات میں یہی معمول رہا ہے بلکہ ہر اہم کام کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ پر درود وسلام مسنون ومستحب ہے،کذا فی الروح (معارف القرآن )۔
٭ ہم نے فرمادیا اے آگ!تو ٹھنڈی پڑجا اور ابراہیم (علیہ السلام)کیلئے سلامتی (اور آرام کی چیز)بن جا!(انبیاء69)۔ یعنی نہ ایسی گرم رہ جس سے جلنے کی نوبت آوے اور نہ بہت ٹھنڈی برف ہوجا کہ اس کی ٹھنڈک سے تکلیف پہنچے بلکہ مثل ہوا ئے معتدل کے بن جا چنانچہ ایسا ہی ہوگیا۔ برد و سلام کا مفہوم: اوپر گذر چکا ہے کہ آگ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر برد وسلام ہونے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ آگ، آگ ہی نہ رہی ہو بلکہ ہوامیں تبدیل ہوگئی ہو، مگر ظاہر یہ ہے کہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی رہی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آس پاس کے علاوہ دوسری چیزوں کو جلاتی رہی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جن رسیوں میں باندھ کر آگ میں ڈالا گیا تھا، اْن رسیوں کو بھی آگ ہی نے جلا کر ختم کیامگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بدن مبارک تک کوئی آنچ نہیں آئی (کما فی بعض الروایات)۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں7 روز رہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عمر میں کبھی ایسی راحت نہیں ملی جتنی ان7 دنوں میں حاصل تھی (مظہری،معارف القرآن)۔
٭ سَلَامٌ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر5)۔ (اور وہ شبِ قدر) سراپا سلام ہے}جیسا کہ حدیث بیہقی میں حضرت انسؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ میں آتے ہیں اور جس شخص کو قیام، قعود اورذکر میں مشغول دیکھتے ہیں تو اس پر صلاۃ بھیجتے ہیں یعنی اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں اور خازن نے ابن الجوزی سے اس روایت میں’’ یسلّمونبھی‘‘ بڑھایا ہے، یعنی سلامتی کی دعا کرتے ہیں، اور’’ یصلون‘‘ کا حاصل بھی یہی ہے کیو نکہ رحمت وسلامتی میں تلازُم ہے، اسی کو قرآن میں سلام فرمایاہے اور امرِ خیر سے مراد یہی ہے اور نیز روایات میں، اِس میں توبہ قبول ہونا، ابوابِ سماء کا مفتوح ہونا اور ہر مومن پر ملائکہ کا سلام کرنا آیاہے{ (کذا فی الدر المنثور) ،( اور) وہ شب قدر (اسی صفت وبرکت کے ساتھ) طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔ سلامٌ،عبارت کی اصل ہی سلامٌ ہے، لفظ ہی حذف کردیا گیا، معنیٰ یہ ہیں کہ یہ رات سلام اور سلامتی ہی ہے اور خیر ہی خیر ہے، اس میںشرکا نام نہیں(قرطبی)اور بعض حضرات نے تقدیر عبارت’’ سلام ہو‘‘ قرار دے کر اس کو من کل امر کی صفت بنایا اور معنیٰ یہ ہوئے کہ یہ فرشتے ہر ایسا امر لے کر آتے ہیں جو خیر وسلام ہے(مظہری،معارف القرآن)۔
راقم الحروف عرض گزار ہے کہ: ان تمام آیات اور اس کی تفاسیرسے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ لفظ ’’سلام‘‘ راحت اور سلامتی کے حوالے سے ایک بحربیکراں ہے، جس کی گہرائی وگیرائی اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے اور اسی لئے یہ دعا اتنی اہم اور با عظمت سمجھی گئی، اس کے باوجود اگر کوئی سلام سے بے رخی برتے یا سلام کی اصلی شکل کو مسخ کر کے غیروں کی رَوِش اپنائے یا سلام کو جوں کا توں رکھے مگر اس کے تقاضوں سے نابلد رہے تو یہ قابلِ افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک لمحۂ فکریہ ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سلام پھیلانے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔