ہم جب کہیں کسی فوجی کو دیکھتے ہیں تو ہمارے’’ غیر مرئی اندرونی وجود‘‘پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے
* * * شہزاد اعظم۔جدہ* * *
سٹی انتہائی قیمتی شے ہے ۔ یہ گُم ہو جائے تو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ اس کے ہاتھوں کے توتے توتیاں سب اُڑ جاتے ہیں۔ اسی لئے ہر ا نسان کی اولیں کوشش، جد و جہد اور تمنا یہی ہوتی ہے کہ سٹی کبھی گُم نہ ہو۔ان تمام تر کوششوں کے باوجود ہر انسان کی سٹی کبھی نہ کبھی گُم ضرور ہوتی ہے۔ ہم چونکہ انسان اور خاص طور پر ’’اہلیانِ پاکستان ‘‘ میں شامل ہیں اس لئے نصف صدی کے عرصے میں کم سے کم 5مرتبہ ہماری سٹی گُم ہوئی۔
ہم ان میں سے صرف تیسری مرتبہ گُم ہونے والی سٹی کی مختصر تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ سٹی اتنی ’’شدید گُم‘‘ہوئی تھی کہ ہمیں یقین ہے یہ آخری ہچکی تک ہمیں اسی طرح یاد رہے گی جس طرح ’’اِک دونی دونی، دو دونی چار‘‘یادہے۔ہوا یوں کہ : 80ء کی دہائی تھی، شہر کراچی کی سڑکوں سے ’’بے جان انسانوں کی بوریاں‘‘ملنے کا سلسلہ ابھی شروع ہی ہوا تھا، لوگ’’زندگی کی اس اندازمیں رسوائی ‘‘کے عادی نہیں ہوئے تھے۔انہی دنوں شہر میں کہیں2 افراد کے مابین تو تکار ہوئی ، بات گالی گلوچ سے ہوتی ہوئی ہاتھا پائی تک پہنچی اور پھر یوں ہوا کہ ایک فریق نے دوسرے کی چق چق سے اُکتا کر ٹی ٹی نکالی اور اسے گولی مار کر خاموش کر دیا۔ کچھ دیر گزری تو اُس ’’خاموش مقتول‘‘ کے طمنچہ بردار حمایتی وہاں آ نکلے، انہوں نے قاتل کے اعزہ و احباب کو’’ مقتول‘‘بنا ڈالا۔ پھر کیا تھا، پورے شہر کی فضائیں تڑتڑانے لگیں۔ دکانیں بند ہوگئیں،شاہراہوں پرجا بجا ٹائر، ٹیوب،فرنیچر، موٹر سائیکل، کار، ٹرک، ویگن اور بس وغیرہ کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی ۔ یوں نفرتوں کے الاؤ تیار کئے جانے لگے۔شہری انتظامیہ شر پسندوں کو سامنے لانے، انہیں کیفر کردار تک پہنچانے ا ور شہریوں کو امن و سکون فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی۔
مختلف شاہراہوں سے برآمد ہونیوالی بوری بند انسانی باقیات کی تعداد درجن سے زائد ہو گئی توذمہ دارانِ شہر نے مجبور ہو کر فوج کو بلا لیاچنانچہ حقیقتِ حال یہ تھی کہ جب ہم دفتر گئے تو صرف اکا دُکا دکانیں بند تھیں اور جب ’’اخباریات ‘‘سے فارغ ہو کر واپس لوٹے تو سبھی کچھ بند تھا۔ فوج نے شہری انتظامیہ سے تمام انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ہم خوف اور سناٹے کے باعث موٹر سائیکل پر دوست کوبٹھائے گھر کی جانب سرپٹ دوڑے جا رہے تھے ۔ پرانا گولیمار کے پل سے اترے تو اندھیرے میں ایک ٹارچ روشن ہوئی جس کی چکا چوند نے ہماری نظریں خیرہ کر دیں۔ اسکے ساتھ ہی سیٹی بجی اور ہمیں موٹر سائیکل روک کر نیچے اترنے کیلئے کہا گیا۔ ہم موٹر سائیکل روکنے میں محو تھے کہ اسی اثناء میں ہمارے ہم سفر نے جیب سے اپنا اخباری کارڈ نکالنے کی سعی کرتے ہوئے کہا کہ جناب! ہم ’’اخباری‘‘ ہیںاور اخبار کے دفتر سے آ رہے ہیں۔ یہ جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی فلک شگاف ، گرجدار آوازبلند ہو ئی کہ ’’چُپ کر اوئے اخبار دا پُتر‘‘۔یہ جملہ ہماری سماعتوں کو چیرتا ہوااتھاہ گہرائیوں میں اُتر گیا اور ہماری سٹی گُم ہوگئی۔بہر حال24گھنٹوں کے اندر ا ندرفوج نے سب کو ’’بندے دا پُتر‘‘ بننے پر مجبور کر دیا اور تمام صورتحال معمول پر آگئی۔ اُس روز کے بعد سے ہماری نفسیات کا یہ عالم ہے کہ ہر وہ جملہ جس کے آخر میں ’’پُتر‘‘ یا جس کے شروع میں ’’چُپ‘‘ آتا ہو، وہ نہ صرف ہم دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں بلکہ اسے اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی ہماری سٹی گُم ہو جاتی ہے، جسم کپکپانے لگتا ہے ۔
ہم ’’ہاتھ میں لئے ہوئے قانون‘‘ کو واپس پھینک دیتے ہیں۔ گردن اور نگاہیں جھکا لیتے ہیں۔ندامت ہمیں اپنے نرغے میں لے لیتی ہے،شرم ہمیں چہار جوانب سے گھیر لیتی ہے۔ غصہ ہمارے وجود سے نابود ہو جاتا ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، فیصلہ کرنے کی قوت، بات کرنے کی جرأت،وضاحت کی استطاعت سب کی سب مفقود ہو جاتی ہیں۔ اس ’’سانحے‘‘ کے بعد سے ایسا ہو گیا کہ ہم جب کہیں کسی فوجی کو دیکھتے ہیں تو ہمارے’’ غیر مرئی اندرونی وجود‘‘پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور ہم اپنی چال ، ڈھال، بال ، کھال ، قیل ، قال سب کی سب انسانی قواعد و ضوابط کے عین مطابق کر لیتے ہیں اور دیکھنے والا جب ہمیں دیکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ جیسے کوئی’’سراپا62،63 ہستی‘‘ جا رہی ہے۔ ۰۰۰آج اُس بات کو 3دہائیاں گزر چکی ہیں۔بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اُس زمانے میں نہیں تھیں، آج ہیں۔مثال کے طور پر ہمارا بھانجہ اُس دور میں نہیں تھا، آج ہے۔ کل اس نے اپنے’’آئمو پہ ماموں‘‘ سے سوال کیا کہ یہ بتائیے کہ کسی بھی شہر یا شہروں میں امن و امان کی صورتحال تتر بتر ہونے لگے تو انتظامیہ فوج کو طلب کر لیتی ہے۔ہم نے کہا بے شک۔پاکستان میں 2005ء کا زلزلہ آیا تو سول انتظامیہ کوشش کے باوجود متاثرین کی بحالی کے انتظامات نہیں کر سکی چنانچہ اس نے فوج کو بلا لیا، اس نے مناسب وقت میں انتظامات کئے اور واپس چلی گئی۔ہم نے کہا بے شک۔اسی طرح جب بھی سیلاب آتا ہے، ہزاروں دیہات تباہ اور لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوتے ہیں۔ پانی میں گھرے لوگوں کو نکالنے اور ان کی زندگیاں بچانے میں سول انتظامیہ جب کامیاب نہیں ہو پاتی تو فوج کو بلا لیاجاتا ہے ، وہ مناسب مدت کے اندر تمام صورتحال معمول کے مطابق کر کے واپس چلی جاتی ہے۔ہم نے کہا بے شک۔
ڈاکٹروں نے ہڑتا ل کی،مریض علاج معالجے کی دہائیاں دیتے اور ایڑیاں رگڑتے مر گئے مگر ’’ دکھی انسانیت کی خدمت ‘‘ کے ’’نام نہاد دعویداروں‘‘نے اپنی ضد ترک نہیں کی ۔ حالات جب سول انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوئے تو فوج کو بلایا گیا، اسکے مرد اور لیڈی ڈاکٹروں نے مریضوں کی مثالی خدمت کی اور شہری ڈاکٹروں کی ضد ختم ہوئی تو وہ واپس چلے گئے۔ ہم نے کہا بے شک۔بھانجے نے کہا کہ کراچی میں کتنی خوفناک طوفانی بارش ہوئی۔ عروس البلاد کی سڑکوں اور گلیوں میں جا بجا لگے غلاظتوں کے ڈھیروں کوپانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ۔ نکاسی کی لائنیں اور برساتی نالے سب کے سب بند ہوگئے ۔شہری انتظامیہ فنڈز نہ ہونے کا شکوہ کرتی رہی اور صوبائی حکومت ادا کئے گئے فنڈز کے اعداد و شمار بیان کرتی رہی۔ اسی دوران ایک جملہ یہ بھی سننے کو ملا کہ شہر کی انتظامیہ کو کچرا صاف کرنے کیلئے کروڑوں دیئے گئے مگر کچرا تو صاف نہ ہوا البتہ کروڑوں ’’صاف‘‘ ہوگئے۔بہر حال کراچی میں طوفانی بارش سے درجن سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں جن میں خواتین و بچے شامل ہیں۔ کئی لوگ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے۔
بعض افراد گٹر میں ڈوب کر لقمۂ اجل بن گئے۔ صورتحال انتظامیہ سے بے قابو ہوگئی تو فوج کو بلا لیا گیا جس نے نکاسی آب کا انتظام کیااور حالت کو معمول پر لانے میں مصروف ہوگئی۔ہم نے کہا بے شک۔ بھانجے نے کہا کہ ماموں! عوام نے اپنے مسائل حل کرنے کیلئے نمائندوںکو اسمبلیوں میں بھیجامگر انجام یہ ہوا کہ مسائل میں اضافہ ہو گیا، دھاندلیاں بڑھ گئیں، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے الزامات کا طومار بندھ گیا، ’’انتہائی منتخب رہنما‘‘ نااہل قرار پا گئے۔ کلبھوشن، پانامہ لیکس، ڈان لیکس، میٹرو شیٹرو، حدیبیہ ملز، کالا دھن، بیرون ملک جائدادیں،ایوان کے اندر اور باہر ہا ہا کار،اب یہ ہے سوال کہ جب سول انتظامیہ کے قابو میں نہیں صورتحال تو فوج کو کیوں نہیں کہتے تعال تعال؟ہم نے کہا بیٹے! کراچی میں ہوا کے کم دباؤ کے باعث…اس نے کہا ماموں یہ بتائیں ناں کہ جب قابومیں نہیں صورتحال.....ہم نے کہا کہ بیٹے !ہوا کا کم دباؤ جب بھی ہوتا ہے.....اس نے کہا ماموں میرے سوال کا جواب دیں ناں کہ جب قابو میں نہیں صورتِ حال تو.......ہم نے اپنا اسمارٹ فون بند کرتے ہوئے کہا کہ بیٹے !لوڈ شیڈنگ کا ٹائم ہو گیا، اب اجازت‘‘ اس کی آواز آئی کہ ’’ماموں !آپ کے ہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی، ہم نے کہا بے شک۔ اس کے ساتھ ہی موبائل بند ہو گیا۔