انسانی حقوق کی تنظیموں کو میانمارمیں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو لے کر اقوام متحدہ میں آواز اٹھاناہوگی
* * * *محمد عتیق الرحمن * * * * *
دل زخموں سے چور چور ہوچکا ہے ۔آنکھیں ہیں کہ راہ تکتے تکتے تھک چکی ہیں ۔بازو بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوچکے ہیں ۔دن رات ایک بے کلی سی ہے جو نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے دیتی ہے ۔پوری دنیا میں سب سے زیادہ بہنے والا لہو میراہی ہے ۔کشمیر، فلسطین ، یمن ،شام ،عراق، افغانستان اور میانمار سمیت پوری دنیا میں کہیں بھی کوئی خون کا قطرہ گرتا ہے تو اس میں میری قوم کا لہو لازمی ہوتا ہے ۔دنیا میں بہت بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود میرا لہو اس قدر ارزاں ہے کہ اسکے گرنے پر کسی کو افسوس تک نہیں ہوتا ۔میری بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں ،بچوں کو کاٹا جارہا ہے ،مائوں ،بہنوں اوربیٹیوں کی عصمتیں تارتارکی جارہی ہیں ۔دنیا کی اکانومی کا ایک بڑاحصہ میرے ہاتھ میں ہونے کے باوجود مسکینوں ،غریبوں اور مجرموں کی حیثیت سے زندگی گزاررہاہوں ۔
ابھی شام،یمن،عراق،فلسطین ،کشمیر اور افغانستان جل رہا ہے اور اسکے ساتھ دنیا میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جسے دنیا کی کوئی بھی ریاست اپنا باشندہ نہیں مانتی ۔روہنگیائی مسلمان میانمار میں قیام پذیر ہیں لیکن حکومت انہیں پنا شہری ماننے سے انکاری ہے۔مختلف ادوار میں ان کی نسل کُشی کرچکی ہے جو تاحال جاری ہے ۔مہاتما بودھ کے پیروکار جو خود کو دنیا میں امن کا پیامبر اور عدم تشددفلسفے کا داعی سمجھتے ہیں ،’’مہاتما بودھ کی فکر ہے کہ جانور کو قتل کرنا بھی ایسا ہی ہے جیساانسان کو قتل کرنا ‘‘۔روہنگیائی مسلمانوں کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں انہیں ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘قراردے رکھا ہے ۔بنیادی حقوق ایک طرف انہیں ملک کا شہری تک کہلانے کا حق حاصل نہیں ۔بے شمار روہنگیائی مسلمان جیتے مرتے دوسرے ممالک کی سرحدوں پر پہنچتے ہیں جہاں انہیں بعض مرتبہ پناہ دے دی جاتی ہے ۔ بعض اوقات سمندر کی طرف پھر سے دھکیل دیا جاتا ہے ۔ میانمار میں مسلمانوں کی بستیوں کی بستیاں جلادی گئیں ۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو دوڑادوڑا کر ماراجارہا ہے ۔مساجد کو بندکردیا گیا ۔ کتب خانے کب کے جلادئیے گئے ۔برمی بودھ اپنی خونی پیاس کو بجھانے کی خاطر باربارروہنگیائی مسلمانوں پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔اکتوبر 2012ء میں جب اوآئی سی نے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو اسے ردکردیا گیا ۔ہیومن رائٹس واچ نے بھی باربار عالمی برادری کے سامنے ٹھوس ثبوت رکھے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد کو روکنے میں اپنا کردار اداکریں لیکن یہ سب بے کار رہا اور مہاتما بودھ کے پیروکار اپنی سفاکیت پر قائم رہے ۔روہنگیائی مسلمان جب میانمارسے جان بچاکر دوسرے ملکوں کو بھاگتے ہیں تو ان کا گولیوں سے استقبال کیا جاتاہے ۔انڈونیشیا،ملائیشیا،تھائی لینڈ،سنگاپور ،سری لنکا الغرض جہاں تک یہ بے یارومددگار جاسکتے ہیں ،گئے اور رحم کی اپیلیں کیں لیکن کسی نے بھی شنوائی نہ کی ۔کچھ خبروں کے مطابق ایک ہفتے کے دوران38ہزار افراد سرحد عبور کرچکے ہیں ۔میانمارکی حکومت کا کہنا ہے کہ اب تک مارے جانے والوں کی تعداد 400ہوگئی ۔برمی حکومت اس مرتبہ ایک نیا پینترا سامنے لائی ہے کہ ایک چیک پوسٹ پر حملے کی آڑ کی روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کُشی کررہی ہے جنہیں اب میانمار حکومت مزاحمت کار کہہ کر ظلم وستم کا نشانہ بنارہی ہے اور انہیں میانمارکی سرحدوں سے باہر نکلنے پرمجبور کررہی ہے ۔میانمار کے صوبہ رخائن(راکھین) سے معلومات نکالنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ صرف چند ایک صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت دی گئی ہے ۔
حالات ہماری سوچ سے زیادہ سنگین ہیں ،جونظرآرہا ہے وہ صرف کچھ جھلکیاں ہیں جو کچھ لوگ نکال لاتے ہیں اور ہم تک سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف شکلوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔عالمی برادری ابھی تک اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ۔عالمی برادری کو چھوڑئیے ہمارے اسلامی ممالک بھی روہنگیائی مسلمانوں کی امداد سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔روہنگیائی مسلمانوں کاشاید قصور یہ ہے کہ وہ خود کو کسی مسلم ممالک کے ساتھ جوڑ نہیں سکے ۔پاکستان اور ترکی سمیت دیگر مسلم ممالک جو ایک مانی ہوئی طاقت ہیں اور جن کا عالم اسلام کے علاوہ دوسرے ممالک پر بھی اثر ہے وہ بھی صرف بیانات تک ہی محدودنظرآتے ہیں بلکہ بعض ممالک کی طرف سے ابھی تک روہنگیائی مسلمانوںکے حق میں دوبول تک نہیں بولے گئے ۔ہمیں مسلکی ،قومی،لسانی اور سرحدی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے مظلوم ترین بھائیوں کی مدد کے لئے اٹھنا ہوگا ۔میانمارکی حکومت کو مجبورکرنا ہوگا کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو بنیادی حقوق دے اوراس سلسلے میں بھرپور سفارت کاری کوبروئے کارلانا ہوگا ۔انسانی حقوق کی تنظیموں کو میانمارمیں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو لے کر اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں پرآوازاٹھانا ہوگی ۔اس وقت روہنگیائی مسلمانوں پر جو ظلم وستم ہورہا ہے وہ اس قدر شدید ہے کہ لوگ ہولوکاسٹ کو بھول جائیں گے لیکن میڈیا بھی ریٹنگ کے چکر میں انسانیت پرہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہا ۔