Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تذلل ، عجز ، انکساری اور کمالِ عبودیت کا مظہر ، حلق

عمرہ میں طواف و سعی کے بعد اور حج میں10 ذوالحجہ کو جمرہ¿ عقبیٰ کی رمی اور قربانی کرنے کے بعد حاجی حلق یا قصر کرکے احرام کھولتا ہے۔ حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لئے اس نے میقات پر جو احرام باندھا تھا اور اس کے سبب جو پابندیاں اس پر عائد ہوئی تھیں نیز جو پراگندہ حالی اور غبار آلودگی کی کیفیت مطلوب تھی ، ایک مہذب اور شائستہ طریقہ سے حلق یا قصر کے ذریعہ اس حالت کا خاتمہ ہوتا ہے اور حاجی احرام کی حالت سے باہر آتا ہے، جس طرح نمازی تکبیر تحریمہ ( اﷲ اکبر ) کہہ کر نماز کی حالت میں داخل ہوتا ہے اور پھر سلام کے ذریعہ اس کی فضا سے باہر آتا ہے، حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:”حلق کا راز یہ ہے کہ اس سے احرام سے نکلنے کا ایک ایسا طریقہ متعین ہوتا ہے جو وقار کے منافی نہیں ۔اگر لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جو طریقہ چاہتا اختیار کرلیتا ، اس کے علاوہ اس میں پراگندہ بال اور زولیدہ سر ہونے کی حالت کا خاتمہ ہے جو پہلے مطلوب تھی،یہ ایسا ہے جیسا نماز میں سلام پھیرنا“۔ 
 
نیز اس طریقہ کی تعیین اور احرام سے باہر ہونے کے لئے حلق یا قصر کی مشروعیت میں بندہ کی طرف سے پروردگار کے آگے عبودیت و تذلل اور عجز و انکساری کا اظہار بھی ہے کیونکہ بال انسان کے سر کی بلکہ پورے جسم کی زینت ہے ، بالوں کو تیل لگاکر کنگھی کرکے آدمی اپنی تہذیب و شائستگی اور خوبصورتی کا مظاہرہ کرتا ہے ، زیب و زینت دنیاوی متاع میں سے ہے بلکہ ساری زندگی کو دھوکہ کا سامان کہا گیا اور تھوڑا سا فائدہ کہا گیا، ارشادباری تعالیٰ ہے:”بے شک اﷲ کا وعدہ سچا ہے ، پس تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈالے اور نہ دھوکہ باز ( شیطان ) تمہیں دھوکہ میں ڈال دے“۔
 
ایک دوسری جگہ دنیاوی زندگی کی بے وقعتی یوں بیان ہوئی ہے:”اور یہ لوگ تو دنیا کی زندگی میں مست ہوگئے حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں نہایت حقیر پونجی ( تھوڑے سے فائدہ کی چیز ) ہے“۔
 
نفسِ انسانی کی جاذبیت اور کشش بالعموم دنیاوی زیب و زینت ہی کی طرف ہوتی ہے جبکہ روح کی بلندی دنیاوی لذتوں اور نفسانی خواہشات کے ترک کرنے میں اور دنیا کے مقابلے آخرت کو ترجیح دینے میں ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:’اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اﷲ کے راستہ میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو ، کیا تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے جبکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں نہایت حقیر اورتھوڑی سی ہے “۔
 
حاجی اپنے سر سے بال منڈاکر زبانِ حال سے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے لئے دنیا کی ہر محبوب چیز اور زیب و زینت کو چھوڑ سکتا ہے۔ کھانا پینا ، مال و متاع ، راحت و آرام سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور اس کی راہ میں قربان کرسکتا ہے۔وہ اپنے جسم کی رونق وزینت اور محبوب بالوں کو سر سے اُتار پھینکنے کے لئے اپنے سر کو جھکاکر رب ذوالجلال کی عظمت و کبریائی کے آگے اپنے تذلل کو ظاہر کرتا ہے۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ قیدی و غلام کو ذلیل و رسوا کرنا ہوتو اس کا سر مونڈ دیتے۔ دنیا کے اور علاقوں میں بھی کسی حد تک یہ عرف برقرار ہے۔ الغرض حج یا عمرہ میں سر کے بال مونڈنا کمال عبودیت اور تذلل کا مظہر ہے۔ حلق یعنی سر کے بال اُسترے سے مکمل منڈوانے میں تذلل اور عبدیت کا کامل مظاہرہ ہے اس لئے حلق ، قصر کے مقابلے میں افضل ہے اور رسول اﷲ نے حلق کرنے والوں کے حق میں 3 مرتبہ رحمت کی دُعاءفرمائی ہے جبکہ قصر کرنے والوں کے لئے ایک مرتبہ ۔ جس طرح بال سر سے بہ سہولت نکالے جاتے ہیں ، اسی طرح یہ علامت ہے کہ گناہ بھی توبہ کے بعد بہ سہولت زائل ہوجاتے ہیں۔ بندہ¿ مومن نے حج میں سابقہ گناہوں پر خوب معافی مانگی اور اﷲ تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ حج کے بعد آئندہ زندگی میں معصیت و نافرمانی کے قریب نہ جائے گا اور اطاعت و فرمانبرداری والے راستہ پر گامزن رہے گا۔ میدانِ عرفہ اور مزدلفہ سے وہ گناہوں سے پاک صاف ہوکر اس طرح لوٹا ، جس طرح وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا ، منیٰ میں سر کے بالوں کا حلق گویا اس کی ولادتِ جدیدہ کا رمز ہے ، یہ بال اس کے گناہوں پر شاہد ہیں ، اب حاجی نے سچے دل سے معافی مانگلی ، عرفہ و مزلفہ میں خوب توبہ و استغفار کرکے اﷲ تعالیٰ سے اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کرلیا اس لئے وہ چاہتا ہے کہ یہ بال زائل کردے ، طہارت و پاکیزگی پر اب نئے بال اس کے سر پر اُگیں۔ عورتوں کے حق میں حلق ایک گونہ مثلہ ( چہرہ اور شکل بگاڑنے ) کی صورت اور مردوں سے مشابہت ہے اس لئے انہیں حلق سے روک دیا گیا چنانچہ حج و عمرہ میں عورتوں کے لئے صرف قصر ضروری ہے ، حلق جائز نہیں ۔
 

شیئر: