Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آلودہ پانی،کمر توڑ مہنگائی ، یہ حکومت کس نے بنائی

نکاسی و فراہمی آب کے ناقص انتظامات عروس البلاد کے حُسن کوگہن لگا گئے
حسن آرا۔۔کراچی
سپریم کورٹ کے احکامات پر قائم کردہ ٹاسک فورس کی رپورٹ کے مطابق کراچی ,حیدرآباد,ٹھٹہ,بدین، میر پور خاص اور سندھ کے بیشتر علاقوں میںپینے کا 90 فیصد پانی آلودہ ہے اس میںفضلہ ملا ہوا ہے ۔پینے کا پانی انسان کی بنیادی ضرورت اور زندگی کے لئے ناگزیر ہے ۔ ہمارے ہاںروٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ توکہیںکھو گیا ہے۔ اس پریہ آلودہ پانی، قلت آب، کمر توڑ مہنگائی، کوئی ہمیں یہ بتائے کہ آخر یہ حکومت کس نے بنائی ؟
شہر کراچی میں سیوریج کی بوسیدہ لائنیں جن میں جگہ جگہ شگاف موجود ہیں جو زیر زمین پینے کے پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔سندھ حکومت ٹیکس وصول کرنا جانتی ہے تاہم عوام کی صحت و زندگی سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ہمارے ہیلتھ سیکریٹری کا کہناہے کہ انہیں کوئی اختیار حاصل نہیں۔تو سوال یہ ہے کہ جب وہ لوگ کہ جو حکومت میں موجود صاحبانِ اختیار کے رشتہ دار ہیں، وہ بھی بے اختیار ہیں تو پھر کون ہے جو شہریوں کے مسائل حل کرے؟ہمارے ذمہ داران کی لاپروائی اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کراچی اور سندھ میں لوگ آلودہ پانی پینے سے ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر مر رہے ہیں۔ بھلا منرل واٹر پینے والے کیا جانیں کہ غریب صاف پانی کوکس طرح ترس رہا ہے۔ گیسٹرو،معدے اور جگر کے امراض ،سانس کی تکالیف اور جلدکی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔ اس کے ساتھ ایک اور خطرہ عوام کے سروں پر منڈلا رہا ہے، وہ خطرہ جس سے ہم برسوں پہلے جان چھڑا کر بغلیں بھی بجا چکے تھے ، وہ ہے تپ دق، ٹی بی یعنی ٹیوبر کلوسس۔ یہ مرض دوبارہ سر ابھار رہا ہے ۔
زیر زمین پائپ لائنوں میںگٹر کا یعنی سیوریج کا پانی پینے کے پانی میں شامل ہو رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ مقررہ مقدار میںپانی میں کلورین بھی نہیں ڈالی جاتی۔اس پر ”کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ“ کی نا اہلی اور ضد دیکھئے کہ وہ” سب ٹھیک ہے کا راگ “الاپ رہا ہے۔ اس کی اس ہٹ دھرمی نے شہریوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ جگہ جگہ ا بلتے گٹر ،نکاسی و فراہمی آب کے ناقص انتظامات عروس البلاد کے حُسن کوگہن لگا گئے۔
ہم ایک صارف کی آواز بن کر صاحبان اختیار سے اپیل کرتے ہیں کہ واٹر کمیشن کی دی گئی رپورٹس پر توجہ دی جائے۔ ہنگامی بنیادوں پر پینے کے پانی کو شفاف اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنایاجائے ۔ شہریوں کی زندگیوں، صحت اور ماحول کو آلودگی سے بچایاجائے ۔ 
ہمیں سندھ میں عمومی طور پر اور کراچی شہر میں خصوصی طور پر پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور مخدوش سیوریج نظام کے حوالے سے جاری رپورٹ پر سخت تشویش ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت قائم کئے گئے واٹرکمیشن کی تحقیقاتی رپورٹس انتہائی سنگین ہیں۔کراچی شہر کو فلٹر کے بغیرپینے کے پانی کی ترسیل، کراچی واٹر بورڈ کی غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی ناکامی و سمندری آلودگی بھی اس کا ایک ہے۔ اطلاعات کے مطابق414 مقامات پر ڈرینیج کا پانی دریائے سندھ میں شامل کیا جارہا ہے جس سے آبی حیات بھی خطرے میں ہے۔
ورلڈبینک کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں پینے کے پانی کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے۔فراہمی اور نکاسی آب دونوں ہی عدم توجہی کا شکار ہیں ۔پینے کے پانی میں سیوریج کے پانی کی آمیزش،کئی سالوں سے جاری شہر میں غیر قانونی عمارات کی تعمیر بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہیں ۔کراچی کا 80 فیصد پانی بیکٹیریل آلودگی سے متاثر ہے۔اس حوالے سے پی سی آر ڈبلیو آرکی رپورٹ انتہائی تشویشناک ہے۔ 
اداروں کی لا پروائی کا یہ حال ہے کہ پینے کے پانی میں کلورین تک مناسب مقدار میں شامل نہیں کی جاتی جبکہ اکثر اوقات سرے سے کلورین ڈالی ہی نہیں جاتی جس کے باعث شہریوں میں نیگلیریا پھیل رہا ہے ۔کئی شہری اپنی جان گنوا چکے ہیں اور نیگلیریا سے ہونے والی اموات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اس کے علاوہ شہر میں ٹی بی کا پھیلاو¿ جس تیزی سے ہو رہا ہے، یہ خطرے کی گھنٹی ہے جو مسلسل متنبہ کر رہی ہے مگر ذمہ داران خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
ہم اپیل کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ انسانی صحت کے اس بنیادی مسئلے، صاف پانی کی فراہمی کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے کرپٹ انتظامیہ اور افسران کے خلاف کارروائی کرے ۔فراہمی اور نکاسی آب کے لئے سالوں پہلے ڈالی گئی مخدوش اور بوسیدہ سیوریج اور پانی کی لائنیں تبدیل کی جائیں۔عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم نہ کیا جائے ۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: