Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”اسٹریٹ چلڈرن“، معاشرے کا حُسن، قوم کا مستقبل

عنبرین فیض احمد۔ کراچی
بچے وہ معصوم کلیاں اور کونپلیں ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔ قوموں اور ملک کے مستقبل کا انحصار انہی پرہوتا ہے۔ یہ گھروں کی رونق ہوتے ہیں۔ یہ بچے پڑھ لکھ جائیں تو کل کون کیا بنے گا۔ انہی بچوں میںسے پڑھ لکھ کر کوئی ڈاکٹر بنتاہے ، کوئی انجینیئر ، کوئی قانون دان، کوئی سیاست دان تو کوئی صحافی ، الغرض زندگی کے مختلف شعبوںسے وابستہ ہو کروہ ملک و قوم کی خدمت میں حصہ لیتے ہیں۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غریب کا بچہ جو دوقت کی روٹی کے لئے ترس رہاہے، ایسے بچے جن کا نہ کوئی گھر ہے نہ ٹھکانہ ،جو والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیمی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور مختلف سڑکوں اور گلیوں کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں جو آج کسی فٹ پاتھ پر توکل کسی دوسری گلی کی نکڑپراور تیسرے دن کسی بڑے پائپ میں تو کبھی کسی دکان کے آگے بسیرا کرتے دکھائی دیتے ہیں،ایسے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ کیا ان بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ یہی وہ معصوم پھول ہوتے ہیں جنہیں ہم عرف عام میں اسٹریٹ چلڈرن کہتے ہیں۔ آخر ان معصوموں کا کیا قصور ہے ۔ مستقبل کے ان معماروں کا اپنا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ان معصوموں کو ان کے حقوق دے، انہیں تعلیم اور دو وقت کی روٹی فراہم کرے۔ اگر کسی قوم نے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنے مستقبل کے معماروں کی طرف توجہ دیتی ہے۔ اگر قوم اپنے معماروں کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کرتی ہے تو اس قوم کو زوال گھیر لیتا ہے مگر افسوس ہم یہ سب نہیں سوچتے ۔ہم تیسری دنیا کے لوگ صرف پہلی دنیا کی تقلید کرنا جانتے ہیں۔ ہم اُن کی دیکھا دیکھی مختلف سالانہ یوم مناکراپنے ارد گرد موجود لوگوں اور ابلاغی ذرائع کی مدد سے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم ہی تو ہیں مغرب اور جدیدیت کے پروردہ۔
دیکھاجائے تو مغرب والے ایسے دن منا کر اپنے معاشرے میںکچھ نہ کچھ بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں او رہر سال ایسے لائحہ عمل اختیار کرتے ہیںکہ ان کے معاشرے میں بہتر سے بہتر صورت حال پیدا ہو سکے اور لوگوں کی زندگیوں میں ہر سال بہتری آئے مگر ہم صرف نقالی کرنا جانتے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز میں نہ تو غربت کو کم کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نہ ہی مہنگائی میں کمی ہوتی ہے۔ 
حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں غربت ، محرومی ، عدم مساوات کے انسداد اور غریب و نادار افراد کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف سیمینار اور خصوصی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں تا کہ غریبوں کے بچوں کی تعلیم ، صحت ، تفریح او رذہنی تربیت ہو سکے تاکہ یہ بچے بھی معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ 
ہمارے وطن عزیز میں بھی ہر سال بچو ں کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غریبوں کے بچوں کے حوالے سے کافی بات چیت ہوتی ہے انکی بہتری کیلئے خوب غور وفکرکیاجاتاہے۔ تقاریر بھی ہوتی ہیں لیکن افسوس یہ تقاریر صرف تقاریرہی ہوتی ہیں ان پرکسی سطح پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ معصوم بچے ہمارے قوم کا مستقبل ہیں۔ ہمارا سرمایہ ہیں ہمیں ان کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان پھولوں کو مرجھانے سے بچائیں۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان بچوں کے لئے صحت ، تعلیم و تفریح کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو ہراس بچے کے ذہن میں ابھرتاہے جو ان حالات سے گزر رہا ہے۔ کیا ہم ان معصوم پھولوںکے ساتھ نرمی سے ،محبت سے پیش آتے ہیں۔ گھروں میں ، ہوٹلوں میں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور بچوں سے اپنی اولادوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ سڑکوں پر گاڑیاں صاف کرتے بچوں ، کوڑا کرکٹ اٹھانے والوں یا پھر بھیک مانگنے والے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ ہرکوئی ان کو دیکھتا ہے، کوئی انہیں بھکاری سمجھ کر حسب توفیق بھیک دیتا ہے یا پھران سے اپنی گاڑی صاف کروا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اکثر لوگ ان غربت کے ماروں کو دھتکاردیتے ہیں لیکن کوئی انکے طرز زندگی پر غور نہیں کرتا بلکہ ان کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
بلاشبہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بچوں کی تربیت اور تعلیم کسی فرد واحد کا کام نہیں ،اس میں ریاست اور عوام دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں اتنی مہنگائی ہے کہ ایک فرد کی کمائی سے گھر چلنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس لئے چھوٹے چھوٹے بچوں سے محنت مزدوری لی جاتی ہے۔والدین اپنے دل پر پتھر رکھ کر ان معصوموں کو مشقت پر لگا دیتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان معصوموں کے ہاتھوں میں قلم اور کتابیں ہونی چاہئے تھیں۔ آج ان معصوموں سے مشقت لی جا رہی ہے۔ہمارے ہاں بڑی تعداد میں غربت کے مارے بچے چھوٹی فیکٹریوں ، ہوٹلوں، کارخانوں ، اینٹوں کے بھٹوں اور دوسرے کاروباری مراکز پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان غریبوں کو بھی دنیا میں جینے کا حق ہے۔ بلاشبہ یہ بچے خواہ غریب کے ہوں یا امیر کے ہمارا سرمایہ افتخار ہیں۔ ہمار ا اور ہماری قوم کا مستقبل ہیں۔ان کی بہترین پرورش پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ جب تک ریاست اور معاشرہ ان غریبوں کے لئے بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کریں گے، تعلیم ، صحت و علاج معالجے کے مواقع فراہم نہیں کریں گے، یہ غربت کے مارے بچے کوڑا کرکٹ سے اپنے لئے رزق تلاش کرنے پر مجبور رہیں گے۔ فضا میں اڑتی دھول کو اپنی سانسوں میں کھینچتے رہیں اور اسی کو اپنا مقدر سمجھتے رہیں گے۔ 
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں ایک معصوم بچہ گاڑی صاف کر رہا ہے۔ اس معصوم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے دن منایا جا رہا ہے ۔وہ دنیا و مافیہا سے خبر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے گاڑی صاف کرنے میں مشغول ہے۔ ہم صرف بھی بچوں سے مشقت کے انسداد کا دن مناتے ہیں، مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہیں جہاں ایسے دن منانے کا مقصد اپنا احتساب کرنا ہوتاہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں غریبوں کی حالت میں کس حد تک بہتری آئی ؟ ماضی کے مقابلے میںحالات بہتر ہیں یا نہیں؟ ہمیں اس بات کی قطعی فکر نہیں ،ہمیں تو صرف تقلید کرنی آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریبوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاتا ،نہ ہی صاحب اختیار ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے بہتر پالیسیاں وضع کرتے ہیں اورنہ کوئی اقدامات کرتے ہیں جس سے ملک میں غربت ختم ہو سکے۔ ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے روز بروز غربت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ صورت حال جو ںکی توں ہے بلکہ غربت میں اضافے کے ساتھ عوام کی قوت خرید میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔ 
ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ بھی عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ہی بیان کیا جاتا ہے مگر یہ بات درست نہیںکیونکہ جو بچے کام کر رہے ہیں وہ مکمل طور پر اپنے خاندانوں کے لئے سہارا نہیں بن سکتے کیونکہ ان کی کمائی بہت تھوڑی ہوتی ہے جس سے پورے خاندان کی کفالت ممکن نہیںہو سکتی ۔ لوگ بچوں سے محنت مزدوری اس لئے بھی کرواتے ہیں کیونکہ انہیں بہت کم تنخواہ پر ملازم رکھا جا سکتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں بڑھتی ہوئی محنت مزدوری کی وجہ بہتر تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ 
اگر ہم میں سے ہر فرد ان بچوں کو اپنے بچوں کی جگہ رکھ کر دیکھے تو یقینا یہ کمسن بچے ہمیں انتہائی معصوم دکھائی دیں گے ۔ نجانے انہیں جبر و مشقت کی آگ میں کیوںجھونک دیا جاتا ہے۔ آج تک اس کا تعین کیوں نہیں کیا جاسکا ، کیا ہمیں اس بات کی خبر نہیں کہ ان معصوموں سے مزدوری کروانا اخلاقی طور پر بٰھی جرم ہے۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں جب بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جائیں، ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہونے لگے یا پھر ان کی نشو ونما متاثر ہو جائے یا ان کے کھیلنے کودنے کی راہ میں مشکلات او ررکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں تو پھر ایسے ملک یا معاشرے میں اس قسم کے سوال اٹھتے ہیں کہ بچوں کے بنیادی حقوق کہاں گئے ۔ان حقوق کو یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے، آیا ریاست کی یا معاشرے کی؟ صرف تقاریب و تقاریر اور سیمیناروں سے کام نہیں چلتا ۔ کچھ عملی اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں معمولی تنخواہ کے بدلے ان معصوم بچوں کی خدمات خریدلی جاتی ہیںاور پھر انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو جینے کا حق حاصل ہو تا اور وہ بھی دنیا میں ایک خوش و خرم زندگی بسر کر سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کئی لاکھ بچے ہمارے وطن عزیز میں تعلیم حاصل کرنے کی بجائے محنت و مشقت کر نے پر مجبور ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے۔اس جانب صاحبان اختیار کی توجہ کی ضرورت ہے ۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کس حد تک پہنچ چکی ہے۔اس کی اصلاح ہونی چاہئے ۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے ہم یہ ذمہ داریاں ادا کریں گے تب ہی ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرح ثمرات حاصل کر پائیں۔ 

شیئر: