Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کی بہبود کا خیال، والدین کا فریضہ

اُم مزمل۔جدہ
وہ اپنی سہیلی سے فون پر مصروف گفتگو تھی۔ وہ اخبار بینی کرتے ہوئے گاہے بگاہے اس پراُچٹی نگاہ ڈال لیتا۔ملک کے معاشی حالات کا تجزیہ کرتے کالم کو پڑھتے ہوئے اتنا منہمک ہوگیا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ ایسی کیابات ہوئی کہ وہ جو ہمیشہ نرم لہجے میں بات کیا کرتی تھی، آج سخت لہجہ اپنائے ہوئے باور کرارہی تھی کہ آپ صرف چند سال پہلے وہاں پہنچی ہیں اور آپ کے خیالات اتنے بدل گئے ہیں کہ مجھے تو یقین نہیں آرہا ہے ۔آپ نے جہاں اتنے سال زندگی کے گزارے، اب وہ ہر طرح سے کمتر محسوس ہورہا ہے ۔وہاں کی تعریف
کرتے ہوئے اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ وہاں بنیادصرف اور صرف دنیا کی آسائشیں ہیں۔ بقول آپکے وہ لوگ سچ بولتے ہیں، اپنا کام وقت پر پورا کرتے ہیں،ایک دوسرے کی غیبت نہیں کرتے۔ کسی سے بد اخلاقی سے پیش نہیں آتے اور صفائی پسند ہیں تو
انکو اسکا فائدہ کیوں نہیں ہو گا ؟اس نے جواب میں اپنی سہیلی سے کہا کہ جنکی آپ تعریف کرتے نہیں تھک رہی ہیں وہ لوگ اب شادی کی پابندیوں سے بچنا چاہتے ہیں جبکہ ہر قوم اپنے اپنے طریقے سے اس فریضے کو انجام دیتی رہی ہے لیکن کچھ ماڈرن بننے کے لئے اپنے آپ کو ایسے کسی اصول وقواعد سے بچانے کے لئے دوستی،دوستی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور اس میں سراسر عورت کی تحقیر ہو رہی ہے۔
وہ ناراضی سے کہہ رہی تھی کہ ایک بات آپ سمجھ لیں کہ جب طوفان آتا ہے تواپنے ساتھ ہر چیز بہا لے جاتا ہے لیکن اس بات پرضرور غور کرنا کہ بڑے سے بڑ ا طوفان آجائے ، سیلاب آجائے یا تیز آندھی چلے، جس سے بڑے بڑے درخت ٹوٹ کر گر جاتے ہیں مگر زمین موجود پر گھاس کو اتنی بڑی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔وہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ دوبارہ نشوونما پاتی ہے بالکل اسی طرح کسی معاشرے میں کوئی تبدیلی آندھی، طوفان کی مانند آتی ہے تو اپنے ساتھ ہر اس چیزکو بہا لے جاتی ہے جو اس کے راستے میں آ جاتی ہے لیکن جب کچھ وقت گزرتا ہے تو ہر چیز اپنی درست حالت میں آجاتی ہے اور اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ اس گھاس نے یہاں سے وہاں تک اپنی ہریالی کس قدربڑھالی ہے اوروہاں کتنا خوبصورت سبزہ ہ یہاں سے وہاں تک اپنی جگہ بناتا چلا گیا ہے۔
وہ اس کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا تھا کہ یہ تو اس نے سو چا ہی نہیں تھا کہ کامرس کی جس الجھن کو سلجھانے میں وہ پریشان ہو رہا تھا اس کے اس جملے سے اس مسئلے کا حل مل گیا تھا۔وہ جان چکا تھا کہ اس کو کل آفس میں کیا پلان دینا ہے۔
سب اسکی ذہانت کی تعریف کر رہے تھے کہ کیا بہترین نکات آپ نے بتلائے ہیں۔ خاص طور سے اس بارے میں نشاندہی کی ہے کہ کوئی کھانے کی چیز بیرون ملک سے نہ منگوائی جائے ۔یہ اصولی بات ہے کہ جو انسان جہاں رہتا ہے، اسی زمین میں اُگی ہو ئی چیزیں اسے کھانی چاہئیں اس طرح وہ بہت سی بیماریوں سے بچا رہے گا ۔ تعلیمی اداروں کو پابند کیا جانا چاہئے کہ سالانہ تعطیلات میں ہر جماعت ادارے کی جانب سے گاﺅ ں میں ایک قطعہ اراضی میں کوئی چیز کاشت کرے۔ اس سے انکی معلومات میںاضافہ بھی ہوگا اور صحت بھی آب وہوا کی تبدیلی سے اچھی ہوگی اور اس با ت کو جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ ترقی یافتہ ممالک کیوںاپنے اپنے گاﺅں دیہات کو آباد کرتے ہیں۔ 
ہم لوگ تقریباً ڈھائی عشرے سے زراعت کے شعبے میں اتنی توجہ نہیں دے رہے جتنا کہ اس طرف توجہ دینی چاہئے تھی۔ ہم صرف جدید ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ رہے اور انسان کی بنیادی ضرورت کو نظر انداز کرتے رہے ،اب یہ صورتحال ہے کہ ہمیں اپنی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بیرون ملک سے چیزیں منگوانی پڑتی ہیں اور ہمارا پیسہ اس طرح ضائع ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی بچت میں اضافہ نہیں ہوتا۔
وہ میٹنگ کی سربراہی کرتے ہوئے اس بات کی طرف حاضرین کو یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کررہاتھا کہ ہرفردانفرادی طور پر بچت اسکیم پر عمل کرے اور اسی طرح اجتماعی طورپر مختلف اداروں میں بہترین بچت کے منصوبے پیش کئے جائیں، سب سے پہلے تواس بات کی اہمیت جانناضروری ہے کہ انسان کو رہنے کے لئے گھر کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کاحصول آج کی دنیا میں مشکل سے مشکل ترہوتا جا رہا ہے۔اب ہر ملازم پیشہ فردکے لئے انکی حیثیت کے مطابق کوارٹرز یا گھروں کی اسکیم بنائی جائے اور اس کی تنخواہ سے ہر مہینے
کچھ رقم منہا کردی جائے تو اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے سے لاکھوں لوگوں کی بنیادی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی اور وہ اپنی پوری ذہنی
صلاحیت اپنے منصب کی ذمہ داری کی ادائیگی پر صرف کرسکیں گے۔
وہ بتانا چاہتا تھا کہ جب ملک میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو تجارت میں نقصان ہوتا ہے توبہت کچھ اس میں اسٹاک ایکسچینج اور پیسے سے پیسہ کمانے والوں کو نقصان پہنچتاہے اور اسکی وجہ سے ملکی سطح پر اس کے منفی اثرات تجارت پر پڑتے ہیں لیکن زراعت وہ شعبہ ہے جو سدابہار ہے ۔اس میںہر وقت کسی نہ کسی بوائی کا وقت چل رہا ہوتا ہے۔ موسمی پھل، سبزیاں بڑے پیمانے میں اگانی چاہئیں۔ اس طرح ہم ملک میں خوراک کی ضرورت خود پوری کرنے کے قابل ہوں گے اور اپنی ضرورت سے زائداشیائے خور و نوش کو دوسرے ممالک کو بھیج سکیں گے۔
وہ یہ بھی نکتہ بتانا چاہتا تھا کہ ہمارے یہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں ۔بس ان کی تقسیم میں درستگی لانی چاہئے ۔اس طرح ہر ایک کی ضرورت پوری ہوسکے گی۔اسکا کہنا تھا کہ جہاں بڑے بڑے تاجر ناکام ہوجاتے ہیں ،وہاں چھوٹے پیمانے پر چلنے والی اسمال انڈسٹریز ، عوام کی معیشت کو مضبوط سہارا فراہم کرتی ہیں۔جہاں ملک کے بڑے تجارتی ادارے ریاست کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہیں چھوٹے پیمانے پربےشمار تجارت پیشہ افراد معاشرے کی اقتصادیات میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔اس طرح عوام مشکلات میں نہیں گھرتے۔لوگوں نے اسکے تمام نکات کو غور سے سنا تھا اور سود سے پاک نظام کو اس صورت میں قابل عمل بنانے کی منظوری دے دی تھی کہ آپ جہاں جس ادارے کے مالک ہوں ،اپنے ملازمین کے لئے رہائش کا انتظام کریں اور انہیں اسکا مالک بنا دیں اور انکا معاملہ بالکل صاف رکھیں کہ انہوںنے اتنی رقم قرض کے طور پر لی اور انہیں ایک مقررہ رقم کی ادائیگی اپنی ماہانہ تنخواہ سے کرنی ہوگی اور اسلام کا یہی اصول ہے کہ جتنی اقم قرض لی گئی ہے ،اتنی ہی واپس کرنی ہے ۔ اس میں نہ ایک پیسے کا اضافہ ہوگا اور نہ ہی کمی۔
اس نے فون پر کی جانے والی گفتگو پر غور کیا ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ریاست کی اقتصادیات اور اخلاقیات کے اصولوں میںبہت مماثلت ہے۔ جن اصولوں کو اپناکر ہم اخلاقیات کو سنوارسکتے ہیں انہی اصولوں پر چل کر معاشرے کوترقی کی راہ پر لگا سکتے ہیں۔
وہ اسکی بات کہ جب سیلاب کا ریلہ آتا ہے تو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جاتا ہے ۔آندھی، طوفان میں بڑے بڑے طاقتور درخت ٹوٹ کر گر جاتے ہیں لیکن ان سے لاکھوں گنا بڑی تعداد میں گھاس برقرار رہتی ہے جو ایک وسیع کام کے لئے کارآمد ہوتی ہے اور
آج اگر دوسروں کی دیکھا دیکھی فیشن کا سیلاب آیا ہوا ہے کہ اس میں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچے بغیر دھڑادھڑ گھر توڑے جارہے ہیں تو یہ بھی وہ طبقہ ہے جس نے میڈیا کی چکا چوند میں قدم رکھ دیا ہے ۔ وہ سکوں کی تازہ تازہ جھنکار سن کر مدہوش ہوتے جارہے ہیں اور عورت کی آزادی کا مطلب بھی سمجھنے سے قاصر ہیںلیکن ان مٹھی بھر لوگوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان گھرانوں کی ہے جو روپے پیسے کو اہمیت نہیں دیتے۔اسے بس اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں کہ زندگی کی ضرورتیں پوری ہو جائیں۔
جانناچاہئے کہ بچوں کی بہبود کا خیال رکھنا والدین کا فریضہ ہے ۔بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بھی والدین کو سونپی گئی ہے اور ان سے اس بارے میں سوال پوچھا جائے گا۔
 

شیئر: