کبھی دل و جا ں سے فدا، کبھی جیسے کوئی واسطہ ہی نہ تھا
”تعطیلات پر جاتے ہوئے اکثر شوہروں کے مز اج کی گر می100 ڈگری کو چھونے لگتی ہے
تسنیم امجد۔ریاض
ازدواجی زندگی کسی امتحان سے کم نہیں۔ ارم منہ ہی منہ میںبُڑبُڑا رہی تھی ۔کبھی تو دل و جا ں سے فدااور کبھی جےسے کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ اماں کہتیں تھیں کہ یہ وہ گا ڑی ہے جو کبھی کبھی کسی اسٹیشن پریوں رک جاتی ہے جیسے کوئی گھو ڑا اڑیل ہو جاتا ہے۔اس جانور کے بارے میں بھی سنا ہے کہ یہ اپنے آبائی ٹھکانے کو نہیں بھو لتا۔اپنا ، اڑ یل پن اسے وہیں پہ یاد آ تا ہے۔آج اسے اماں بہت یاد آ رہی تھیں۔کاش ان کی نصیحتوں کو پلے باندھ لیتی۔جس طرح بزرگوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ”اولڈ از گولڈ“ اسی طرح بز ر گو ں کی باتیں بھی وزن رکھتی ہیں۔عورت کی ذمہ داریاں گو کہ مرد سے مختلف ہیں لیکن وہ انہیں مرد کے تعاون کے بغیر احسن طور ادا نہیں کر سکتی ۔رشتو ںکی گتھیا ں سلجھا نا اکیلی عورت کے بس میں نہیں ہوتا۔میکے سے رخصتی کے بعد تواس کی خو شیو ں کا انحصار مرد کے بر تا ﺅ کا مر ہو ن منت ہوتا ہے۔
گرما کی تعطیلات پر جانے سے قبل ہونے والی چق چق اسے ابھی بھو لی نہیں تھی۔یہ لے لو،وہ لے لو ،دیکھنا کوئی رہ نہ جائے، اس صورتحال نے دماغ خراب کر رکھا تھا ۔ویسے تو گھر کے کسی معاملے کی فکر نہیںکی لیکن آج اپنو ں سے ملنے چلے تو لینا دینا کیا ہو تا ہے ،سب یا د آ گیا ۔وہ غصے سے چیز یں ادھر اُدھر پٹخنے لگی۔وطن سے واپسی کل ہی تو ہو ئی ہے ۔اسکول کھلنے والے ہیں۔بچوں کے لئے ابھی تیاری بھی کرنی ہے ۔گروسری ،بک شاپ اور یو نیفارم کی خریداری،وہ پھر بڑ بڑانے لگی ۔سہ پہر کی چا ئے پر وہ کہیں مد عو تھی۔وہا ں اسے کا فی سکون ملا کیو نکہ ہم خیال خواتین کا گروپ تھا۔گفتگو کا مو ضو ع تھا کہ ”تعطیلات پر جا کر شوہر بدل کیو ں جاتے ہیں۔“
٭٭نادیہ بو لیں کہ ان کے شوہرتو ائیر پو رٹ سے ہی بدل جاتے ہیں۔مز اج کی گر می100 ڈگری کو چھونے لگتی ہے ۔وطن پہنچ کر اپنے گھر والو ں کونجانے کیا جتانا چاہتے ہیں؟جٹھا نی بتا رہی تھیں کہ یوںہی گزرتے ہوئے اس کے کان میں بھنک پڑی کی وہ بیگم سے خوش نہیں ہیں۔اپنی امی جان کے آگے رونا رو رہے تھے ۔اس پر اماں کی ہمدردیاں وصول ہو رہی تھیں۔دل چا ہا ابھی چھو ڑ دوںاور بو لوں جاﺅ ، دوسرا بیاہ رچا لو لیکن پھر بچو ں کی شکلیں سامنے آ گئیں چنانچہ ضبط کر لیا،صبر سے کام لیا ۔
٭٭شائستہ نے کہا کہ نجانے کیوں بدل جاتے ہیںیہ مو سمو ں کی طرح۔ وطن پہنچ کر بات بات پر تلخ زبانی انکا وتیرہ بن جاتی ہے ۔اب یہا ںآئے تومنانے لگے ہیںکہ دیکھو ناں، اصل میں یہ وجہ تھی اور وہ وجہ تھی ۔مگر میرا سوال یہ ہے کہ یہاں آ کر کیو ں بول رہے ہیں، اپنوں کے سامنے میری کچھ تو عزت رکھی ہو تی۔گھر سے بات باہر نکل جاتی ہے کہ دو نوں میاں بیوی میں ان بن رہتی ہے۔کس کس کو بتا ﺅ ں کہ پردیس میں تو یہ محترم جورو کے غلام بنے رہتے ہیں ۔میں تو شکر کرتی ہو ں کہ سسرالیوں کے قریب نہیں رہتی ورنہ کب کی علیحدگی ہو چکی ہوتی۔نہ جانے یہ سسرالی رشتے اپنے کیو ں نہیں بنتے ؟انہیں کتنا بھی اپنا بنانے کی کوشش کریں، بالآخر انہوں نے ڈسنا ہی ہوتا ہے۔اسی طرح اور خواتین نے بھی یہی رونا رویا تومیری ڈھارس بند ھی کہ صرف میرے ہی نہیں اوروں کے مسائل بھی کم و بیش ایسے ہی ہیں۔
٭٭پروین ہمیشہ سننے والوں میں شامل رہتی ہیں۔آخر میں اپنے خیالات کا اظہار کر کے اکثر مثبت سوچ چھوڑ دیتی ہیں ۔کہنے لگیں کہ ارے اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟یہ تو گھر گھر کا مسئلہ ہے ۔آخر سال کے 11 ماہ تو وہ ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔شاید یہ ایشیائی ممالک کی روایت ہے کہ بیوی میںہر حال میں کیڑ ے ہی نکالیں جائیں۔نا شکری کی بھی کو ئی حد ہو تی ہے۔ہاں ایک بات کروں، پلے باندھ لینا کہ مردوں کی ذمہ داریاں بدلتی ہیں وہ خود نہیں بدلتے۔شاید وہ سمجھداری سے کام لیتے ہوئے خاندانی گرہ کو باندھے رکھنے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔رشتوں کے ترازو کو متوازی رکھنا آسان نہیں ہو تا ۔سسرالی سوچ کو آج تک توکوئی بدل نہیں سکا ۔شوہر، بیوی کا خیال رکھے تو اسے ”جو رو کا غلام“ ، جیسا طعنہ سننا پڑ تا ہے ۔ہمیں تعطیلات پر کمپرو مائز کر لینا چاہئے۔شوہروں کو اکثر بہت سے کام نمٹانے ہو تے ہیں ایسے میں باہمی چخ چخ مزید دماغ خراب کردیتی ہے ۔وہ بھی ما حول کی تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں جس کا وہ اظہار نہیں کر پاتے۔تنگ آ کر رد عمل کا شکار وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ قریب ہوتاہے اور جس پر زیادہ حق سمجھاہے ۔اس لئے نہ خود پریشان ہونا چاہئے اور نہ ہی ان کو پریشان کرنا چاہئے بلکہ جیو اور جینے دو کی پالیسی رپر عمل پیرا رہنا چاہئے۔
ارم پر پروین کی باتو ں کا گہرا اثر ہوا ۔اسے ملال ہوا کہ اس کے شکوک و شبہات بے معنی ہی تھے ۔بد مز گی کا اسے افسوس ہو رہا تھا لیکن اب کیا کر سکتی تھی کیو نکہ چڑ یا ں تمام کھیت چگ چکی تھیں ۔آج کے اس مو ضو ع پرمردوںکے خیا لات کو پرکھنا بھی ہم نے ضروری جاناچنانچہ فو ن پر ہی شمشاد صاحب پر سوالات کی بو چھا ڑ کر ڈالی۔ذرا توقف ہوا تو بولے یہی تو آپ خواتین میں کمی ہے،جلد با زی میں سوچ پر پہرے بٹھا لیتی ہیں۔اس مسئلے میں صرف میاں بیوی کے درمیان رابطے کی کمی ہے جو مخمصے کا شکار کرتی ہے یا شبہات کو جنم دیتی ہے۔جب میاں بیوی کوازدواجی گا ڑی کے دو پہئے تسلیم کر لیا گیا ہے تو پھر صرف مرد کو ہی مو رد الزام کیو ں ٹھہرایا جاتا ہے ۔وطن پہنچ کر ہمارا بدلنا،صرف یکطر فہ نا سمجھی ہے ۔ہم ما حول سے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔والدین ، بہن بھائی اور دوسرے رشتے ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔ان کے مسائل کا حل اکثر ہمارے پاس نہیں ہوتالیکن ہم انہیں کچھ وقت دے کر تسلی کا مو جب تو بن سکتے ہیں۔تھو ڑے وقت میں کام زیادہ کرنے ہو تے ہیں۔ایک سمجھدار خاتون اسے” بدلنے “کا نام نہیں دے سکتی ۔بیویو ں کے ایسے رویے اضطراب کا باعث بنتے ہیں اور ہماری چھٹی بھی بدمزگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ہمارے ان رویو ں سے وہاں والے بھی متا ثر ہو تے ہیں۔وطن سے دور رہنے والی خواتین تنہا رہنے کی عادی ہو جاتی ہیں۔اپنی ہی ذات کے خول میں بند رہ کر وہ کسی تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کر پاتیں۔عورت کی عقل اور ذمہ دارانہ فطرت یہا ں آ کر دم تو ڑ دیتی ہے ۔کاش یہ مثبت و منفی ما حول کو فرا خدلی سے قبول کر لیں ۔سارے جھگڑے ختم ہو جائیں گے ۔منافقت کی زندگی رشتوں میں زنگ لگا دیتی ہے اور اگر اس گاڑی کے پہیوں میں زنگ لگ جائے تویہ گھسٹنے پر مجبور ہو جاتی ہے چنانچہ کیوں نہ:
چرا غوں کو ستارا کر لیا جائے
کو ئی تواچھا کام کر لیا جائے
کبھی دریا کو آ نکھیں سو نپ دی جائیں
کبھی آنکھو ں کو دریا کر لیا جائے
نظر آئے گی پھر شفاف دنیا
اگر خود کو ہی شیشہ کر لیا جائے