Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک سوال ٹرمپ کے لئے!

کرہ ارض کی اکلوتی سپر پاور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے ایک سوال!
* * *جاوید اقبال* * *
کل جب 9ذوالحجہ کو میدان عرفات میں زمین کے گوشے گوشے سے آئے 25 لاکھ نے صدائے گریہ اٹھاتے ہوئے دست ہائے دعا درازکئے ہوں گے خالق کائنات سے اپنی اور اپنے اعزاء کی زندگیوں کیلئے مناجات کی ہوں گی، اقرباء کیلئے روز حساب کی آسانیوں کیلئے التجائیں کی ہوں گی اور رفتگان کیلئے فردوس کی گزارشیں کی ہوں گی تو یہ سوال ٹرمپ کیلئے ہے کہ سفید چادروں میں لپٹے ان 25 لاکھ بدنوں میں سے کتنوں نے خالق کائنات سے گڑگڑا کر ٹرمپ کی طوالت اقتدار یا درازی عمرکیلئے التجا کی ہوگی؟ جواب کیلئے زیادہ دیر منتظر نہیں رہنا پڑے گا۔ ایک ثانیے کے ہزارویں حصے میں سے یہ سامنے آکھڑاہوگا۔ان ڈھائی ملین ضیوف الرحمان نے متعدد التجاؤں کے ساتھ پروردگار سے یہ درخواست تو کی ہوگی کہ وہ کرہ ارض کو امن کی نعمت عطا کردے لیکن کسی ایک نے بھی، فرد واحد نے بھی اپنے ذہن میں اپنے ہونٹوں پر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام نہیں آنے دیا ہوگا۔
ڈونالڈ ٹرمپ ایک سراب زدہ اور خوش فہم آدمی لگتے ہیں۔ جس امریکی عظمت و سطوت کا سہارا لے کر انہوں نے اپنی افغانستان پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کیلئے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے اسکے چند حقائق ان کی معلومات میں اضافے کیلئے یہاں تحریر کئے جارہے ہیں۔ امریکی محکمہ ہاؤسنگ و شہری ترقی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کسی بھی وقت 6 لاکھ شہری بے گھر ہوتے ہیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک لاکھ لوگوں میں اوسطاً 195 افراد کے سرپر چھت نہیں ہوتی اور وہ سڑکوں ، گلیوںاور پارکوں میں شب بسری کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ بے خانماں جزیرہ ہوائی میں ہیںجہاں فی لاکھ 465 افراد کے پاس اپنی رہائش نہیں۔ دوسرے نمبر پر کرہ ارض کا جدید اور طاقتور ترین شہر نیو یارک ہے جہاں فی لاکھ 399 افراد بے گھر ہیں۔ معروف اور درخشاں ترین فلم انڈسٹری کا گھر کیلیفورنیا ملک میں بے گھر وبے در ہونے کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ فی لاکھ 367 خانماں برباد افراد اس جگمگاتے شہر کی تاریکیوں میں سڑکوں پر محو خواب ہوتے ہیں۔ اس آبادی میں جسمانی اور ذہنی طور پر معذور افراد کو زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ لوگ گلیوں ، پارکوں اور گاڑیوں میں رات گزارتے ہیں۔ اسکے علاوہ امریکہ میں حصول روزگار میں بھی شہریوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ امریکی دفتر شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2017 میں 60 لاکھ افراد بے روزگار تھے جن میں سیاہ فاموں کی اکثریت تھی۔ ان کے علاوہ 53 لاکھ افراد جزوقتی ملازم تھے۔ ان اقتصادی مشکلات کا اثر بچوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس وقت 3 کروڑ بچوں سے زیادہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ان میں سے 40 فیصد وسائل نہ ہونے کی بناء پرپرائمری مدارس میں بھی داخلہ نہیں لے پارہے ۔ ان کی بڑی تعداد اوائل عمر سے ہی محنت و مشقت میں پڑجاتی ہے۔ اس طرح کی نادار زندگی گزارتے گزارتے بچے جرائم کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔اس وقت امریکی شہروں میں کم عمر مجرموں کی آبادی کے لحاظ سے شرح دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ بہت بڑے تاجر ہیں۔ ان کا ماضی بڑے شہروں کی روشن شاہراہوں پر جھلملاتی بلند بام عمارات تعمیر کرتے گزرا ہے۔ وہ کروڑوں میں کھیلتے رہے ہیں لیکن امریکہ کا ایک اور چہرہ بھی ہے جس سے ڈونالڈ ٹرمپ آگاہ نہیں۔ کسی دن کسی فور یا فائیو اسٹار ہوٹل کی عقبی سڑک پر رات کے پچھلے پہر نکل جائیں۔فٹ پاتھ پر درجن کے لگ بھگ ان کے نادار ہموطن نیم خوابیدہ ہوں گے۔ ٹرمپ ذرا انتظار کرلیں اور اگلا منظر دیکھیں۔ ہوٹل کی انتظامیہ گاہکوں کا بچا کچا کھانا فٹ پاتھ پر رکھے بلدیہ کے کوڑا دانوں میں پھینکے گی۔ تب وہ گٹھریاںبنے نیم خوابیدہ بدن ہڑ بڑا کر اچھلیں گے اور کوڑا دانوں کے گرد ہجوم کر جائیں گے۔ وہ ان ڈبوں میں پھینکے مواد میں سے خوردنی اشیاء چن کر وہیں پیٹ بھرنا شروع کردیتے ہیں۔ نیم تاریک رستے پر متحرک بوڑھے بے گھر، بدن بے کسی کی تصویر ہوتے ہیں۔بھوک مٹنے کے بعد وہیں ادھر اُدھر منتشر ہوتے ہیں اور کونوں کھدروں میں اپنے مضمحل بدن نیند کی آغوش میں گرا دیتے ہیں۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے منظر یقینا ہوش ربا ہوگا لیکن سب سچ ہوگا۔ ڈوبتی راتوں میں بڑے شہروں میں ہزاروں کوڑا دان کئی ہزار امریکیوں کی رشتۂ جسم و جاں استوار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ اسلام دشمن بیانات نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ انہوں نے قطعاً اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ میں کتاب فرقان سے ایک آیت ربانی کا حوالہ دے کر بات آگے بڑھاؤں گا۔ ارشاد ہے : ’’ اور ہم ایام کو انسانوںمیں گردش دیتے رہتے ہیں۔‘‘ اسی فرمان تعالیٰ کو حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ایک دلکش مصرعے میں یوں بیان کیا ہے ’’ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ ڈونالڈ ٹرمپ اپنی انتہائی مصروف زندگی میں سے چند لمحات نکال کر استعماری عہد اور حالیہ تاریخ کا مطالعہ کرلیں۔ رب کریم نے بڑے سبق آموز اور منظم انداز میں تاریخ کو گھماکر ، دہرا کر اپنی قدرت کا ثبوت دیا ہے۔ استعماری قوتیں اور اپنا سورج ہمیشہ نصف النہار پر رکھنے والے برطانیہ بھی 9,8 دہائیں کی داستان ہی ثابت ہوئے۔ کمیونزم کا غلغلہ بھی 1917 میں اٹھا اور 1990 میں 7 دہائیاں ہی عالمی تاریخ سے لے سکا۔ رہاستہائے متحدہ امریکہ بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد عروج آشنا ہونا شروع ہوا۔ 7 دہائیاں ہوچکیں اور قدرت تو دنوں کو بنی نوع انسان میں گھماتی رہتی ہے۔ ڈونالڈٹرمپ تاریخ کا مطالعہ ضرور کرلیں اور سنبھل جائیں۔ افغانستان پر اختیار کی گئی غلط پالیسی کہیں انہیں رہاستہائے متحدہ امریکہ کا گورباچوف نہ بنادے۔

شیئر: