وہ کونسا دور ہے جس میں امت کو امتحانوں سے گزارانہ گیا ہو،اس دین میں مایوسی کفر ہے،اللہ کی رحمت ایک مرتبہ پھر ہماری طرف متوجہ ہوگی
* * * عبد الستارخان* * *
کسے معلوم تھا کہ یثرب سے تعلق رکھنے والے وہ 6افراد تاریخ انسانی کے عقلاء الرجال ہوں گے۔گیارہویں سن نبوت کے موسم حج کا زمانہ تھا ۔ اہل مکہ نے رسول اکرم اور ایمان لانے والے صحابہ کرامؓ پر زمین تنگ کردی تھی ۔’’جماعت حق کے افراد کیلئے مکہ کی بھٹی اپنے آخری درجہ حرارت پر آپہنچی تھی، مظالم انسانی برداشت سے باہر ہوگئے تھے، قریش اپنے ظلم کے زہر آب کا جام لبریز کرچکے تھے۔ ادھر علمبرداران حق کے صبر کا پیالہ بھی کناروں تک بھرچلاتھا۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ اب حالات کوئی بڑی کروٹ لیں گے۔اب کوئی راہ نجات نکلے گی اور تاریخ کوئی واضح موڑ مڑے گی‘‘(محسن انسانیت۔از نعیم صدیقی)
اللہ کے رسول حج کے موقع پر منیٰ آنے والے عرب قبائل کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وفود سے ملاقات کرتے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے۔ گیارہویں سن نبوت کے موسم حج میں بھی آپ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علی ؓ کو ہمراہ لیا اور رات کی تاریکی میں بنوہذیل اور بنو شیبان کے ڈیروں سے گزرے، انہیں اسلام کی دعوت دی مگر کوئی حوصلہ افزا جواب نہ پایا۔ ’’اس کے بعد رسول اکرم منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا۔آپ نے سیدھے ان کا رخ کیا ۔ یہ یثرب کی 6سعادت مند روحیں تھیں جن کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ آپ نے ان سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کیوں نہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر کچھ بات چیت کی جائے؟۔ رخصت سفر باندھ کر عازم یثرب ہونے والے نوجوان بیٹھ گئے۔ آپ نے ان کے سامنے اسلام کی حقیقت بیان فرمائی، انہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔
آپ خاموش ہوئے تو نوجوانوں نے ایک دوسرے سے کہا: معلوم ہوتا ہے یہ وہی نبی () ہیں جن کا حوالہ دے کر یہودی تمہیں دھمکیاں دیا کرتے ہیں، یہود تم پر سبقت نہ لے جائیں۔ انہوں نے فورا آپ کی دعوت قبول کرلی اور اسلام لے آئے۔(الرحیق المختوم۔از صفی الرحمن مبارکپوری) ہجرت کے تمام واقعات کا سب سے بڑا سبق ’’امید‘‘ ہے۔ امت جو مایوسیوں کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھارہی ہے، اس کیلئے ہجرت کا واقعہ ’’امید کی نئی کرن ‘‘ دکھاتا ہے ۔ سرداران قریش نے جب دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کیاتو اللہ تعالی نے اس دین کیلئے خزرج قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان 6افراد کو روانہ کیا جنہوں نے دین قبول کرنے پرہی اکتفا نہیں بلکہ یثرب میں دین حق کا تخم مبارک ثابت ہوئے۔ انہی کی وجہ سے یثرب دار ہجرت کیلئے سازگار ہوا۔اس دین کی نصرت سے اللہ تعالی نے عرب کے عظیم قبائل اور سرداران کو محروم کرکے یثرب کے 6نوجوانوں کو اس سے سرفراز فرمانا تھا۔حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا کہنا ہے: ہم یثرب سے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی اور اسلام قبول کیا۔ بعد ازاںہم نے دین کے احکامات سیکھے اور قرآ ن کی تلاوت کی۔ ہم میں سے جو شخص ایمان لاتا وہ اپنے گھر پلٹ جاتا اور اہل واولاد کو اسلام کی دعوت دیتا یہاں تک یثرب میں کوئی گھر ایسا باقی نہیں بچا جس میں اسلام قبو ل کرنے والے نہ ہوں۔
اسلام قبول کرنے والے اہل یثرب نے ایک دن ایک دوسرے سے کہا: ہم کب تک رسول اللہ کو یوں ہی مکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، ٹھوکریں کھاتے اور خوفزدہ کئے جاتے چھوڑیں گے؟ پھر ہم میں سے70آدمی حج کے موسم میں مکہ آئے، آپ سے ملے اور بیعت عقبہ کی۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ، ہم آپ کے ساتھ کس چیز پر بیعت کریں۔ آپ نے فرمایا: اس بات پر کہ چستی اور سستی ہر حال میں بات سنوگے اور مانوگے،تنگی و خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کروگے،بھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکوگے، اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروانہ کروگے اور جب تمہارے پاس آجاؤں گا تو میری مدد کروگے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کرو گے۔ (مسند احمد) بیعت کی شرائط کے متعلق گفت وشنید مکمل ہوچکی اور لوگوں نے بیعت کا ارادہ کیا ہی تھا کہ انصار میں سے دومسلمان اٹھے اور بیعت کرنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: جانتے ہو کس بات پر بیعت کر رہے ہو؟تم سرخ وسیاہ سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو،اگر تمہارا خیال ہے کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کردیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کردیئے جائیں گے تو تم آپ کا ساتھ چھوڑدو گے تو ابھی سے چھوڑدو۔ اس پر سب نے بیک آواز کہا: ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر آپ کو قبول کرتے ہیں۔ پھر آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول ، ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں کیا ملے گا۔ آپ نے فرمایا:جنت۔ لوگوں نے عرض کیا’’اپنا ہاتھ پھیلایئے، ہم بیعت کرتے ہیں‘‘(الرحیق المختوم)
بیعت عقبہ کا پہلا سبق یہ ہے کہ داعی حق اپنے حصے کا کام کرتا رہے، جب وہ اپنے حصے کا کام مکمل کردے گا تو اللہ تعالی نصرت کیلئے وہ راستہ مہیا کرے گا جس کی طرف داعی کاگمان تک نہیں جاسکتا۔امت اس وقت جس نکبت ولاچاری میں گھری ہوئی اور جس طرح اس کے افراد کو پستی میں دھکیلا جارہا ہے اور مسلمانوں کا جتنا خون بہا ہے، اب تک اللہ کی نصرت ومدد کیوں نہیں آئی، وجہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت ومدد کے نزول کی اولین شرط یہ ہے کہ امت اپنے حصے کا کام مکمل کردے، جب وہ اپنا کام مکمل کرے گی تو اللہ کی نصرت ومدد پھر لازما آئے گی۔ ’’سچائی کا ننھا سا بیج ایک تناور درخت بن چکا تھا اور جو خطرہ کل تک خداوندانِ جاہلیت کیلئے خیالی تھا، وہ اب واقعی صورت میں سامنے تھا۔ اب وقت ان سے کہہ رہا تھا کہ اس خطرے سے نمٹنے کی قوت رکھتے ہو تو نمٹ لو ورنہ دورِنو کا طوفانِ نور چلاآرہا ہے جس میں تم ، تمہارے مناصب، تمہارامذہب اور تمہاری جاہلانہ روایات سب کچھ بہہ جانے والی ہے۔
کل تمہیں اپنی اکڑی ہوئی گردنیں محمد اور ان کے پیغام کے سامنے خم کردینی ہوں گی‘‘(محسن انسانیت) اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جب رسول اکرم کو ہجرت کی اجازت مل جاتی ہے۔سیرت ابن ہشام کے مطابق جو رات ہجرت کے لئے منتخب ہوئی، اس میں رسول اکرم بحکمِ الٰہی اپنے مکان پر نہ سوئے اور حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر بلاخوف سوجانے کی ہدایت فرمائی۔ ساتھ ہی لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کیں کہ صبح کو یہ مالکوں کو ادا کردی جائیں۔ اس اخلاق کی کتنی ایک مثالیں تاریخ کے پاس ہیں کہ ایک فریق تو قتل کی سازش کر رہا ہے اور دوسرا فریق اپنے قاتلوں کو امانتوں کی ادائیگی کی فکر میں ہے۔(محسن انسانیت)اللہ کے رسول مشرکین کی صفیں چیرتے ہوئے اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی ۔ اللہ نے ان کی بینائی سلب کرلی تھی، وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ ایک مرتبہ پھر امید کا سبق دہرایا جاتا ہے۔زمینی حقائق کا کہنا کہ چاروں طرف موت منڈلارہی ہے مگر آسمانی حقیقت کہتی ہے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرے گاوہی اس کیلئے کافی ہوگا۔آج امت چہار سو خطرات کی زد میں ۔ امت کے افراد میں سے جو دین پر عمل پیرا ہیں ان کا حال اس شخص سے مختلف نہیں جس نے انگارہ مٹھی میں اٹھارکھاہو۔
ہجرت کا بھولا ہوا سبق ہمیں یاد دلارہا ہے کہ تاریکی کے بعد روشنی ہے،اندھیرا چھٹنے والا ہے اورمومنین صادقین صبح صادق کو دیکھ کو خوش ہوں گے۔ واقعات آگے بڑھتے ہیں۔ اللہ کے رسول حضرت صدیق اکبر ؓ کے ساتھ غار میں ہیںاور امید کا ایک اور سبق امت کو سکھلایا جارہاہے۔ تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا: میں نبی کے ساتھ غار میں تھا، سراٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ان میں سے کوئی شخص اپنی نگاہ نیچی کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ صدیق اکبرؓ غار ثور میں مشرکین کی آمد سے گھبرااٹھے، انہیں رسول اکرم کی حیات مبارکہ خطرے میں نظر آئی۔ یہ بے چینی ایک مثال ہے اس بات کی کہ دعوت دین کے ایک سچے اور مخلص سپاہی کو اپنے امین قائد کی زندگی خطرے میں دیکھ کر کس درجہ بے چین اور مضطرب ہونا چاہئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ کو اپنی جان کا خطرہ نہ تھا مگر رسول کی زندگی کی فکر تھی۔ مشرکین کے قبضے میں آپ کے چلے جانے سے اسلام کا مستقبل ڈوبتا نظر آرہا تھا۔ ادھر صدیق اکبرؓ کا حال یہ تھاکہ کاٹو تو لہو نہیں ، ادھر رسول اکرم کے چہرہ انور پر ایمان ویقین اور اللہ کی مدد ونصرت پر کامل اعتماد جھلک رہا تھا۔فرمایا: ابوبکرؓ! ان دوکے بارے میں تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہو،غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی کی قدت کاملہ پر پر حد درجہ اعتماد اوراس کی نصرت کی قوی امید کی ایک بے نظیر مثال ہے۔آپ سخت ترین خطرے میں تھے، اس کے باوجود آپ کو کامل درجہ کا انشراح حاصل تھاکہ جس ذات نے آپ کو انسانوں کیلئے ہدایت ورحمت بناکر بھیجا ہے وہ اس وقت آپ کوتنہا نہیں چھوڑے گا۔اللہ کی معیت کایہ یقین ہمیں یاد دلارہا ہے کہ اس کے بغیر ہم خیر امت کے فرائض ادا نہیں کرسکتے۔ امید کا سبق ہمیں یاد دلارہا ہے کہ دشمن اپنی چالیں چلتا ہے اور اللہ خیر الماکرین ہے، وہ اپنے بندوں کی ضرور حفاظت فرماتا ہے’’تم ہی غالب رہو گے ، اگر تم مومن ہو‘‘ (آل عمران139) اور پھر وہ وقت بھی چشم فلک نے دیکھا جب اللہ کے رسول کو مکہ چھوڑنا پڑا۔ ’’آج مکہ کے پیکر سے اس کی روح نکل گئی تھی، آج اس چمن کے پھولوں سے خوشبو اڑی جارہی تھی، آج یہ چشمہ سوکھ رہا تھا، آج اس کے اندر سے بااصول اور صاحب کردار ہستیوں کا آخری قافلہ روانہ ہورہاتھا۔ دعوت حق کا پودا مکہ کی سرزمین سے اگا لیکن اس کے پھلوں سے دامن بھرنا مکہ والوں کے نصیب میں نہ تھا، پھل مدینہ والوں کے حصے میں آئے۔
آج دنیا کا سب سے بڑا محسن وخیر وخواہ بغیر کسی قصور کے بے گھر ہورہا ہے۔ کلیجہ کٹا ہوگا، آنکھیں ڈبڈبائی ہوں گی، جذبات امڈے ہوں گے مگر خدا کی رضا اور زندگی کا مشن چونکہ اس قربانی کا بھی طالب ہوا اس لئے انسان کامل نے یہ قربانی بھی دے دی‘‘(محسن انسانیت) حضور نے مکہ کے پہاڑوں، گلیوں اور وادیوں پرآخری نگاہ ڈالی، یہی وہ گلیاں ، یہی وہ پہاڑ اور وادیاں ہیں جہاں آپ کا بچپن گزرا،جہاں آپ جوان ہوئے۔الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے مکہ سے خطاب فرمایا: خدا کی قسم تو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے،اگر یہاں سے مجھے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔(ترمذی، مسند) اللہ تعالی کی رضا اور مشن کی تکمیل کے لئے اللہ کے رسول کو یہ قربانی بھی دینی پڑی مگر رہتی دنیا تک امت کیلئے ہجرت کا راستہ کھلا چھوڑا۔ آپ کے فرمان کا مفہوم ہے: ہجرت کا دروازہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہوگا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔(ابوداؤد) گویا آپ نے ہجرت کو ’’تزکیہ‘‘ کا ہم معنی قرار دیا ہے۔ ایک اور جگہ پر آپ ہجرت کے حقیقی مفہوم کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حقیقی ہجرت کرنے والا وہ ہے جس نے ان امور سے ہجرت کی(یعنی ترک کیا) جن سے اللہ تعالی سے منع فرمایا ہے۔(مسند احمد)
ہجرت مبارکہ کے اس سفر میں امید دلانے اور حوصلہ بڑھانے کا ایک اور واقعہ پیش آتا ہے۔ سراقہ بن مالک ؓ سو اونٹ کے لالچ میں تعاقب کرتے ہوئے قافلہ مبارک کو پالیتے ہیں ۔خود سراقہؓ کا بیان ہے:میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جا پہنچے اور میں اس میں سے گرگیا… مجھے یقین ہوگیا کہ رسول اللہ کا معاملہ غالب ہونے والا ہے۔ سواونٹ کے لالچ میں آنے والے سراقہ ؓ نے مبارک قافلے کو پکار کر کہا: مجھے پروانہ امن دیا جائے۔(بخاری) قدرت کو سراقہؓ کو سو اونٹ سے کہیں سے زیادہ بیش بہا انعام سے نوازنا منظور تھا ۔ارشاد ہوا: اے سراقہؓ! تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جب کسری کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے۔ سراقہؓ نے وقت کے سب سے بڑے شہنشاہ کسری کا نام سنا تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، عرض کیا: کون کسری؟۔ یہ جو عراق، ایران اور شام کے سیاہ وسپید کا مالک ہے، جو وقت کی سب سے بڑی طاقت ہے،اس کے کنگن مکہ کے ایک بدو کے ہاتھ میں ہوں گے؟اتنی بڑی پیشگوئی کرنے والوں کا حال تو دیکھو! اپنے ملک سے نکالے گئے ،مدینہ میں جائے امان تلاش کر رہے ہیں، وہ یہ بات کر رہے ہیں، مگر دربار رسالت کی یہ بات سورج کی چمک سے بھی زیادہ واضح اور روشن تھی گویا اس وقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔رسول اللہ نے سراقہؓ سے کسری کے کنگن کا جو وعدہ کیا وہ ایک معجزہ تھا۔ عام انسان جواپنی قوم سے بھاگ رہا ہو اور جسے کہیں امان نہ مل رہی ہو وہ ایران کی فتح اور کسری کے خزانوں پر غلبہ کا خواب نہیں دیکھ سکتاالا یہ کہ وہ نبی اور رسول ہواور اسے اپنے مشن کی کامیابی پر شرح صدر حاصل ہوکہ یہ دین غالب ہونے کے لئے آیا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مغلوب نہیں کرسکتی۔ صدیق اکبرؓ کا بیان ہے: سراقہ ؓ واپس ہوا تو دیکھا لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں، کہنے لگا: ادھر کی کھوج کی خبر لے چکا ہوں، یہاں تمہارا جو کام تھا وہ کیا جاچکاہے‘‘۔ دن کے شروع میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں جو چڑھا آرہا تھا وہی شام ہوتے ہی پاسبان بن گیا۔
اللہ نے حفاظت ونگرانی کیلئے وہاں سے بندوبست کیا جہاں گمان بھی نہیں جاتا تھا۔ اس طرح ہجرت کے ہر ہر واقعے میں امید کا سبق دہرایا جاتاہے۔ مایوسیوں کے گرداب میںڈوبتی اس امت کے دلوں میں امید کے جوت جگانے کی ضرورت ہے، کس طرح گھٹاٹوپ اندھیرے سے نور کی کرن پھوٹتی ہے، شر کے قلب سے خیر کا پہلو نکلتا ہے اور غموں کے بطن سے خوشی پیدا ہوتی ہے۔ امت کی تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ رب ذوالجلال اس کی حفاظت ونگرانی کرتا ہے۔ کفار قریش نے مکہ کی زمین تنگ کردی تو اللہ تعالی نے مدینہ کی سرزمین کو دعوت حق کیلئے سازگار بنایا،حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد امت فتنوں کے طوفانوں میں گھر گئی مگر اللہ تعالی نے اسے اس منجدھار سے بحفاظت نکال لیا، تاتاری قہر بن کر ٹوٹے اور 20لاکھ مسلمانوں کے خون سے بغداد کی گلیوں کو رنگ دیا اور کہنے والوں نے یہ تک کہا کہ کرہ ٔارض سے اسلام کا خاتمہ ہوگیا مگر عین جالوت کے معرکے میں اللہ تعالی نے سیف الدین قطزکی قیادت میں مسلمانوں کو متحد کرکے اپنے دشمنوں کو توڑکر رکھ دیا، صلیبیوں نے یلغار کرکے بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور مسلمانوںکے خون سے گھٹنوں تک دریا بہا دیا مگر اللہ تعالی نے صلاح الدین ایوبیؒ کی صورت میں بیت المقدس اور امت کیلئے نجات دہندہ پیدا کیا۔تاریخ نے وہ دور بھی دیکھا جب بوہیوں نے بغداد میں اور فاطمیوں نے مصر پر قبضہ کرکے مسجد کے محرابوں پر صحابہ کرامؓ کی شان عالی میں گستاخی کروائی مگر یہ بحران بھی اللہ کی قدرت سے ختم ہوا۔تاریخ کا وہ کونسا دور ہے جس میں امت کو امتحانوں سے گزارانہ گیا ہو ۔ اس امت کو شروع دن سے سمجھایا گیا ہے کہ: ’’تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ، بے شک تنگی کے بعد فراخی بھی ہے‘‘(الانشراح5،6) اس امت کے دین میں مایوسی کفر ہے’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس کافر ہی ہواکرتے ہیں‘‘ (یوسف87) اللہ کی رحمت ایک مرتبہ پھر ہماری طرف متوجہ ہوگی، یقینا اللہ کی رحمت ہم سے قریب ہے۔ یہی ہجرت کا سبق ہے۔