چوراہوں پر خاموش احتجاج، بری بات ہرگزنہیں
بعض انجمنیں ایسی بھی ہیں جوناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں
عنبرین فیض احمد۔ ریاض
وطن عزیز پاکستان میں بے شمار تنظمیں سرگرم عمل ہیں جن میں مذہبی، سیاسی ، سماجی اور ثقافتی تنظیموں کے علاوہ کچھ ایسی انجمنیں بھی ہیں جو ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔بعض ایسی بھی ہیں جوناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ یہ سادہ لوح افراد سے پیسے بٹورتی ہیں اوربعدازاں ان کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ آبادی کی اکثریت سیدھی سادھی ، رحم دل ہے جو ان کی باتوں میں آجاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسے تنظیموں سے منسلک لوگ خیرات زکوٰة کے نام پر بڑی رقوم بٹورنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان سے کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رکھے، آمین۔
ملک میں مختلف فلاحی ادارے بھی سرگرم ہیں جنہیں ہماری عوام سالانہ 754 بلین روپے عطیات دیتی ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوام کے دیئے ہوئے اس عطیے کا 30 فیصد غیر تصدیق شدہ اداروں کو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ عطیات و صدقات دینے سے پہلے خیراتی اداروں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جائیں کہ جنہیں عطیہ دیا جارہا ہے وہ انتہاءپسند اور دہشت گرد گروہوں تک تو نہیں پہنچ رہا۔ کچھ شخصیات گھر گھر جاکر چندہ جمع کرتی ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد خیراتی مقاصد کیلئے چندہ اکٹھا کرنا ہوتا ہے مگر اس کے پسِ پردہ عوامل کچھ اور ہی نظر آتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام جن لوگوں یا فلاحی اداروں کو عطیات دیتے ہیں، انہیں چاہئے کہ سوچ سمجھ کر اور ٹھوک بجاکرعطیات دیں ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس وقت عطیات جمع کرنے والوں کااتوار بازار لگا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں مردوں ، عورتوں کے علاوہ معصوم بچے بھی ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں ۔ بعض اوقات انہیں دیکھ کر طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے لیکن آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ گداگروں کا طاقتور مافیا ہے جو چوراہے ، سگنل وغیرہ ٹھیکے پر دیتا ہے۔
بعض شہر تو پیشہ ورگداگروں کیلئے کمائی کا ذریعہ ہیں جیسے کراچی ۔ اندرون ملک سے ٹرینوں، بسوں اور دیگرذرائع سے گداگروں کے غول کراچی آتے ہیں اورشہر میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بہت زیادہ ہے اس لئے ہر شخص اپنی جگہ پریشان ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ میڈیا بھی ان نام نہاد فلاحی اداروں کی ساکھ کو آسمان تک پہنچانے یافرش پر پٹخنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ مذہب کے نام پر عطیات جمع کرنے کا رواج عام طور سے نظر آتا ہے۔ متعدد تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو محض عطیات پر ہی چل رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی تعلیم انتہائی ضروری ہے لیکن ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیںہوتیں۔ لوگوں کو چاہئے کہ کوئی زبردستی چندہ وغیرہ مانگنے آئے تو قانون نافذ کرنے والوں کو اطلاع دیں۔
وطن عزیز میں خدمت خلق اور انسانیت کا درد رکھنے والے بے شمار فلاحی ادارے کام کررہے ہیں۔ بعض اداروں نے ساکھ اس حد تک قائم کرلی ہے کہ عطیات دینے والے آنکھ بند کرکے ان پر اعتبار کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ادارے مسلسل ترقی کررہے ہیں۔ دھنک کے صفحہ پر جو تصویرشائع کی گئی ہے اس میں ایک تنظیم کے لڑکے اور لڑکیاں کراچی کے عوام کی آگہی کیلئے بینر اٹھائے ہوئے ہیں کہ اپنے عطیات و خیرات صحیح جگہ استعمال کریں۔ انہیں غلط ہاتھوں میں جانے نہ دیں بلکہ ایسی جگہ دیں جو ان کو حقداروں تک پہنچائے۔ یوں تو دنیا بھر میں ہمارے ملک کے بارے میں کافی منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے لیکن یہ بات دنیا کے بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستانی قوم اپنے بھائیوں کیلئے کس طرح مدد کرتی ہے ۔ دوسری طرف بعض تنظیمیں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں جن پر حکومت کو چاہئے کہ نظر رکھے۔
یوں تو تنظیموں کا ہونا معاشرے میں ایک ضروری عمل ہے۔ بعض تنظیمیں غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہیں جیسے تعلیم، صحت، رہائش، کھانے پینے کا انتظام، چادر او ر چہار دیواری کا تحفظ وغیرہ ۔ایسی تنظیمیں ضرورت مندوں کا سہارا بنتی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسی مخلص تنظیموں کی مدد کرے ۔
یہ درست ہے کہ رائے کا اظہار کرنا چاہئے، پلے کارڈ یا بینر اٹھاکر مہذب طریقے سے چوراہوں پر کھڑے ہوکر خاموش احتجاج کرنا کوئی بری بات نہیں۔ اس طرح عام شہری تک بآسانی پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ کسی مسئلے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو تو شور شرابے، توڑ پھوڑ، جلسے جلوس، ریلیوں یا دھرنوں کے بغیر بھی دنیا کو آگہی دی جاسکتی ہے۔ اس طرح خاموش احتجاج کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا اچھا عمل ہے جس کی ہمارے معاشرے میں اشد ضرورت ہے۔ ہر کام شروع کرنے سے پہلے اس کے مثبت پہلووں کو ضرور دیکھنا چاہئے کہ کس طرح بہتری آسکتی ہے اور عوام الناس کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ ہم مہذہب قوم ہیں اور ایسی اقوام کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی قسم کی غلط یا منفی حرکت کریں۔