کمپیوٹر کا جہان،15لاکھ سائبر حملے،575ارب ڈالر نقصان
جمعرات 5 اکتوبر 2017 3:00
ہر 10 میں سے 4 صارفین انٹرنیٹ کے ذریعے سائبر حملوں کا شکار ہوتے ہیں
حراءزریں۔ کراچی
نائلہ رند پاکستانی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ماسٹرز کی طالبہ تھی۔ نوجوان، خوبصورت اور بلا کی ذہین، مگر یہ سب نائلہ کا جرم بن گیا اور ایک پرائیویٹ کالج کے پروفیسر کی جانب سے جعلی تصاویر اور وڈیوز کو بنیاد بنا کر نائلہ کو بلیک میل کیاجانے لگا اور اسے دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیاگیا۔ مسلسل 3 ماہ کی ذہنی اذیت اور دباو کا شکار ہونے کے بعد نائلہ نے جنوری 2017 میں خود کشی جیسی حرام موت کو گلے لگالیا۔ہاسٹل انتظامیہ کو اس کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی۔ سائبر ہراسمنٹ کا شکار ہونے والی نائلہ صرف ایک نہیں بلکہ دنیا بھر کے 3.2 ارب انٹرنیٹ یوزرز میں سے اوسطاً ہر 10 میں سے 4 صارف انٹرنیٹ کے ذریعے سائبر حملوں کا شکار ہوتے ہیں۔ایف بی آئی کے انٹرنیٹ کرائم کمپلین سینٹر کی رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں صرف امریکہ میں 2لاکھ 70 ہزار افراد کی جانب سے سائبر بلنگ کا شکار ہونے کی شکایات درج کرائی گئی تھیں۔ ان رپورٹس میں درج کرایاجانے والا کل مالی نقصان 80 کروڑ ڈالر سے زائد تھا۔
تحقیق کے مطابق سالانہ 1.5 ملین سائبر حملے ہوتے ہیں یعنی 4ہزارحملے روزانہ۔ گویاہر سیکنڈ بعد کسی نہ کسی انٹرنیٹ صارف کا اکاونٹ ہیک کر کے اس کی شناخت چوری کی جاتی ہے۔ سائبر کرائم کے ذریعے کمایا جانے والا پیسہ غیر قانونی منشیات فروشی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ تحقیق کے مطابق 2002 میں 54 ملین ڈالر کی رقم انٹرنیٹ فراڈ کے ذریعے ہتھیائی گئی۔ 2003 میں یہ رقم بڑھ کر 125 ملین ڈالر، 2006 میں 200 ملین ڈالر، 2008 میں 250 ملین ڈالر اور 2015 میں ایک بلین ڈالرتک پہنچ گئی جو فراڈیوں نے انٹرنیٹ فراڈ اسکیم سے ہتھیائی ۔ جون 2014 میں جارج ٹاون یونیورسٹی کے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی سامنے آنے والی ایک تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ سائبر کرائم کے نتیجے میں دنیا کو ہونے والا سالانہ نقصان 375 سے 575 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔
سائبر کرائم سے خود کو بچانے کے لئے یہ جاننا نہایت اہم ہے کہ آخر یہ ہے کیا؟ سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ کوئی بھی ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹریا نیٹ ورکس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی صارف کو ہدف بنایا جائے، اسکے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سے منسلک ایسی سرگرمیاں انجام دی جائیں جو غیرقانونی ہوں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔ عام فہم انداز میں بات کی جائے تو سائبر کرائم سے مراد کسی بھی شخص کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، اکاونٹ کی ہیکنگ، معلومات کی چوری، معلومات تک مجرمانہ رسائی، نازیبا پیغامات ، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز اور ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی ہے۔اسکے علاوہ کسی بھی معلوماتی نظام تک جان بوجھ کر غیر قانونی طریقے سے رسائی اور موجود ڈیٹا کو جان بوجھ کر یا بغیر اجازت نقل کرنا یا آگے بھیجنا ، کسی بھی ڈیٹا سسٹم کو نقصان پہنچانا اور حکومت یا عوام میں خوف و ہراس یا عدم تحفظ پیدا کرنے کی کوشش کرنا بھی سائبر کرائم میں آتا ہے۔
دنیا بھر میں سائبر کرام کے خلاف قوانین موجود ہیں اور سائبر کرائم کے زمرے میں آنے والے جرائم کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔بین المذاہب، فرقہ وارانہ یا نسلی منافرت کو بڑھاوا دینا ، ان کو بڑھاوا دینے والی معلومات تیار کرنا یا اسے نشر کرنا، دہشت گردی کی غرض سے معلومات تیار کرنا اور فنڈ طلب کرنا، لوگوں کو بھرتی کرنا یا دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنا، کسی بھی انفارمیشن سسٹم، ڈیوائس یا ڈیٹا میں مداخلت یا دھوکہ دہی کے مقصد کے تحت اس میں ڈیٹا داخل کرنا، خارج کرنا، چھپانا یا اس میں ترمیم کرنا، دھوکے کی نیت سے کسی معلوماتی نظام یا آلے میں مداخلت کرنا یا اسے استعمال کرنا، کسی شخص کو دھوکہ دینا یا اسے دھوکے سے تعلق قائم کرنے پر مائل کرنا، سائبر جرائم میں مدد کے لئے آلات فراہم کرنے کی پیشکش کرنا، بغیر کسی اختیار کے کسی دوسرے شخص کی شناختی معلومات حاصل کرنا، فروخت کرنا، قبضے میں رکھنا، منتقل کرنا، استعمال کرنا ، منظور شدہ قانونی طریقہ¿ کار سے ہٹ کر موبائل فونز کے سم کارڈ، دوبارہ استعمال کے شناختی موڈیول یا سیلولر موبائل، وائرلیس فون اور دیگر ہینڈ ہیلڈ ڈیوائسز جیسے کہ ٹیبلٹس کی فروخت یا فراہمی ، انفارمیشن سسٹم سے یا اس کے اندر سے کوئی غیرمجاز ٹرانسمیشن جو عوام کے لئے نہ ہو یا عوام کے لئے عام نہ ہو، یا کسی انفارمیشن سسٹم سے ڈیٹا کا غیرمجاز الیکٹرومیگنیٹک یعنی برقناطیسی اخراج کرنا، کسی معلوماتی نظام کے ذریعے کسی شخص کے خلاف ارداتاً اور سرعام جھوٹی اور شہرت کے لئے نقصان دہ معلومات کا اظہار یا نمائش کرنا، معلوماتی نظام کی مدد سے کسی شخص کے چہرے کی تصویر ، نازیبا تصویر یا وڈیو پر چسپاں کرنا، کسی فرد کی بےہودہ تصویر یا وڈیو کی نمائش یا اشاعت کرنا، کسی شخص کو نازیبا تصویر یا وڈیو کے ذریعے بلیک میل کرنا یا اسے غلط کام کے لئے قائل کرنا، ترغیب دلانا یا مائل کرنا، معلوماتی نظام کی مدد سے نابالغ یا نابالغ نظر آنے والے افراد کی نازیبا تصاویر یا وڈیو پھیلانا، اسے اپنے پاس رکھنا یا دوسروں کو دینا یا ایسے نابالغ افراد کی شناخت ظاہر کرنا ، کسی ڈیٹا سسٹم یا ڈیٹا کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانا، چوری کرنا،بلااجازت ضرر رساں کوڈ (کمپیوٹر پروگرام) لکھنا اور کسی معلوماتی نظام یا آلے کے ذریعے اس کی پیشکش کرنا، فراہم کرنا، تقسیم یا منتقل کرنا ، کسی شخص کو مجبور یا خوفزدہ یا ہراساں کرنے کی نیت سے انٹرنیٹ، ویب سائٹ، ای میل سمیت دیگر مواصلاتی ذرائع کی مدد سے اس کا پیچھا کرنا، رابطہ کرنا، نگرانی یا جاسوسی کرنا، بغیر اجازت تصویر کشی یا وڈیو بنانا اور اس کی نمائش یا تقسیم کرنا، بدنیتی سے کسی ویب سائٹ کا قیام اور کسی جعلی ماخذ سے اس ارادے سے معلومات کی فراہمی کہ وصول کرنے والا اسے مصدقہ سمجھ کر یقین کر لے،یہ سب عالمی طور پر سائبر کرائم میں شامل ہیں اور ان کے سرزد ہونے پر ملکی قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے اور قید ، جرمانہ یا بیک وقت دونوں سزائیں دی جاتی ہیں۔
روز مرہ زندگی میں انٹرنیٹ موبائل فون یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے ہمیں بہت سے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمارے سائبر حقوق کی خلاف ورزی میں آتے ہیں۔مثال کے طور پر:
٭٭اگر کوئی بھی شخص آپ کے نام سے ٹویٹر، فیس بک یا کسی بھی سوشل سائٹ پر اکاونٹ بنا کر استعمال کرے
٭٭اگر کوئی بغیر اجازت آپکی تصویر پوسٹ کرے
٭٭اگر کوئی لسانی، مذہبی یا فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والا مواد شائع کرے
٭٭اگر کوئی آپ کا فیس بک یا ای میل اکاونٹ ہیک کرے
٭٭اگر کوئی آپ کے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ تک رسائی حاصل کرے
٭٭اگر کوئی سوشل میڈیا پر آپ کے نام یا ساکھ کو خراب کرنے کا باعث بنے
٭٭اگر کوئی آن لائن شاپنگ، اے ٹی ایم یا منی ٹرانسفر کے ذریعے فنڈ ٹرانسفر فراڈ کرے
٭٭ اگر کوئی آپ کی ویب سائیٹ ہیک کرے
توآپ اس کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ اس کے لئے سائبر کرائم کی ویب سائٹ سے آن لائن کمپلین فارم بھرا جا سکتا ہے یا ای میل کے ذریعے اپنی درخواست جمع کرائی جاسکتی ہے۔ ہاتھ سے خط لکھ کر سائبر کرائم آفس بھیجا جا سکتا ہے۔ درخواست کو انگلش یا اردو میں لکھ کر اسکے ساتھ ثبوت کے طور پر ای میل کا پرنٹ آوٹ، تصاویر ، رابطہ نمبر، لنکس اور دیگر دستاویزات منسلک کی جا سکتی ہیں۔اسکے علاوہ بہت سی ڈجیٹل رائٹس فاونڈیشن بھی قائم کی جا چکی ہیں جہاں سے سائبر کرائم کا شکار افراد مدد لے سکتے ہیں۔
بہت سے سائبر کرائم ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہم روز مرہ زندگی میں کر جاتے ہیں اور ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ سائبر کرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی قسم کا مواد کاپی پیسٹ کرنا۔ اگرآپ شاعری، تصویر ،وڈیو یا کتاب سے کچھ بھی کاپی کر رہے ہیں تو یہ ایک قانونی جرم ہے اور کاپی رائٹ قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ کسی بھی نامعلوم اکاونٹ کو میسج بھیجنا ، کسی کو نازیبا تصاویر بھیجنا یا مسلسل کسی شخص کا سوشل میڈیا پر پیچھا کرنا بھی سائبر کرائم ہے۔ دوستوں کے اکاونٹ کھولنے کی کوشش کرنا یا کسی کے اکاونٹ کو بغیر اجازت کھولنا بھی جرم ہے۔ کسی کی پرائیویسی پر نقب لگانا ،ڈیٹا پورٹیکشن قانون کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون کے تحت بھی جرم ہے۔ اس کے علاوہ کسی سافٹ وئیر کا پائریٹڈ ورژن استعمال کرنا یا کسی ایسی سائٹ کو پراکسی لگا کر دیکھنا جو حکومت نے بلاک کی ہو، سائبر کرائم میں شامل ہے۔
سائبر کرائم کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟انٹرنیٹ ، کمپیوٹرز اور اسمارٹ فون تو اب زندگی کا لازمی جزو بن چکے ہیں اور انہیں استعمال کرتے ہوئے ہم کسی بھی وقت سائبر حملے کا شکار ہو سکتے ہیں۔اب ان سے چھٹکارا تو ممکن نہیں لیکن چند ایسی احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کی جا سکتی ہیں جن سے سائبر حملے کا نشانہ بننے کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنے کے لئے درج ذیل تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں:
٭٭ اپنی فائروال آن رکھیں:
کمپیوٹر کی فائر وال آن رکھنا ہیکرز کے حملے سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ سافٹ ویئر فائروال اس مقصد کے لئے بہترین ہے۔ اس سے کوئی بھی ہیکرآپ کے ڈیٹا ،پاس ورڈ اور دیگر معلومات تک رسائی حاصل کرکے اسے چوری نہیں کر سکتا یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
٭٭ اینٹی وائرس سافٹ ویئر :
اینی وائرس سافٹ ویئرز کو اس لئے ڈیزائن کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی قسم کے غیر متعلقہ سافٹ ویئرز کو کمپیوٹر میں آنے سے روکاجا سکے۔ یہ کسی بھی وائرس اور ورم کو کمپیوٹر میں آنے سے روکتے ہیں۔ ایسے سافٹ ویئرز عمومی طور پر ونڈوز کے ساتھ دیئے جاتے ہیں اور یہ خود بخود اپڈیٹ ہو جاتے ہیں۔
٭٭ اینٹی اسپائی ویئر ٹیکنالوجی کا استعمال :
اسپائی ویئر کی مدد سے کوئی بھی فرد آپکے کمپیوٹر پر کی جانے والی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتا ہے اور ڈیٹا بھی استعمال کرسکتا ہے۔اس سے بچنے کے لئے بہت سے آپریٹنگ سسٹم اسپائی ویئر ٹیکنالوجی پیش کرتے ہیں۔انہیں بآسانی ڈاون لوڈ کیا جا سکتا ہے لیکن ان کو خریدتے اور ڈاون لوڈ کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ اکثر اوقات ہیکرز کی جانب سے ایسے جعلی سافٹ ویئر مارکیٹ میں موجود ہوتے ہیں جوفائدے کی بجائے الٹا نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔
٭٭ آپریٹنگ سسٹم کو اپ ڈیٹ رکھئے:
کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم میں وقتاً فوقتاً اپڈیٹس شامل ہوتی رہتی ہیں تاکہ ان میں موجود خامیوں کو دور کیا جاسکے لہٰذا نئی اپڈیٹس کو انسٹال کرنا آپ کو سائبر حملوں سے بچا سکتا ہے۔
٭٭ ڈاون لوڈنگ میں احتیاط سے کام لیں:
کسی احتیاط کے بغیر ڈاون لوڈ کیا جانے والا مواد یا ای میل اٹیچمنٹ آپ کے کمپیوٹر میں وائرس پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ کسی بھی ایسے ای میل اکاونٹ کی جانب سے بھیجی جانے والی ای میلز کو مت کھولیں جسے آپ نہ جانتے ہوں۔
٭٭کمپیوٹر استعمال کے فوراً بعد بند کردیں:
کمپیوٹر کو مسلسل آن رکھنا بھی ہیکرز کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ کوئی غیرمتعلقہ شخص بھی آپ کی غیر موجودگی میںآپ کے سسٹم کو استعمال کر سکتا ہے اس لئے کمپیوٹر کواستعمال کے فوراً بعد بند کردیں۔
اپنے اسمارٹ فون کے استعمال کو محفوظ بنانے کے لئے آپ درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں:
٭٭اسمارٹ فون کےلئے ہمیشہ مضبوط پاس ورڈ استعمال کریں۔کوئی نام یا مکمل لفظ پاس ورڈ میں استعمال نہ کریں۔
٭٭اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ کی ڈیوائس استعمال کے بعدخودکار انداز میں لاک ہو جائے۔
٭٭سیکیورٹی سافٹ ویئرز کو انسٹال کیجئے۔
٭٭ صرف مصدقہ ذرائع سے آنے والی ایپس کو ہی ڈاون لوڈ کریں۔
٭٭کسی بھی ایپ کو ڈاون لوڈ کرنے سے پہلے ایپ کے اجازت نامے کو لازمی چیک کریں۔
٭٭اپنے آپریٹنگ سسٹم کو اپڈیٹ رکھیں۔
٭٭نامعلوم ٹیکسٹ میسیج یا ای میل کے ذریعے موصول ہونے والے کسی بھی لنک کو اوپن مت کریں۔
٭٭آٹو میٹک وائی فائی کنکشن کو بند کر دیں۔
٭٭ براوزنگ یا آن لائن شاپنگ کے دوران ایچ ٹی ٹی پی لنکس کے بجائے ایچ ٹی ٹی پی ایس لنکس استعمال کریں۔
٭٭اپنی بیک اپ سیٹنگ چیک کرتے رہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے کے باوجود خودکار طریقے سے بیک اپ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور موبائل کسی دوسرے شخص کو فروخت کرنے کے بعد یہ ڈیٹا ریکور کرکے غلط مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آن لائن بینکنگ میں بھی اکثر فراڈ کا سامنا کرکے حلال کمائی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔بینکنگ کو محفوظ بنانے کے لئے درج ذیل تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
٭٭ مختلف بینک اکاونٹس کے لئے مختلف پن کوڈ استعمال کریں۔
٭٭پبلک مقام پر موجود کمپیوٹرکو انٹرنیٹ بینکنگ کے لئے استعمال نہ کریں۔
٭٭اپنے کارڈز اور پن کوڈ کو ایک ساتھ مت رکھیں۔
٭٭آن لائن بینکنگ کے ای میل ٹرانزیکشن اور موبائل ایس ایم ایس الرٹ کو رجسٹر کروائیں۔
٭٭ایسی کسی بھی ای میل کا جواب نہ دیں جس میں پاس ورڈ یا پن کوڈ مانگا گیا ہو۔
٭٭انٹرنیٹ بینکنگ کے بعد اکاونٹ لاگ آوٹ کرنا ہرگز نہ بھولیں۔
٭٭اے ٹی ایم سے رقم نکلواتے وقت پن کوڈ سب کے سامنے ہرگز نہ ڈالیں۔
٭٭ اے ٹی ایم استعمال کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ارد گرد کوئی دوسری ڈیوائس منسلک نہ ہو۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس بھی ہماری زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہیں۔66 فیصد سائبر کرائم انہی ویب سائٹس کے ذریعے ہوتے ہیں۔اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس کو آپ درج ذیل طریقے سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔
٭٭تمام اکاونٹس کے لئے لاگ ان نوٹیفیکیشن الرٹ کا استعمال کیجئے تاکہ کسی بھی مقام سے اکاونٹ لاگ ان ہوتے ہی آپ کو موبائل پر پیغام موصول ہوجائے۔
٭٭ ایک سے زیادہ سیکیورٹی فیچرز استعمال کریں۔ٹو اسٹیپ ویری فکیشن اس حوالے سے بہترین ہے۔
٭٭ اپنا اکاونٹ پبلک نہ رکھیں بلکہ صرف اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو ہی اپنی معلومات تک رسائی دیں۔
٭٭ اپنی پر وفائل کو سرچ انجنز سے بلاک کر دیں۔
٭٭ اپنی پرائیویسی سیٹنگ کو چیک کرتے رہیں۔ ایپ میں نئی اپڈیٹس شامل ہونے کے بعد اپنی سیٹنگ لازمی دیکھ لیں کیونکہ اکثر پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی کے بعد صارفین کی پرائیویسی سیٹنگ بھی خود بخود بدل جاتی ہے۔
٭٭ وائی فائی کو پبلک رکھنا بھی آپکو بڑی مشکل میں پھنسا سکتا ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں دہشت گردوں نے پبلک وائی فائی کو استعمال کیا۔ آپ اپنے وائی فائی کو درج ذیل طریقوں سے محفوظ بنا سکتے ہیں:
٭٭وائی فائی راوٹر میں دیا جانے والا ایڈمنسٹریٹر پاس ورڈ اور یوزر نیم راوٹر خریدتے ہی تبدیل کردیں۔
٭٭ مشکل پاس ورڈز استعمال کیجئے اور پاس ورڈ کو تھوڑے عرصے بعد تبدیل کرتے رہیں۔
٭٭ جب وائی فائی استعمال میں نہ ہو تو اسے بند کر دیجئے۔
٭٭ گیسٹ نیٹ ورکس کو بند کر دیں۔
٭٭ڈی ایچ سی پی سرور کو ڈس ایبل کر دیں۔
اپنی براوزنگ کو محفوظ بنانے کے لئے آپ یہ احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔
٭٭ کسی بھی مفت آن لائن مواد پر بھروسہ مت کریں۔
٭٭کوئی بھی آن لائن چیز مفت حاصل کرنے کے لئے ذاتی معلومات فراہم مت کریں۔
٭٭ نامعلوم لنکس کو کلک مت کریں۔