Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نصف صدی تک لوگوں کو ہنسانے والے محمود

 
لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچیں، کنگ آف کامیڈی کا درجہ بھی حاصل کیا
نمائندہ اردو نیوز۔نئی دہلی
اپنے مخصوص اندازاورمزاحیہ اداکاری و جملوںسے نصف صدی تک ہنسانے والے محمود نے فلم انڈسٹری بالی وڈمیں کنگ آف کامیڈی کا درجہ حاصل کیا لیکن انہیں اس کے لئے کافی مشقت کرنا پڑی اوریہاں تک سننا پڑا کہ نہ تو وہ اداکاری کرسکتے ہیں نہ کبھی اداکار بن سکتے ہیں۔ چائلڈ ایکٹر سے مزاحیہ اداکار کے طورپر بالی وڈ میں ایک خاص شناخت بنانے والے محمود کی پیدائش 29 ستمبر 1933 کو ممبئی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ممتاز علی بامبے ٹاکیز میں کام کیا کرتے تھے۔ گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے محمودنے ملاڈ اور ورار کے درمیان چلنے والی لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں تک بیچیں۔
بچپن سے ہی محمود کا رجحان اداکاری کی طرف تھا اور وہ اداکار بننا چاہتے تھے۔ اپنے والد کی سفارش کی وجہ سے محمود کو بامبے ٹاکیزمیں 1943 میں بننے والی فلم قسمت میں اداکار اشوک کمار کے بچپن کاکردار ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ اسی دوران محمود نے ڈرائیونگ سیکھ لی اور ڈائریکٹر گیان مکھرجی کے یہاں بطور ڈرائیور کام کرنے لگے کیونکہ اسی بہانے انہیں مالک کے ساتھ ہر دن اسٹوڈیو جانے کا موقع مل جاتا تھا جہاں وہ اداکاروں کو قریب سے دیکھ سکتے تھے۔ اس کے بعد محمود نے بہت سے بہت سے لوگوں کے گھروں میں ڈرائیونگ کا کام کیا۔محمود کی قسمت کا ستارہ اس وقت چمکاجب فلم نادان میں شوٹنگ کے دوران اداکارہ مدھوبالا کے سامنے ایک جونیئر اداکار دس بار ری ٹیک دینے کے بعد بھی اپنا مکالمہ ادا نہیں کرپارہا تھا۔ فلم ہدایت کار ہیرا سنگھ نے یہ مکالمہ محمود کو بولنے کے لئے دیا جسے انہوں نے بغیر ری ٹیک کے ایک مرتبہ میں ہی مکمل کردیا۔ اس فلم میں محمود کو 300 روپے دیئے گئے جبکہ بطور ڈرائیور انہیں محض 75 روپے ہی ملا کرتے تھے۔ اس کے بعد محمود نے ڈرائیونگ چھوڑ کر اپنا نام جونیئر آرٹسٹ ایسوسی ایشن میں لکھوا دیا اور فلموں میں کام کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے بعد محمودنے کئی فلموں میں چھوٹے چھوٹے رول کئے جن سے انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوسکا۔ اسی دوران محمود نے فلم مس میری کےلئے اسکرین ٹیسٹ دیا لیکن وہ فیل ہوگئے۔ اس کے بعد محمودکے رشتہ دار کمال امروہوی کے پاس فلم میں کام مانگنے کے لئے گئے تو انہوں نے محمود کو کہہ دیاکہ آپ ممتاز علی کے صاحب زادے ہیں اور ضروری نہیں کہ ایک اداکار کا بیٹا بھی اداکار بنے۔ آپ میں اداکار بننے کی صلاحیت نہیں۔ آپ چاہیں تو مجھ سے کچھ پیسے لیکر کوئی دوسرا بزنس کرسکتے ہیں۔
محمود نے کمال کی بات سن کر چیلنج قبول کر لیااور نئے جوش و جذبے کے ساتھ کام جاری رکھا۔ اس دوران محمود کو بی آر چوپڑا کے کیمپ سے دعوت نامہ آیا اور فلم ایک ہی راستہ کے لئے کام کرنے کاموقع ملالیکن یہ فلم سفارش سے ملی تھی اس لئے محمود نے اس میں کام کرنے سے انکار کردیا ۔ 1961 میں محمود کو ایم وی پرساد کی فلم سسرال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ا س فلم کی کامیابی کے بعد بطور مزاحیہ اداکار محمود فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ اس فلم میں شوبھا کوٹھے کے ساتھ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ اسی برس محمود نے اپنی پہلی فلم چھوٹے نواب بنائی۔انہوں نے آر ڈی برمن عرف پنچم دا کو بطو ر موسیقار فلم انڈسٹری میں پیش کیا۔ 
1970 میں فلم ہمجولی میں محمود نے ایک ساتھ تین رول ادا کئے ۔ محمود نے اپنے فلمی کریئر میں تین با ر فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ اپنی پانچ عشروں پر محیط فلمی زندگی میں تقریباً 300 فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والے محمود 13برس قبل23 جولائی 2004 کو اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔ 
 
 
 
 
 

شیئر: