انہیں ممتا کی گرمی سے آشنا کرنیوالی گود میسر نہیں
باپ کی موجودگی میں یتیموںکی سی زندگی،بے چارگی کا پرتو
تسنیم امجد۔ریا ض
معا شرے کی اکائی گھر ہے اور اس گھر کا مطلب ہے ایک ایسی جگہ جہا ں ما ں باپ اور بچے مل کررہیں ۔زن و شو باہمی تعاون سے ہی معا شرے کی بنیاد استوار کرتے ہیں ۔اس گھر کے اندر ایک نسل پر وان چڑ ھتی ہے ۔دونوںوالدین اس سرمایہ¿ ملک و ملت کے محا فظ ہوتے ہیں ۔
بچے کو دی جانے والی تر بیت ہی اسے شخصیت عطا کر تی ہے جو کر دار وہ معا شرے میں انجام دیتا ہے وہ تر بیت کا اثر ہو تا ہے۔ جن گھرا نو ں میں وا لدین کے در میان اچھے تعلقات ہو تے ہیں وہاں کے معا شی حا لات کمز ور بھی ہو ں تو گھرکا ما حول بہت خو شگواررہتا ہے۔ہمارے گرد بہت سی کہا نیا ں ایسی ہیں جو وا لدین کے با ہمی تعلقات کے گرد گھو متی ہیں۔بچے کا دل معصوم ہو تا ہے ۔آ نکھ کھو لتے ہی وہ وا لدین ہی کے چہرے سے آشنا ہو تا ہے ۔اس تصویر کی چھاپ کو وہ زندگی بھر نہیں بھو لتا ۔وہ انہیں رول ما ڈل مان لیتاہے۔اس جذ با تی وابستگی کا نعم ا لبدل کو ئی نہیںہوسکتا۔ماں اور باپ دو نوں ہی اس کی زندگی میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔کسی ایک کی عدم موجودگی اس کی شخصیت پر اثر انداز ہو تی ہے ۔
وہ ڈھو نڈ تا ہے ہر گھڑی
کو ئی جو اس کو پیار دے
چند برس قبل ہمیں لا ہور میں ایک ادارے میں جا نے کا اتفاق ہوا ۔اس کی بنیاد یہا ں1976ءمیں رکھی گئی تھی ۔دنیا بھر میں اس کے 1800 سے زیادہ پرا جیکٹس ہیں۔وہا ں بے شمار بچے ایسے بھی تھے جو یتیم نہیں تھے بلکہ ما ں اور باپ کی علیحدگی کا شکار تھے ۔وہا ںکی سپروائزرسے کچھ گفتگو ہو ئی جس کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچے کہ گو اس ادارے نے ایسے بچو ں کو وضع وضع کی سہولتوں سے نوا زا ہوا ہے اس کے باوجود وہ ان کے چہرو ں پر وہ مسکراہٹ لانے میں نا کام ہے جو وا لدین لا سکتے ہیں ۔یتیم خانے جیسے مسکن کے باسی یہ بچے ابھی سے ایک مشینی زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں کو ئی ایسی گودمیسر نہ تھی جو انہیں ممتا کی گرمی سے آشنا کر دیتی ۔ایک ہا سٹل کی سی زند گی انہیں اور کیا دے سکتی ہے ۔ایک ٹا ئم ٹیبل کے مطابق انہیں چلا نا ادارے کی مجبوری ہے ۔باپ کی موجودگی میں یتیموںکی سی زندگی درحقیقت بے چارگی کا پرتو ہے ۔
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر نے ما ضی کے کچھ وا قعات یاد دلا دیئے ۔بتول نے ڈرتے ڈرتے ا صغر کی جانب سے آیا ہووا ٹس ایپ پیغام کھولا تواس میں وہی لکھا تھا جس کا اسے اند یشہ تھا ۔الفا ظ کچھ یو ں تھے:
”میرا تمہارے ساتھ گزارہ مشکل ہے، اس لئے نہیں کہ تم میں کو ئی عیب ہے ،صرف اس لئے کہ میری زندگی میں ایک اور لڑ کی آ چکی ہے ۔اسے چھو ڑ نا مےرے بس میں نہیں ۔اس کی خوا ہش کے مطابق مجھے ایک کو ہی ساتھ رکھنا ہے ۔بچو ں کے بارے میں فیصلہ تمہارے ہا تھ میں ہے ۔میں نہیں رکھ سکتا ۔چا ہو تو انہیں ہا سٹل میں دا خلہ دلا دو ۔طلاق کل آپ تک پہنچ جائے گی ۔“
اس نے کا نپتے ہاتھوں سے فون بند کیا اور صو فے پر گر گئی ۔اب اس کے سامنے 3 بچو ں کا مستقبل تھا جو بمشکل 8،5اور3 برس کے تھے ۔بیٹی ان میں بڑی تھی ۔اس نے تینو ں کو آ واز دی اور کہا کہ پیزا کھانے چلتے ہیں ۔تینو ں بہت خوش ہوئے ۔بیٹی نے کہا کہ ماما !بابا کو بھی بلا لیتے ہیں ۔بتول نے کہا نہیں وہ کسی کام میں مصروف ہیں ۔کھا نے کے بعد اس نے بچو ں سے پو چھا کہ آپ کو کون زیادہ اچھا لگتا ہے،ماما یا بابا ؟ تینو ں بیک زبان بو لے ، دونوں۔
بیٹی سمجھدار تھی اس نے ما ں کی آ نکھو ں میں تیر تے آ نسو دیکھ لئے تھے ۔وہ کہنے لگی ما ما ،مجھے آپ زیادہ اچھی لگتی ہیں ۔تھو ڑے توقف کے بعد بتول نے کہا کہ ،آپ کے بابا نے مجھے چھو ڑ نے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔اب ہماری زندگی کا انداز کچھ اور ہو گا ۔آپ کو میرے ساتھ رہنا ہو گا ۔بیٹی اور چھو ٹے بیٹے نے کہاکہ ٹھیک ہے جبکہ بڑا خا موش رہا ۔کچھ دیر بعد بو لا کہ میں آپ سے ملنے آ جا یا کروں گا ۔بتول نے بتا یا کہ بابا کچھ اس طرح مصروف ہو چکے ہیں کہ آپ کو سا تھ نہیں رکھ سکتے ۔
بتول کی بڑی بیٹی کی شادی کی تقریب پر اس نے اپنے سابق شوہر کو پیغام بھیجنا چا ہا تو بیٹی نے سختی سے روک دیا ۔چھو ٹا تو گریجویٹ ہو گیا لیکن بڑا نہیں پڑ ھ سکا ۔بتول نے بہت کو شش کی لیکن وہ بچہ اپنی ہی سو چو ں میں گم رہنے لگا ۔اسے یہ شدت سے ا حساس ہوا کہ اس کے والد ان سے نفرت کر تے ہیں لیکن کیو ں ؟اس احساس نے اس کی شخصیت میں احساس کمتری کو ٹ کوٹ کر بھر دیا ۔ ماں نے ہزار کوشش کی مگر وہ اس کی سوچ بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔اس کے لئے اس کے باپ کی شخصیت رول ماڈل تھی۔ وہ اکثر کھیل کے دوران کہتا تھاکہ میں بڑے ہو کربابا جیسا بنوں گا ۔آج اس کا بس یہی کہنا ہے کہ میرا جی نہیں چا ہتا ،مجھے ماما آپ اکیلا چھو ڑ دیں ۔باپ کی مو جو دگی میں یتیمو ںکی سی زندگی بہت دکھ دیتی ہے ۔
اسی طرح ہم سات سالہ پرویز کو نہیں بھلا سکے ۔ناشتے کے دوران ہماری نظر فرش پر بیٹھے اس بچے پر پڑ ی جو رو ٹی پر رکھے سالن کو کھاتے ہوئے ہماری میز کی جا نب بھی دیکھ لیتا تھا جہا ں کئی ڈشیں رکھی تھیں ۔ہمارے سوال پرآ پا بو لیں کہ یہ فلا ں فلا ں دور کے رشتے دار کا بیٹا ہے۔ اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی ہے اور ما ں نے اسے ہمارے پاس پڑ ھنے کے لئے بھیجا ہے ۔آپا نے کہا کہ مجھے یہ بہت تنگ کرتا ہے ۔کہنا نہیں ما نتا۔ ان کے ہا ں ہم دو دن ٹھہرے اور یہی کچھ دیکھا ۔کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔آج اس بات کو 20 برس ہو چکے ہیں۔ ہمیں تجسس تھا کہ اس کی خیر خیریت معلوم ہو جائے ۔ حال ہی میں معلام ہوا کہ وہ وہا ں سے بھاگ گیا تھا اور اس کا کو ئی اتہ پتہ نہیں۔
یہ تو ان بچو ں کے حالات ہیں جن کے والدین کے درمیان علیحد گی ہوگئی ۔یتیم بچے بھی اگر رشتے دارو ں کے ہا ں پلیں تو ان کے ساتھ نو کروں کا سا سلوک ہو تا ہے ۔ہماری ایک رشتے دار فیملی سڑک کے حادثے کا شکار ہوئی ۔ اس گھرانے میں صرف ایک بچہ زندہ بچاجو اس وقت 5 برس کا تھا ۔اس کے والدین کی خا صی جا ئداد تھی، اس لئے اس بچے کی کفالت کے لئے ارد گرد کے کا فی لوگ تیار ہو گئے لیکن اس کی تعلیم و تر بیت پر کسی نے تو جہ نہیں دی ۔اسے بمشکل 10ویں تک پڑ ھا یا ۔اس کا کہنا ہے کہ بنا و ٹی رویے مجھے جلد ہی محسوس ہو گئے تھے۔ اس نے کہا کہ ہمارے ڈرا ئیور کا بیٹا میرا دو ست تھا ۔اکثر میرے ساتھ ہی رہتا تھا ۔اس کے والد بھی حا دثے میں مارے گئے تھے۔ میں نے بہت ضد کی اسے میرے ساتھ رہنے دیں لیکن کو ئی نہ ما نا ۔میں تب اس عمر میں نہیں تھا کہ اپنی بات منوا سکتا ۔وہ نا مساعد حالات کا شکار رہا ۔ اپنی ما ں کے ساتھ رو ٹی کا بھی محتاج رہا ۔اب میںباشعور ہو ں۔ اپنے دوست اور اس کی ماں کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا ہو ں۔ہم دونوں مل کر کو ئی بز نس کریں گے ۔یہاں ایک شاعر کا شعر یاد آیا کہ:
ذرا بھی پاﺅ ں میں لر زش نہیں ہے
مجھے کا نٹو ں پے چلنا آ گیا نا ں؟
یہ حقیقت ہے کہ یتیم بچے رشتے دارو ں کی کفا لت میں نو کروں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہو تے ہیں ۔ یتیم خانے ہی ان کا اصل ٹھکانہ ہو تے ہیں ۔اسی طرح ایسے بچے جنہیں کو ئی گود لے لیتا ہے یعنی لے پا لک ،ان کی شخصیت بھی نہیں پنپتی۔زندگی کی کسی بھی اسٹیج پر جب ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ان کے والدین نے اپنی مو جو د گی میںانہیں دو سروں کے سپرد کر کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا تو وہ بہت ٹوٹتے ہیں ۔وہ اس مجبوری کو سمجھنا ہی نہیںچا ہتے کہ کن وجو ہ کی بنا پر والدین نے یہ فیصلہ کیا ۔کسی شاعر نے کہاکہ:
ایک یتیم بچہ
دلیلِ کا ئنات بھی
آج اس جہان میں
وہ کتنا تنہا ہو گیا
چن رہا ہے بے دھڑک
زند گی کے رنگ کو
اپنی ہر امنگ کو
وہ ڈ ھو نڈتا ہے ہر گھڑ ی
کو ئی جو اس کو پیار دے
آہیں اگر بڑھ جا ئیں گی
انسا نیت مٹ جا ئے گی
میں دور سے کھڑا ہوا
یہ سو چتا ہوں کرب سے
ہر رنگِ زندگی کو میں
اس کی جھو لی میں ڈال دوں
پر کیا کروں ،کس سے کہو ں
مجبور ہوں لا چار ہو ں
میرے اور اس کے درمیاں
دیوار ہے کھڑی ہو ئی
دیوار جو شیشے کی ہے
پر ٹو ٹتی مجھ سے نہیں
اے کاش میرے دوست بھی
ہا تھو ں میں میرے ہاتھ دیں
دیوار تب گر جائے گی
انسا نیت بچ جا ئے گی