Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغلگیر

آزادی کشمیر اب تک سوا لاکھ شہداء کی قربانی لے چکی ہے، انہیں اب کوئی شیخ عبداللہ میسر نہیں ہوگا
* * * جاوید اقبال* * *
مومن ایک سوراخ سے 2بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی پر واضح کیا جاتا ہے کہ کشمیر کے پلوں کے نیچے سے وادی کے مسلمانوں کا اتنا خون بہہ چکا ہے اور گزشتہ7دہائیوں کی تاریخ کے اوراق اتنے اشک آلودہوچکے ہیں کہ اب کوئی بھی دام ہمرنگ زمین وہاں آزادی کی لہر کے آگے دیوار کھڑی نہیں کرسکتا۔ نریند مودی نے اپنے 15اگست کے خطاب میں تسلیم کیا ہے کہ اب کشمیر میں گولی اور گالی نہیں چلیں گی۔ اب کشمیریوں کو گلے لگانا ہوگا۔ قدرت اللہ شہاب کے شاہکار ’’شہاب نامہ‘‘ سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ اس خود نوشت سے ایک اقتباس انتہائی برمحل ہے۔ 1933ء میں سرینگر پتھر مسجد میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد ڈالی گئی۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ 1935ء میں جب اسمبلی کیلئے پہلی بار انتخاب ہوئے تو شیخ محمد عبداللہ مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر اسمبلی میں شامل ہوئے۔7برس تک شیخ صاحب اور چوہدری غلام عباس کا گہرا پرخلوص اور برادرانہ باہمی تعاون اور ساتھ رہا۔ مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ان دونوں رہنمائوں نے پاپیادہ چل کر ریاست کے چپے چپے میں عوام الناس میں سیاسی بیداری کی زبردست روح پھونکنے کا شاندارکارنامہ انجام دیا۔ ان دنوں شیخ صاحب اپنی تقریر قرآن حکیم کی قرأت اور اسکے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع کرتے تھے انکی آواز لحن دائودی کا سماں باندھ دیتی تھی۔
انکی تقریر میں آتش بیانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی۔ اسی طرح چوہدری غلام عباس بھی سادگی، خوش بیانی، ملاحت اور جذبات کی فراوانی کا بیحد خوبصورت مجسمہ تھے۔ ان دونوں کی تقریروں کو لوگ سحر زدہ سامعین کی طرح مبہوت ہوکر سنتے اور تڑپتے تھے۔ بعض دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔ مسلمان عوام کو ریاست کے طول و عرض میں اس طرح بیدار اور منظم ہوتے دیکھ کر ہندوئوں کے پیٹ میں بھی مروڑ اٹھا اور انہوں نے ڈوگرہ حکام سے مل کر ہندوستان سے ایک جارحانہ ہندو تحریک راشٹریہ سیوم سیوک سنگ کو دعوت دی کہ وہ جموں و کشمیر میں بھی اپنے اڈے قائم کرنا شروع کردے۔ چنانچہ مسلم کانفرنس کے قیام کے 2برس بعد 1934ء میں آر ایس ایس نے اپنا کام شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سرینگر، جموں ، میرپور، کوٹلی، اودھم پور اور کٹھوعہ کے علاوہ دیگر کئی مقامات پر بھی اپنے اکھاڑے قائم کرلئے۔ ادھر عوامی سطح پر راشٹریہ سیوم سیوک سنگ نے اپنا کام شروع کیا ادھر آل انڈیا کانگریس کی قیادت نے شیخ عبداللہ پر ڈورے ڈالنے شروع کردیئے۔ اس سیاسی مہم کے سرغنہ موہن داس گاندھی اور جواہر لال نہرو بنفس نفیس پیش پیش تھے۔
یہ تو غالباً وثوق سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کانگریس کے کیوپڈ نے شیخ صاحب کے دل پر کیا کیا تیر چلائے لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کی 7سالہ بے تاج بادشاہی کے بعد 1939ء میں شیخ عبداللہ سیاست اسلامیہ کی ہمالیہ کی چوٹی سے لڑھک کر منہ کے بل گرے اور ہندو کانگریس کی جھولی میں دھم سے آپڑے۔ زوال کے اس محل میں ان کے چہرے پر سجی ہوئی نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب ریش مبارک آناً فاناً غائب ہوگئی اور انکی سرکی سج دھج ایک سرخ رنگ کی ترکی ٹوپی بھی راستے میں کہیں گر کر کانگریس کی گنگا میں ڈوب گئی۔ مسلم کانفرنس سے رشتہ توڑ کر شیخ صاحب نے آل انڈیا کانگریس سے فیضان اور وجدان اور رہنمائی حاصل کرکے جموں و کشمیر نیشنل پارٹی کا ڈول ڈالا اور یہ پارٹی شروع سے ہی آل انڈیا کانگریس کی داسی بنی رہی ہے۔ اسکے برعکس چوہدری غلام عباس کی قیادت میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے ہمیشہ پاکستان کا غیر مشروط وفاداری سے ساتھ دیا ہے۔ شیخ محمد عبداللہ کی اس کایا کلپ کے بارے میں وقتاً فوقتاً طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور افواہیں جنم لیتی رہی ہیں۔ اس زمانے میں ایک افواہ جو ریاست کے طول و عرض میں انتہائی شدت سے گردش کررہی تھی اس کا تعلق جموں و کشمیر کے وزیراعظم سرگوپال سوامی آئینگر سے تھا۔ یوں تو یہ حضرت انڈین سول سروس کے افسر تھے لیکن در پردہ کانگریسیوں کے ساتھ گہری ساز باز رکھتے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد وہ ہند کی کابینہ میں بھی شامل کرلئے گئے تھے۔مشہور ہے کہ شیخ عبداللہ کو کانگریس کی جھولی میں ڈالنے کیلئے وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے انواع و اقسام کی ریشہ دوانیوں سے کام لیا ۔
ان میں سے ایک افواہ یہ گرم تھی کہ کسی ہیر پھیر سے انہوں نے شیخ عبداللہ کو 2کروڑ روپے کا جنگلات کا ٹھیکہ بھی دیدیا تھا۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم مودی نے حالیہ عشروں کی تاریخ کشمیر کا واجبی سا مطالعہ کیا ہے ورنہ چند خونی اور تلخ حقائق انکے علم میں ضرور ہوتے۔ انہیں معلوم ہوتا کہ اب تک آزادی کشمیر کی تحریک سوالاکھ شہداء کی قربانی لے چکی ہے۔ ہندوستانی فوج کے زیر استعمال چھرے دار بندوقیں ہزاروں کشمیریوں کو نابینا کرچکی ہیںاور ہزاروں قبروں پر بیوائیں او ریتیم بچیاں سرشام اشک آلود آنکھوں سے چراغوں کو لو دکھاتی ہیں۔ نریند مودی نے اپنے خطاب میں واضح کیا ہے کہ وہ اب کشمیریوں کو گلے لگانے کی حکمت عملی اختیار کرینگے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ اب ہندستانی وزیراعظم کو کشمیر کے ہر گھر میں برہان وانی تو ملے گا ساری ریاست سے 1939ء والا شیخ عبداللہ میسر نہیں ہوگا۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا۔ آج کا کشمیری جسکی بغل میںچھری ہو اس سے بغلگیر نہیں ہوگا۔

شیئر: